• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

'انصار الشریعہ کے سربراہ کی گرفتاری کی خبر بے بنیاد'

شائع September 10, 2017

ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید نے کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں ملوث شدت پسند تنظیم انصار الشریعہ کے مبینہ سربراہ ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی کی گرفتاری اور انکشافات سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی خبر کو بے بنیاد قرار دے دیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی رینجرز سندھ محمد سعید نے کہا کہ گذشتہ کئی دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مختلف خبریں گردش کررہی ہیں، لیکن ابھی یہ آپریشن جاری ہے اور جو بھی گرفتاریاں ہوں گی انھیں میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ انصار الشریعہ کی کراچی کے علاوہ پاکستان کے کسی اور شہر میں موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں ملی لیکن یہ ایک چھوٹا سا گروپ تھا جس میں کچھ لوگوں کا تعلق القاعدہ سے بھی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تنظیم میں شامل ہونے والے یہ افراد کراچی کی مختلف جامعات سے تعلق رکھتے تھے اور کراچی میں ہی رہائش پذیر تھے۔

مزید پڑھیں: خواجہ اظہار کے حملہ آور پولیس کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث نکلے

ڈی جی رینجرز نے کہا کہ 'اس گروپ کا اصل ہدف پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے مشن میں شامل کرنا تھا اور ان کو ساتھ ملا کر یہ گروپ شہر میں کارروائیاں کررہا تھا'۔

انھوں نے کہا کہ 'اگرچہ انصار الشریعہ پاکستان کے لیے ایک نئی تنظیم ضرور تھی لیکن جس طرح سے اس میں لوگوں نے شمولیت اختیار کی اور یہ منظم ہوئی وہ طریقہ کار نیا نہیں تھا، لہذا ماضی میں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے گروپس بنائے جن میں سانحہ صفورا کا واقعہ نمایاں ہے'۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ رواں سال جنوری اور فروری کے درمیان انصار الشریعہ کراچی میں متحرک ہوئی اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دو لڑکے جنھوں نے افغانستان کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں بھی تربیت حاصل کی اور دیگر افراد کے ساتھ مل کر شہر میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار پر حملے کے بعد ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس گروپ میں شامل افراد ہر واردات اپنا نام تبدیل کرکے کررہے تھے۔

خیال رہے کہ 2 ستمبر کو متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا تاہم وہ محفوظ رہے جبکہ حملے کے نتیجے میں خواجہ اظہار الحسن کا ایک محافظ اور ایک 12 سالہ لڑکا جاں بحق جبکہ ایک محافظ سمیت 2 افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس حملے کے بعد کراچی کے علاقے گلزار ہجری میں پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے سرچ آپریشن کیا جس میں مسلح مقابلے کے دوران ایک پولیس اہلکار جاں بحق، ایک زخمی جبکہ ایک دہشت گرد زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، جس پر الزام ہے کہ وہ خواجہ اظہار الحسن پر حملے کا ماسٹر مائنڈ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں پولیس کارروائی، اہلکار جاں بحق، زخمی دہشت گرد فرار

پولیس کا دعویٰ تھا کہ فرار ہونے والا دہشت گرد کالعدم تنظیم انصار الشریعہ سے تعلق رکھتا ہے۔

ضلع ملیر کے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شدید زخمی حالت میں فرار ہونے والے دہشت گرد کی شناخت کالعدم تنظیم انصار الشریعہ کے مرکزی کمانڈر عبدالکریم سروش صدیقی کے نام سے ہوئی۔

واضح رہے کہ خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم انصار الشریعہ پاکستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر قبول کی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Anwer Sep 11, 2017 02:12am
Sindh police did a great job Now as usual these came to take credit

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024