پاکستان کو خوشحال بنانے کا قائدِاعظم کا منصوبہ کیا تھا؟
ہر زاویے سے ایک بہترین زندگی
اسٹینلے وولپرٹ
11 اگست 1947 کو جب محمد علی جناح نے اپنی نئی نویلی آزاد قوم کی پہلی جمہوری طور پر منتخب دوستور ساز اسمبلی سے خطاب کیا، تو انہوں نے پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو بتایا کہ "حکومت کی پہلی ذمہ داری امن و امان قائم رکھنا تھی، تاکہ شہریوں کی زندگی، مال و دوسلت، اور ان کے مذہبی عقائد مکمل طور پر محفوظ رہیں۔"
ان کی "دوسری ذمہ داری رشوت اور بدعنوانی کو روکنا" تھا۔ "یہ زہر ہے، اسے جس قدر جلد ہو سکے، ختم کر دینا ہوگا۔"
ان کے مطابق "ہماری پریشان کن صورتحال میں جب ہمیں مسلسل خوراک کی کمی کا سامنا ہے، اس میں بلیک مارکیٹنگ معاشرے کے خلاف ایک عظیم جرم" ایک "لعنت" ہے۔
"اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم ریاست کو خوش و خرم اور ترقی یافتہ بنانا ہے، تو ہمیں مکمل طور پر اپنی توجہ لوگوں کی بھلائی، بالخصوص عوام اور غریبوں کی طرف مرکوز کر دینی چاہیے۔ اگر آپ اس جذبے کے ساتھ کام کریں کہ آپ سب، چاہے کسی بھی برادری سے تعلق رکھتے ہوں، ماضی میں آپ کا آپس میں کوئی بھی تعلق ہو، چاہے آپ کی رنگت، ذات، نسل کوئی بھی ہو، سب سے پہلے اس ریاست کا شہری ہے جس کو مساوی حقوق و مراعات و ذمہ داریاں حاصل ہیں، تو آپ کی ترقی کا کوئی اختتام نہیں ہوگا۔ آپ سب آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ چاہے جس بھی مذہب، ذات یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں، ریاست کے معاملات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم سب ایک ریاست کے برابر شہری ہیں۔"
محمد علی جناح نے اپنی زندگی کی آخری دو دہائیاں آزاد ریاستِ پاکستان کے اپنے زبردست اور خوبصورت خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انتھک کوششوں میں صرف کر دیں، جس نے صرف 70 سال پہلے تقسیم شدہ برطانوی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں سے جنم لیا۔ اپنے والد کی جانب سے بزنس مینیجمنٹ کی تعلیم کے لیے لندن بھیج دیے جانے پر نوجوان جناح کی سیاست میں دلچسپی کانگریس پارٹی کے صدر دادابھائی نوروجی، کی وجہ سے بڑھی۔ وہ ایک پارسی تھے، جن کے برطانوی پارلیمنٹ میں تمام ہندوستانیوں کے لیے آزادی، برابری اور انصاف کا مطالبہ کرنے نے جناح کو ان کے لیے کام کرنے پر مجبور کر دیا، اور انہوں نے کانگریس کی اس بزرگ شخصیت کو صرف تین ووٹوں سے اپنی سیٹ جیتنے میں مدد دی، جس کے بعد سے نوروجی کو مسٹر نیرو میجورٹی کہا جانے لگا تھا۔
جناح نے کانگریس میں شمولیت دادابھائی کے سیکریٹری کے طور پر اختیار کی تھی جس کے بعد انہوں نے بزنس کے بجائے قانون پڑھنے کے لیے لندن شہر کے لنکنز ان میں داخلہ لے لیا تھا۔ کسی بھی دولتِ مشترکہ کے ملک کے گورنر جنرل بننے والے اس واحد ایشیائی شخص کا پورٹریٹ آج بھی لنکنز ان کے ہال میں ٹنگا ہوا ہے۔
ہندوستان لوٹنے کے بعد جناح نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے انتہائی مہارت کے ساتھ 1916 کا معاہدہءِ لکھنؤ تحریر کیا، جو کانگریس اور مسلم لیگ کا جنگِ عظیم اوّل کے بعد دولتِ مشترکہ کے اندر خودمختار حیثیت کا مطالبہ تھا۔
انہوں نے پاکستان کے پہلے دارالحکومت کراچی کے بجائے اس سے کہیں بڑے شہر بمبئی میں اپنی وکالت کا کامیاب آغاز کیا۔ جنگ کے ختم ہونے سے قبل جناح کی مذاکراتی مہارت اور دانشمندانہ ثالثی کی وجہ سے انہیں "ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر" کہا جانے لگا تھا۔ جنگِ عظیم اوّل کے دوران جناح اور گاندھی، دونوں نے ہی دیگر ہندوستانی شہزادوں کی طرح برطانیہ کی حمایت کی۔ پنجاب کے بہادر مسلمانوں کو فرانس میں میگینوٹ لائن پر تسلط برقرار رکھنے اور میسوپوٹیمیا میں لڑنے اور مرنے کے لیے بھرتی کیا گیا۔
کانگریس اور لیگ کو امید تھی کہ اس وفاداری کے عوض انہیں جنگ کے اختتام پر آزادی، یا کم از کم خودمختاری تو ضرور دے دی جائے گی۔ مگر اس کے بجائے ہندوستان کو غیر معینہ مدت کے لیے مارشل لاء ضوابط اور امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں غیر مسلح سکھوں کا بہیمانہ قتلِ عام قبول کرنے پر مجبور کر دیا گیا، جس میں 400 افراد ہلاک اور 1200 زخمی ہوئے تھے۔
جناح نے گورنر جنرل کی کونسل میں اپنی باوقار 'مسلم نشست' سے استعفیٰ دے دیا جس پر وہ بمبئی سے منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مطابق "ایک انتہائی خوفزدہ اور نااہل بیوروکریسی، جو نہ عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور نہ ہی رائے عامہ سے آگاہ ہے، نے انصاف کے بنیادی اصولوں کو پامال جبکہ عوام کے بنیادی آئینی حقوق کو ایسے وقت میں غصب کیا ہے جب ریاست کو کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے۔"
گاندھی نے بعد از جنگ برطانیہ کے 'سیاہ کرتوتوں' اور پنجاب میں ہونے والی قتل و غارت کے خلاف اپنی پہلی ملک گیر 'ستیہ گرہ' تحریک شروع کی۔ جناح نے انہیں کانگریس کے حامیوں کو اکسانے سے باز رکھنے کی ناکام کوشش کی، جو مہاتما کے ہر برطانوی چیز، بشمول برطانیہ سے درآمد شدہ کپاس، ہر برطانوی اسکول، یہاں تک کہ تمام تجارتی اور قانونی اداروں تک کا بائیکاٹ کرنے کے انقلابی نعروں پر خوش تھے۔
جناح نے گاندھی کو خبردار کیا کہ ان کی تحریک تشدد اور سانحات کو جنم دے گی، مگر گاندھی کا اصرار تھا کہ ان کے نزدیک 'اہمسا' یا عدم تشدد سب سے مقدس تھا۔ کانگریس کے سب سے بڑے اجلاس میں ان کی 'مہان روح' کو مہاتما گاندھی کہنے کے بجائے 'مسٹر' گاندھی کہنے پر جناح کو باہر نکال دیا گیا۔ اس پر جناح نے کانگریس سے استعفیٰ دینا ضروری سمجھا اور رہائش اور قانون کی پریکٹس کے لیے لندن چلے گئے، جہاں وہ ہیمپسٹیڈ میں اپنی بہن فاطمہ اور ٹین ایج بیٹی دینا کے ساتھ رہنے لگے۔
مگر جلد ہی لیاقت علی خان اور لیگ کے دیگر رہنماؤں نے انہیں ہندوستان واپس آ کر مسلم لیگ میں ایک نئی روح پھونکنے پر مجبور کر دیا، جس کی قیادت پھر انہوں نے ساری زندگی کی۔ کراچی میں مسلم لیگ سے خطاب کرتے "ہمیں اپنی خود کی ہمت سے کام لینا چاہیے، دوسروں کو الزام دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اپنے دشمنوں سے مختلف رویے کی توقع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔"
وہ نوجوان مسلمان، جنہوں نے جناح سے لیگ کے نااہل رہنماؤں کے خلاف شکایت کی تھی، انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے جناح نے بالکل ویسے ہی جواب دیا جیسے وہ شاید آج جواب دیتے: "یہ آپ کی تنظیم ہے، اس سے باہر رہ کر اس میں نقائص نکالنے کے بجائے اندر آئیں اور اسے درست کریں۔"
کانگریس کی انقلابی تحریک، جس سے زیادہ تر مسلمان رہنماؤں کو باہر رکھا گیا تھا، کے سامنے مجبور ہو کر برطانیہ نے 1937 میں صوبائی انتخابات کے ذریعے علاقائی اختیارات منتخب کابیناؤں کے سپرد کر کے عوامی حمایت حاصل کرنی چاہی۔
نہرو نے ملک بھر میں زبردست انتخابی مہم چلائی اور کانگریس کو 11 برطانوی صوبوں میں سے 7 میں کامیابی دلوائی۔ جناح کی مسلم لیگ کے سامنے دیگر مسلمان جماعتیں آ کھڑی ہوئیں جس کی وجہ سے وہ ایک بھی صوبے میں حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے۔ نوجوان نہرو کی اس شاندار فتح نے ان کے غرور اور جناح کے لیے ان کی نفرت میں اضافہ کر دیا۔ یہاں تک کہ جب جناح نے ہندوستان کے بڑے اور کثیر اللسانی صوبوں کے لیے مشترکہ کابیناؤں کی تجویز پیش کی تو نہرو چلّائے، "ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں، کانگریس اور برطانیہ۔"
مگر جناح کا اصرار تھا کہ "تیسری جماعت، یعنی مسلمان" بھی ہیں۔ اور جب تک جماعتیں ایک دوسرے کی عزت کرنا اور ایک دوسرے سے ڈرنا نہیں سیکھیں گی، تب تک کسی بھی سمجھوتے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو منظم کرنا ہے، اور ایک بہتر دنیا کے لیے مسلمان عوام کو تیار کرنا ہوگا اور ان کی فوری معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا، اور ہمیں انہیں غربت اور بدحالی سے نکالنے کے لیے تعمیری منصوبے تیار کرنے ہوں گے۔"
جناح نے پھر کبھی نہرو کو کانگریس لیگ کابینہ پر قائل کرنے کی کوشش نہیں کی، اور کبھی بھی لیگ کو کانگریس کی بیل گاڑی کے ساتھ باندھنے کی کوشش نہیں کی، اور زور دیا کہ کانگریس نے اب "فاشزم کے شہنشاہی انداز سے ہندو مسلم سمجھوتے کی ہر امید کو ختم کر دیا ہے۔ ہم مسلمانوں کو کوئی تحفے، کوئی رعایتیں نہیں چاہیئں۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں نے اب مکمل حقوق حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم انہیں حقوق کی طرح ہی حاصل کریں گے۔ کانگریس ایک ہندو تنظیم کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔"
دسمبر 1937 میں لکھنؤ میں برطانوی بیرسٹر کے لباس کے بجائے سیاہ قراقلی ٹوپی یا جناح کیپ اور طویل سیاہ شیروانی پہنے ہوئے 'قائدِ اعظم' نے راجہ صاحب محمود آباد کے باغ میں لیگ کے اجلاس سے خطاب کیا۔
"آپ کی اولین ذمہ داری عوام کی بھلائی کے لیے ایک تعمیری پروگرام کی تیاری ہے۔ خود کو تربیت یافتہ اور منظم سپاہی کے طور پر مسلح کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا رویہ قائم کریں۔ ایمانداری اور وفاداری سے کام کریں اور اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے مقصد کی خاطر کام کریں۔ کوئی فرد یا قوم صنعت، مشکلات اور قربانیوں کے بغیر کچھ حاصل نہیں کر سکتی۔ ایسی قوتیں موجود ہیں جو آپ کو تنگ کریں گی، آپ پر ظلم کریں گی، مگر اسی آگ سے گزر کر اور انہی مشکلات کو جھیل کر ایک ایسی قوم بنے گی، جو اپنی ماضی کی شان و شوکت اور تاریخ کی حقدار ہوگی اور اپنے مستقبل کی تاریخ کو عظیم تر اور مزید شاندار بنائے گی۔ ہندوستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کو کسی چیز سے ڈرنا نہیں ہے۔ ان کی قسمت ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، اور ایک مضبوط، منظم اور متحد قوت کی طرح اپنے اتحاد اور مفادات کو لاحق کسی بھی خطرے کا سامنا کر سکتے ہیں۔"
1938 سے لے کر 1939 تک قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کو مستحکم بنانے کے کام میں جُت گئے، لکھنؤ میں موجود چند ہزار ممبران کے ساتھ مسلم لیگ کو آگے بڑھاتے گئے اور مارچ 1940 میں پنجاب کے طاقتور دارالخلافہ کے خوبصورت مغل گارڈنز کے مقام پر مسلم لیگ کے ایک عظیم الشان اجلاس کے انعقاد اور تشکیلِ پاکستان کے مطالبے کے وقت مسلم لیگ کے ممبران کی تعداد 5 لاکھ تک جا پہنچی تھی۔ جناح نے اعلان کیا کہ "مسلمان ایک قوم ہیں، "ہندوستان میں مسئلہ بین الصوبائی نوعیت کا نہیں بلکہ واضح طور پر بین الاقوامی ہے، اور اسے اسی تناظر میں حل ہونا چاہیے۔"
قائد اعظم نے مزید کہا کہ، "برصغیر کے لوگوں کے امن و خوشحالی کے تحفظ" کی خاطر برطانیہ کو ہندوستان "خود مختار قومی ریاستوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔"
ان کی تقریر میں پاکستان کا ذکر نہیں تھا، اور اگلے روز پریس ممبران نے ان سے پوچھا کہ آیا ان کا مطلب ایک یا دو نئی ریاستوں سے ہے، کیونکہ قائد اعظم کی تقریر سے ایک دن قبل بنگال کے مسلمان رہنما فضل الحق کی زیر صدارت قرارداد کمیٹی نے تقسیم ہند کی تجویز پیش کی تھی۔
قائد اعظم کو اس وقت تک یہ معلوم ہو گیا تھا کہ سگریٹ نوشی اور کھانسی میں خون کی شکایت کی وجہ ان کے پھیپھڑوں کو مہلک مرض لاحق ہوچکا ہے، اور انہیں کھانسی میں خون آنے کی بھی شکایت تھی۔ وہ برصغیر کے اُس زمینی حصے کو الگ ریاست کی حیثیت دینے پر برٹش اور کانگریس کے آمادہ ہونے کا انتظار نہیں کر سکتے تھے، وہی حصہ جو بعد میں بنگلہ دیش کی صورت میں نمودار ہوا۔
اس لیے انہوں ںے زور دیا کہ مسلم لیگ کا مطلب ایک پاکستان سے ہے، بھلے ہی وہ شمال ہندوستان کے ہزاروں میل کی وجہ سے منقسم ہو۔ جب آخری وائسرائے ہند 'ڈکی’ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم پر زور ڈالا کہ وہ انہیں پاکستان اور آزاد ہندوستان کا مشترکہ گورنر جنرل تسلیم کریں تو قائد اعظم نے انکار کردیا اور خود انہیں پاکستان کا گورنر جنرل مقرر کرنے کے لیے ان پر زور ڈالا، ماؤنٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر جنرل کی تجویز نہرو نے پیش کی تھی، قائد اعظم کبھی بھی شاہی ماؤنٹ بیٹنوں سے متاثر نہیں ہوتے جس طرح نہرو ہوا کرتے تھے۔
جن مسائل کا ذکر قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے وقت کیا تھا، ان میں سے کتنے مسائل ہیں جنہیں تین دہائیاں گزرنے کے باوجود ابھی حل ہونا باقی ہے؟
اور اب تو پاکستان کے معصوم و مفلس لوگوں، لاچار خواتین اور بچوں، اس کے ساتھ ساتھ کراچی، کوئٹہ، لاہور اور دیگر شہروں کی خوبصورت مساجد میں کھڑے پرہیز گار مسلمان جن ہولناک جرائم کا شکار ہیں، اس فہرست میں اب دہشتگرد حملے بھی شامل ہو چکے ہیں۔
قائد اعظم نے پاکستان کو ایک ایسے عظیم ملک میں بدلنے کے لیے انتھک کام کیا جہاں خوشحالی اور آزادی کے دیپ جلتے ہوں، جہاں تمام مذاہب کے لوگ، پارسی اور ہندو، مسیحی، یہودی اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تمام فرقے، متحد ہو کر کام کریں، ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کریں اور ارض پاک کو دنیا کی مضبوط ترین، معقول ترین اور امیر ترین ممالک میں سے ایک بنائیں۔
یہی وہ خواب ہے جو ہمارے عظیم قائد نے پاکستان قائم ہونے سے قبل دیکھا تھا کہ ان کی قوم ایسی بن سکتی ہے اور ایسی بنے گی۔
وہ جانتے تھے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہوگا لیکن قیام پاکستان سے تھوڑا عرصہ قبل، جب ان کے پھیپھڑوں کو لاحق مرض کی وجہ سے روز بروز کھانسی کے ساتھ خون کا اخراج زیادہ ہونے لگا تھا اور ان کے پاس اپنی زندگی کا ایک آخری سال باقی تھا تب انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو بتا دیا تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
انہیں اپنا قائد ماننے والے لوگ اکثر پوچھا کرتے کہ "ہم کس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں؟ ہماری جدوجہد کا مقصد کیا ہے؟" قائد اعظم محمد علی جناح نے جواب دیا کہ "مقصد مذہبی طرز حکومت نہیں — نہ ہی ایک مذہبی ریاست ہے۔ مذہب اس کا حصہ ہے اور مذہب ہمیں پیارا ہے۔ جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے لیے دنیاوی چیزیں اہمیت نہیں رکھتیں، لیکن کچھ ایسی دیگر چیزیں بھی ہیں جو کہ ہماری سماجی اور معاشی زندگی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس سب کچھ ہے، ذہنی صلاحیت، عقل و فہم، قابلیت اور جذبہ، مطلب ہر وہ خاصیت جو کسی قوم میں لازمی طور پر ہونی چاہیے۔ لیکن ہم میں دو چیزوں کی کمی ہے، اور میں آپ کا دھیان ان چیزوں پر مرکوز کروانا چاہتا ہوں۔
ایک تو یہ کہ بالخصوص ہماری معاشی زندگی میں خارجی طور پر غیر ملکی اور داخلی طور پر ہندو غالب ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے اندر موجود یہ خصوصیات کسی حد تک زوال کا شکار ہوئی ہیں۔ ہم اپنے پروقار کردار میں بھرپور نہیں رہے۔ اور کردار کیا ہے؟ عظمت و وقار کی بلندی، اور اعلیٰ اخلاقی اصول، اعتماد، دیانتداری اور ملک کی اجتماعی بھلائی کے لیے ہر دم قربانی کا جذبہ۔"
ان کی دانائی ہی انہیں قائد اعظم بنایا، وہ قائد جنہوں نے اپنی پوری زندگی عدل و انصاف کا وقار بلند رکھنے میں گزاری۔ ہر پاکستانی کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ جناح کے نڈر اخلاقی اصول ان کی اس ارض پاک پر کسی بھی دہشتگرد حملے کی قطعی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی کسی مرد و عورت یا بچے کے ساتھ پرتشدد سلوک کی اجازت دیتے ہیں۔
اسٹینلے وولپرٹ تاریخ دان ہیں اور قائدِ اعظم محمد علی جناح سمیت کئی مشہور شخصیات کے سوانح نگار ہیں۔
حبیب بینک لمیٹڈ آزادی سے ہی اس قوم کا ایک اہم حصہ رہا ہے، اور لاکھوں پاکستانیوں کے خوابوں کو ممکن بنا رہا ہے۔ حبیب بینک خواب دیکھنے والوں کو سلام پیش کرتا ہے، اور ملک کی 70 ویں سالگرہ آپ کے نام کرتا ہے۔ جہاں خواب، وہاں ایچ بی ایل۔
یہ خصوصی رپورٹ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوئی۔