• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مجھے ’معذور‘ ہونے کی اتنی بڑی سزا کیوں دی جارہی ہے؟

شائع September 22, 2017 اپ ڈیٹ September 26, 2017

کراچی صرف ایک شہر نہیں ہے بلکہ ایک پورا تجربہ ہے۔ ہر وہ شخص جو اِس شہر میں آچکا ہے وہ جانتا ہے کہ یہاں سے بہتر بریانی اور کسی شہر میں نہیں مل سکتی۔ یہاں کے چائے دھابو کا تو کوئی ثانی ہی نہیں۔ طاقتور سمندر کو کنارے تک محدود رکھنے کے لیے ہمارا اپنا ایک درویش اور محافظ بھی ہے، وہی جن کے چھوٹے بھائی جزیرہ منوردہ کے قرب و جوار کی حفاظت پر مامور ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ایک بار کراچی آمد کے بعد آپ کو پھر کوئی شہر نہ بھائے گا۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، اور معذوری کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔

حال ہی میں میں امریکا سے سیمسٹر گزارنے کے بعد یہاں لوٹا۔ سیمسٹر کے دوران مجھے پورا ملک اور اِس کے کئی شہر دیکھنے کا موقع ملا۔ امریکا جانے سے قبل میں پاکستان میں اپنی زندگی کے 23 برس گزار چکا تھا لیکن پھر بھی میں نے پاکستان سے زیادہ امریکا کے شہر دیکھیں ہیں، پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ امریکا میں مجھ جیسے وہیل چیئر استعمال کرنے والے لوگوں کے لیے رسائی کی بہتر سہولیات موجود ہیں۔

میں نے دیکھا ہے کہ وہیل چیئر پر چلنے والوں کو رسائی کی سہولیات کی دستیابی ہمارے ملکی معاشرے کا حصہ ہی نہیں ہوتی۔ اِس بات کا احساس تب ہوتا ہے جب آپ دنیا کے کسی ایسے حصے میں جاتے ہیں جہاں معذورین کے لیے سہولیات کی دستیابی معاشرے کا ہی ایک عام حصہ ہو۔

پڑھیے: معذور افراد سہولیات چاہتے ہیں، خیرات نہیں

جب میں امریکا میں تھا تب میرے استاد نے مجھے دکھایا کہ وہاں بسیں کس طرح کام کرتی ہیں۔ خیر مجھے یہ پتہ تھا کہ بسیں کس طرح کام کرتی ہیں اِس لیے بس میں سیر کرنا میرے لیے بالکل ہی ایک نیا تجربہ نہ تھا۔ لیکن پھر بھی یہ کہنا درست ہوگا کہ بس کی سیر میرے لیے بے حد مسرت کا باعث بنی۔

کیوں نہ ہو، خود سے بس پر سوار ہونے سے میرے اندر آزادی پانے کا احساس پیدا ہوا۔ ایک بار مجھ سے آسٹن کی پرواز چھوٹ گئی اور مجھے تن تنہا ہی گھر واپس جانا تھا، اور میں اپنی مدد کے تحت یہ سب کر پایا۔

میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے کیمپس میں رہائش پذیر تھا، جہاں میرے اپارٹمنٹ کو وہیل چیئر کے لیے قابل رسائی بنایا گیا تھا۔ میں نہ صرف پہلی بار اِس طرح کسی شخص کی مدد کے بغیر یوں تنہا مقیم تھا بلکہ گھر کا خیال رکھنے کی اور کام کاج کرنے کی ذمہ داری بھی مجھ ہی پر تھی۔ ظاہر ہے کہ میں وہاں ایسے زبردست لوگوں سے بھی ملا تھا جنہوں نے ضرورت پڑنے پر میری مدد کی، لیکن یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ میں وہاں خود انحصاری کے ساتھ مقیم تھا۔

مجھے مختلف امریکی ریاستوں میں واقع سرکاری یونیورسٹیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کی اراضی بھی کراچی یونیورسٹی جتنی ہی تھی۔ ہاں میں نے فرق صرف اتنا پایا کہ وہاں ایک کیمپس سے دوسرے کیمپس تک پہنچنے کے لیے مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑی۔

کراچی میں میں ایسا کچھ نہیں کرسکتا۔ امریکا میں رہتے ہوئے— یا پھر وہاں سے لوٹنے پر— مجھے اِس بات کا احساس ہوا کہ معذورتی طبی مسئلہ نہیں بلکہ یہ تو عمارت یا جگہ کی ڈیزائن کا مسئلہ ہے۔

حال ہی میں جب کراچی یونیورسٹی گیا تب یہ بات واضح ہوگئی تھی۔ اِس جگہ کو دیکھ کر افسوس ہوا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اراضی کے اعتبار سے 1279 ایکڑ کے ساتھ یہ کراچی کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، لیکن نہایت بُری طرح ڈیزائن شدہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے اصل آرکیٹیکٹ، فرینچ جدیدیت پسند میشیل ایکو شاغد معذورین کو معاشرے کا حصہ بنانے کا اہم سبق بھول بیٹھے۔

وہاں کے ایک طالب علم نے مجھے بتایا کہ، "وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کو نہ صرف مشکلات کا سامنا ہوتا بلکہ کبھی کبھار تو ان کے لیے ایک سے دوسری جگہ پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔" ایسا کوئی طالب علم آزادانہ طور پر نقل و حرکت کے قابل ہی نہیں رہتا کیونکہ وہاں نہ کوئی وہیل چیئر ریمپ ہوتے ہیں، اور نہ ہی اِس مقصد کے لیے کوئی سائڈ واکس ہوتے ہیں۔

پڑھیے: حقوقِ معذورین: اسلام، مغرب اور پاکستان

اس طالب علم نے مزید بتایا کہ، "آرٹس لابی (جہاں میری کلاسز ہوتی ہیں) کے راستے پر موٹر سائیکلوں کو روکنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب قریب رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں، یوں وہیل چیر پر بیٹھ کر آگے بڑھنے میں کافی مشکلات درپیش آتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں سوائے وہیل چیئر سے اترنے (تاکہ رکاوٹ عبور کی جائے) کے اور کوئی چارہ نہیں بچتا تھا۔ عام طور پر کوئی نہ کوئی دوست میرے ساتھ ہوتا ہے لیکن میری مدد کے لیے صرف ایک شخص ہو تو اُسے کافی مشکل پیش آتی ہے۔"

چونکہ اُن کی کلاسز اور کلاسیں گراؤنڈ فلور پر ہیں، لہٰذا انہیں سیڑھیاں نہیں چڑھنی پڑتیں۔ مگر انہوں نے بتایا کہ، "کچھ ایسے بھی شعبے ہیں جن کی کلاسیں دوسری یا تیسری منزل پر ہیں۔ تو اب وہ شخص جو سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا وہ کس طرح روزانہ اپنی کلاس لینے اوپر پہنچے گا؟

پڑھیے: ٹانگیں نہیں، پر ثابت قدمی کا جواب نہیں

یہ چند برس پہلے کی ہی بات ہے اور اتنے عرصے میں زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ زیادہ تر پارکس اب بھی ناقابل رسائی ہیں۔ حتیٰ کہ جب پارکس کی بحالی کا کام بھی کیا جا رہا ہوتا ہے تب بھی معذورین کے لیے رسائی کی سہولیات کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ نجی طور پر چلنے والے واٹر پارکس، جنہیں کروڑوں روپے کی مالیت کے ساتھ نئی بنیاد سے تعمیر کیا جاتا ہے، ان میں بسا اوقات رسائی کی بالکل بھی سہولیات موجود نہیں ہوتیں۔

ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ کراچی میں کہیں بھی وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ کچھ ایسی بھی جگہیں ہیں، جیسے ٹی 2 ایف، جہاں (جزوری طور پر) رسائی کی سہولیات موجود ہیں، لیکن وہ شہر کے ایسے حصے میں واقع ہیں جہاں ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ دیگر علاقوں میں بھی ٹی 2 ایف جیسے مقامات بنانے کی ضرورت ہے اور ایسا کرتے ہوئے رسائی کی سہولیات کو ترجیحات میں شامل رکھا جائے۔

پاکستان چوک کمیونٹی سینٹر اور ٹی ڈی ایف گھر کے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ان عمارتوں کی مرمت کا سوچیں تو رسائی کی سہولیات کو بھی ترجیح دیں، یوں ایک نہایت خوش آئند اور معاشرے کے تمام طبقات کو آپس میں ملانے کی ایک زبردست علامت ہوگی۔ لیکن اس طرح یہ مسئلہ صرف ایک محدود سطح پر ہی حل ہوسکے گا۔ حقیقی تبدیلی لانے کے ریاست کو مداخلت کرنی ہوگی۔

2007 میں 'کراچی کو ایک عالمی درجے کے شہر میں بدلنے اور کراچی والوں کو زندگی کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے ساتھ پرکشش اقتصادی مرکز بنانے' کے وژن کے ساتھ 'کراچی اسٹریٹجک ترقی پلان' مرتب کیا گیا، لیکن اُس میں کہیں بھی معذورین کے لیے رسائی کی سہولیات کا ذکر نہیں ملتا۔ لگتا ہے کہ شاید کراچی کے معذورین، یہاں کے غربا کی ہی طرح اسٹریٹجک ترقی اور بہتر زندگی گزارنے کے مستحق نہیں ہیں۔

پڑھیے: اپنی مفلوج بہن کی تیمارداری نے مجھے کیا سکھایا؟

جبکہ ہمیں کراچی میٹرو بس منصوبے میں بھی بھلا دیا گیا ہے۔ بی آر ٹی نیٹ ورک کا مقصد کراچی والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ’نقل و حرکت’ کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ لیکن یہاں پر بھی وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے رسائی کی سہولیات اور اِن کی نقل و حرکت کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس بڑے منصوبے پر کروڑوں روپے خرج کیے جا رہے ہیں۔ اسی لیے، یہ کہا جائے کہ معذورین کے لیے سہولیات فراہم کرنا خاصا مہنگا ہے، تو ایسی دلیل میں کوئی دم نہیں۔ اگر اِس منصوبے میں وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے رسائی کی سہولیات کا خیال نہیں رکھا جاتا تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ جان بوجھ کر یا بے خبری میں وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

معذورین کے لیے معاشرے میں سہولیات کی اِس قدر شدید کمی ہے کہ پاکستان جیسے انتہائی مذہبی معاشرے میں بھی بمشکل کوئی ایسی مسجد ملے گی جہاں معذورین برادرانِ اسلام کے داخل ہونے کے لیے سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

دنیا کے ہمارے حصے میں، اکثر لوگوں کا معذورین کو دعا کرنے لیے کا کہنا ایک عام سی بات ہے۔ ہر روز مجھے کئی لوگ ملتے ہیں اور اُن کے لیے دعا کرنے کا کہتے ہیں۔ اُن کا مطلب میرا مذاق اڑانا ہرگز نہیں ہوتا اور مجھے اِس بات اندازہ بھی ہے۔ لیکن ایک چھوٹا مسئلہ ہے، لوگ مجھے دعا کرنے کا تو کہتے ہیں لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ شہر میں تقریباً تمام ہی مساجد ناقابل رسائی ہیں۔

جبکہ کئی ایسے بھی موقعے آئے کہ جب میں کراچی میں وقت گزارنے کے سب سے پسندیدہ مشغلے سے بھی محروم رہا۔ جی ہاں، باہر جاکر کھانا کھانا۔ کراچی میں حسین آباد، برنس روڈ، بوٹ بیسن اور محمد علی سوسائٹی جیسی چند زبردست فوڈ اسٹریٹ ہیں، لیکن جتنا وہاں کھانے کا ذائقہ ناقابل یقین ہے اتنا ہی وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے رسائی کی سہولیات کا فقدان بھی ناقابل یقین ہے۔ سب نہیں تو چند ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے سہولیات میسر ہیں۔

کچھ ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں وسائل کے باوجود معذورین کو معاشرے میں برابری کی حیثیت دینے کے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔ مثلاً اکثر بینکیں بھی اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ رسائی کی سہولیات بہتر بنانے کے حوالے سے احکامات کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔

گزشتہ برس شائع ہونے والے اندازوں کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 5 فیصد حصہ معذورین پر مشتمل ہے، جن میں نصف سے زائد شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔

لیکن، شہری علاقے بھلے ہی جتنے پرکشش مواقع فراہم کرتے ہوں لیکن ہم ایک بھی ایسا پاکستانی شہر بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کہ مکمل طور پر معذورین کے لیے رسائی کی سہولیات کا حامل ہو، حتیٰ کہ ہمارے پاس 2002 کی قومی پالیسی برائے معذورین جیسی پالیسیاں بھی موجود ہے جس کا اولین مقصد "(معذورین کو) رسائی کی سہولیات کی فراہمی" ہے تاکہ ’انہیں زندگی کے ہر شعبے میں شامل کیا جائے" اور "اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انہیں بھی دیگر شہریوں کے مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہوں۔"

ایک ریمپ بنانا کوئی بہت زیادہ مہنگا کام نہیں ہے۔ ایک ریمپ صرف ریمپ نہیں ہوتا، یہ ایک خاموش علامت ہے۔ ریمپ وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کو یہ بتانے کا ایک طریقہ ہے کہ یہاں اُن کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ اِسی طرح رسائی کی سہولیات کی عدم فراہمی اِس بات کا پیغام دیتی ہے کہ یہ جگہ صرف پیروں پر چل کر آنے والوں کے لیے ہی ہے۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوا۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری

عزیر ابراہیم

عزیر ابراہیم حبیب یونیورسٹی میں سوشل ڈولپمنٹ اینڈ پالیسی کے طالب علم ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: UzairIbrahim_@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024