• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

بینظیر قتل کیس میں استغاثہ ’الجھن‘ کا شکار رہا

شائع September 5, 2017

اسلام آباد: سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں استغاثہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے عہدیدار نے 5 ملزمان کے خلاف مقدمے کو کمزور کردیا جو ان کی بریت کا سبب بنا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے گذشتہ ماہ 31 اگست کو بینظیر بھٹو قتل کیس کے 5 ملزمان کو بری کردیا (جو مبینہ طور پر کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک تھے) جبکہ دو سینئر پولیس افسران کو مجرم قرار دیا۔

ان پولیس افسران میں سعود عزیز اور خرم شہزاد شامل ہیں، سعود عزیز سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے وقت راولپنڈی کے پولیس چیف تھے جبکہ خرم شہزاد راول ٹاؤن کے سابق پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) تھے۔

دونوں افسران کو مجرمانہ غفلت پر 17 سال کی قید اور 10، 10 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

اپنے فیصلے میں جج کا کہنا تھا کہ ’استغاثہ خود بھی الجھن کا شکار تھا‘۔

مزید پڑھیں: بینظیر قتل کیس کا فیصلہ،مشرف اشتہاری قرار، پولیس افسران گرفتار

خیال رہے کہ بری ہونے والے 5 ملزمان رفاقت حسین، حسنین گل، شیر زمان، رشید اور اعتزاز شاہ کے خلاف تحقیقات 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کی ’سازش‘ تیار کرنے کی بنیاد پر جاری تھیں۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ سابق وزیراعظم کے قتل کا منصوبہ مذکورہ ملزمان نے تیار کیا تھا، تفتیش کاروں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بیت اللہ محسود اور ایک مولوی کے درمیان ہونے والی فون کال پر انحصار کیا۔

اس فون کال میں بیت اللہ محسود نے اپنے ساتھی کو بینظیر بھٹو پر کامیاب حملے کی مبارکباد دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'ٹی ٹی پی نے بینظیر بھٹو پر ایک اور حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا'

خیال رہے کہ یہ وہی آڈیو پیغام تھا جو نیشنل کرائسز مینیجمنٹ سیل (این سی ایم سی) کے ڈائریکٹر جنرل نے بینظیر بھٹو کے قتل کے چند گھنٹوں بعد ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو جاری کیا تھا۔

پنجاب پولیس کی پہلی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات کا مرکز یہ فون کال تھی جبکہ تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی دوسری جے آئی ٹی، جس نے اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی سربراہی میں قتل کیس کی تحقیقات کیں، نے بھی اسی ٹیلی فونک گفتگو کو مرکزی ثبوت سمجھا۔

ثبوت کا اہم حصہ

تاہم یہ اہم ثبوت اُس وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھا جب اس گفتگو میں رکاوٹ ڈالنے والے آئی ایس آئی کے آپریٹر محمد اسماعیل گواہی دینے عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

اے ٹی سی جج اصغر علی کا قتل کیس کے 46 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہنا تھا کہ استغاثہ نے قتل کو سازش کا حصہ ثابت کرنے کے لیے اس ٹیلی فونک گفتگو پر انحصار کیا۔

استغاثہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملزمان کے اعترافی بیانات، ان کے موبائل فون کا فرانزک تجزیہ اور دیگر شہادتیں انہیں اس قتل سے جوڑنے کے لیے کافی ہیں۔

مزید پڑھیں: بےنظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ 10 سال بعد محفوظ

عدالتی فیصلے کے مطابق اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل این سی ایم سی نے انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے گواہی میں یہ بھی بتایا کہ انہیں اس گفتگو کی آڈیو کیسٹ کہاں سے حاصل ہوئی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال چیمہ جنہوں نے کہا کہ وہ 28 دسمبر 2007 کو وزارت داخلہ اسلام آباد میں این سی ایم سی کے ڈائریکٹر جنرل تھے، کو اسلام آباد کے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں اجلاس میں شرکت کے لیے بُلایا گیا‘۔

بریگیڈیئر چیمہ کے بیان کے مطابق ’اس اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) شریک تھے جبکہ اس کی سربراہی صدر نے کی جس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ خفیہ ایجنسیوں کے پاس موجود تمام معلومات کو پریس بریفنگ کے ذریعے عوام کے سامنے لایا جائے گا‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس کے دوران مجھے (بریگیڈیئر چیمہ) اور اُس وقت کے سیکریٹری داخلہ کمال شاہ کو آئی ایس آئی کے میجر جنرل نصرت نعیم نے بریفنگ دی جس میں مذکورہ چیزیں میرے حوالے کی گئیں، جن میں واقعے کی ویڈیو فوٹیج اور بیت اللہ محسود اور مولوی کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو کیسٹ شامل تھی‘۔

گفتگو میں رکاوٹ

ان انکشافات کے حوالے سے عدالتی حکم میں کہا گیا کہ گواہ نے بیت اللہ محسود اور مولوی کے درمیان ہونے والے مکالمے، جس میں آئی ایس آئی کے آپریٹر نے رکاوٹ ڈالی تھی، سے اہم معلومات بیان کیں، اس مکالمے کا ترجمہ اُس وقت کے ایس پی انویسٹی گیشن طاہر ایوب نے کیا تھا، بیت اللہ محسود اور مولوی کے درمیان ہونے والے مکالمے کی تفصیل سے قبل یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے اپنے بیان میں کہیں بھی اس کے ذرائع اور اس مبینہ مکالمے میں رکاوٹ کے طریقے سے متعلق نہیں بتایا، انہوں نے صرف یہ کہا کہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں ایک اجلاس میں شرکت کی تھی جہاں انہیں واقعے کی فوٹیج، فون کال کی آڈیو کیسٹ اور محترمہ بینظیر بھٹو کی ایکس رے رپورٹ دی گئی‘۔

تاہم جج کا کہنا تھا کہ پولیس رپورٹ میں فون میں رکاوٹ ڈالنے والے آئی ایس آئی کے آپریٹر اسماعیل کا ذکر کیا گیا جس نے اسے سن کر آڈیو کیسٹ میں ڈاؤن لوڈ کیا تھا۔


کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024