چین: برکس ممالک کے سالانہ اجلاس کا آغاز
شیامن: چینی صدر شی جن پنگ نے چین کے جنوب مشرقی شہر شیامن میں برکس کے سالانہ اجلاس کا آغاز کردیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجلاس میں برکس ممالک کے سربراہان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، روسی صدر ولادی میر پیوٹن، برازیلین صدر مائیکل ٹیمر، اور جنوبی افریقا کے صدر جیکب زوما شریک تھے۔
واضح رہے کہ اجلاس کا انعقاد بیجنگ کی جانب سے عالمی لیڈر شپ کی تشکیل کے دعوے پر عملدرآمد کے لیے کیا گیا ہے تاہم یہ اجلاس ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب شمالی کوریا کی جانب سے کیے جانے والے چھٹے جوہری تجربے نے سب کی توجہ حاصل کر رکھی ہے۔
ایک روز قبل کیا جانے والا شمالی کوریا کا جوہری تجربہ اس کی پشت پناہی کرنے والے ملک چین کے لیے شرمندگی کا سبب بنا تھا جس کی چینی وزارت خارجہ نے مذمت بھی کی۔
خیال رہے کہ رواں سال مئی کے دوران بھی شمالی کوریا نے میزائل تجربہ کیا تھا، اس وقت بھی یہ تجربہ اس دوران کیا گیا تھا جب چینی صدرعالمی تجارت اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے فروغ کے لیے ایک بڑے بین الاقوابی اجلاس کی میزبانی کررہے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے جاری اشتعال انگیزی کے اس سلسلے کا مقصد چین پر دباؤ بڑھانا ہوسکتا ہے تاکہ واشنگٹن یونگ یانگ کے ساتھ خود بات چیت پر مجبور ہوجائے۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا اب چین کیلئے بھی خطرہ،باعث شرمندگی ہے،ٹرمپ
واضح رہے کہ شمالی کوریا کے جوہری اور ہائڈروجن بم کے دعوے کے بعد شمالی کوریا کے خلاف ردعمل پر یہ ممالک تقسیم ہوسکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو پہلے بھی شمالی کوریا کے خلاف سخت ردعمل کا عندیہ دے چکے تھے انہوں نے حالیہ تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی خطرناک قرار دیا اور جوابی کارروائی کے امکان کا آپشن کھلا رکھا۔
دوسری جانب روس اور چین سفارتکاری کے ذریعے اس کی حل کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔
کریملن کے مطابق روسی صدر پیوٹن نےجاپانی وزیراعظم شنزو ایبے سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے شمالی کوریا کے تجربے کی مذمت کی۔
تاہم ولادی میر پیوٹن نے اس بات کو دہرایا کہ مسئلہ ’سیاسی اور سفارتی‘ طریقے سے حل کیا جانا چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیں: پیوٹن کو کوریا کے خطے میں 'بڑا تنازع' جنم لینے کا خدشہ
چینی صدر شی جن پنگ نے برکس اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے اپنے خطاب میں اس حوالے سے کسی قسم کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا۔
تاحال یہ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے کہ جوہری تجربے کے معاملے پر برکس ممالک کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے یا نہیں تاہم منگل (5 ستمبر) کو چینی اور روسی صدر پریس کانفرنسز کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے ہیں۔
دوسری جانب ہمالیہ کے متنازع خطے میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے آمنے سامنے کے نتیجے میں برکس ممالک کےدرمیان بھی کشمکش کی صورتحال ہے۔
گو کہ گذشتہ ہفتے بھارتی فوجی ڈوکلام کے متنازع علاقے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں تاہم سب کی نظریں شیامن میں نریندر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان کسی قسم کی بات چیت پر ٹکی ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ دس سال قبل سامنے آنے والے برکس گروپ کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے لیے آواز بلند کرنا تھا تاہم پالیسی تجزیہ کار مسلسل اس کی اہمیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس گروپ کے رکن ممالک اپنے اپنے معاشی چیلنجز میں مصروف ہیں۔
برکس ممالک کے درمیان تجارت بھی بڑی حد تک چین کے حق میں ہے جس پر رکن ممالک تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔