روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام، جبراً نقل مکانی پر پاکستان کو تشویش
اسلام آباد: پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور جبراً نقل مکانی کی رپورٹس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے میانمار کے حکام سے مسلمانوں کے حقوق کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کردیا۔
دفترخارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں ترجمان نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر پاکستان کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور نقل مکانی کی رپورٹس پر شدید تحفظات ہیں۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ میانمار کی حکومت معاملے کی تحقیقات کرائے اور ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینے کے ساتھ ساتھ روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے لیے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان عالمی برادری بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ساتھ مل کر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے حقوق کے مفادات کا تحفظ کرتا رہے گا۔
مزید پڑھیں: میانمار: ایک ہفتے میں ہلاک روہنگیا افراد کی تعداد 400 سے زائد
حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق میانمار کے شمال مغربی علاقے میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف کارروائیوں کے دوران 4 سو کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق میانمار کی ایک ریاست میں فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد شروع ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں 38 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ایک اندازے کے مطابق اگست میں 38 ہزار افراد بنگلہ دیش کی سرحد پار کرچکے ہیں'۔
اس حوالے سے میانمار کی فوج کا موقف ہے کہ وہ 'دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں' کے خلاف کارروائی کررہی ہے کیونکہ عوام کا تحفظ ان کا فرض ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں میانمار کے مسلم اکثریتی علاقے ارکان کے قریب کچھ چوکیوں پر حملے کیے گئے تھے جس میں اہلکاروں سمیت 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، فوج اس مسلح تحریک کو ختم کرنے کے لیے آپریشن حل قرار دے رہی ہے جبکہ کئی حلقے اس مسلح تحریک کو متواتر حق تلفی اور ناانصافی کا رد عمل قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمان— وہ جن کا کوئی ملک نہیں
دوسری جانب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں ملک سے بے دخل کرنے کے لیے قتل وغارت کی مہم شروع کی گئی ہے۔
میانمارکی فوج کی جانب سے جاری اطلاعات کے مطابق جھڑپوں اور کارروائیوں کے دوران 370 روہنگیا عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 13 سیکیورٹی فورسز، 2 سرکاری اہلکار اور 14 عام افراد بھی مارے گئے۔
امدادی کارکنوں کے مطابق اکثر روہنگیا افراد بنگلہ دیش ہجرت کرنا چاہتے ہیں تاہم ان کو وہاں پناہ حاصل نہیں ہو پاتی۔
مزید پڑھیں: 50 سال کی ناانصافی، روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں سمندر سے 53 روہنگیا افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، یہ افراد دریائی راستے سے ہجرت کرنے والے افراد میں شامل تھے، جبکہ ہزاروں افراد اب بھی دریائے ناف کے راستے قریبی پڑوسی ملک پہنچنے کی کوششوں میں ہیں، دریائے ناف بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان سرحد کا کام کرتا ہے۔
خیال رہے کہ میانمار میں مسلمانوں کو نصف صدی سے مشکلات کا سامنا ہے، 1970 سے لے کر اب تک 10 لاکھ روہنگیا مسلمان شدید مشکلات اٹھانے کے بعد دنیا کے کئی ممالک ہجرت کر چکے ہیں۔
میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، میں بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، روہنگیا کے مسلمان کئی دہائیاں قبل ہجرت کرکے بنگلہ دیش سے میانمار پہنچے تھے، میانمار کے لوگ ان کو بنگالی تسلیم کرتے ہیں۔
روہنگیا لوگوں کی بہت بڑی تعداد میانمار کی مغربی ریاست راکھائن (ارکان) میں رہائش پذیر ہے، 10 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل روہنگیا لوگوں کو بنگلہ دیش کے لوگ برمی مانتے ہیں۔
'بنگلہ دیش روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دے، اخراجات ترکی ادا کرے گا'
ترکی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کی مذمت کرتے ہوئے بنگلہ دیش سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے اپنی سرحد کھولے، جو بھی اخراجات ہوں گے وہ ترکی ادا کرے گا۔
ترکی کی نیوز ویب سائٹ ٹی آر ٹی ورلڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اوغلو نے صوبہ انطالیہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ میانمار کی ریاست راکھائن میں پرتشدد فسادات سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کے لیے بنگلہ دیشی حکومت اپنے دروازے کھولے اور اخراجات کی فکر نہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'روہنگیا مہاجرین پر جتنے بھی پیسے خرچ ہوں گے وہ ترکی برداشت کرے گا'۔
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ 'ہم نے اسلامی تعاون تنظیم کو بھی متحرک کیا ہے اور اس معاملے پر رواں برس ایک سمٹ کا انعقاد کیا جائے گا، ہمیں اس معاملے کا کوئی فیصلہ کن حل نکالنا ہے'۔
تبصرے (1) بند ہیں