بینظیربھٹو قتل کیس: 6 ملزمان کے وکلا کے دلائل مکمل
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جاری سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت کے دوران سات میں سے 6 ملزمان کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
پولیس نے تحریک طالبان پاکستان کے 5 اراکین سمیت دو پولیس اہلکاروں کو لیاقت باغ میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
انسداد دہشتگردی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران چھ ملزمان سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز،سابق سپرینٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد، حسنین گل، شیر زمان، عبدالرشید اور رفاقت حسین کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔
ملزمان کے وکیل ملک جواد خالد اور ملک رفیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بےنظیر بھٹو کو امریکی پالیسی کے خلاف ہونے پر قتل کیا گیا جبکہ بےنظیر بھٹو کو حساس اداروں کے دو اعلیٰ افسران نے جلسے سے ایک رات قبل انھیں دھمکیوں سے آگاہ کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس پی خرم رشید کو اس وقت ملزم بنایا گیا جب کیس ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا حالانکہ دونوں پولیس افسران جلسہ گاہ کی سیکیورٹی اور شہید بےنظیر بھٹو کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے اور جو سروسز دے رہے تھے انھیں ہی ملزم بنا دیا گیا ہے۔
وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی میں میجر امتیاز، ناہید خان، صفدر عباسی، رزاق میرانی، امین فہیم اور خالد شہنشاہ موجود تھے۔
وکیل ملک رفیق نے کہا کہ خالد شہنشاہ ٹاپ کلاس کا کریمنل ریکارڈ رکھتا تھا وہ بےنظیر کی گاڑی میں کیسے سوار ہوا اس کے علاوہ رزاق میرانی نے شہید محترمہ کے دو بلیک بیری تین سال تک اپنے پاس رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ رزاق میرانی نے 2 فروری 2011 کو محترمہ بےنظیر بھٹو کے موبائل فونز کراچی میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسر واجد ضیا کے حوالے کیے۔
ملک جواد خالد نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے تینوں موکلوں کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت صفحہ مثل پر موجود نہیں جبکہ سروسز مہیا کرنے والے معصوم سی پی او کو بھی قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے اگر کیس نہ ہوتا تو وہ اس وقت سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوتے۔
انھوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کو اس وقت ملزم بنایا گیا جب وہ ملک میں ہی نہیں تھے،جو بیانات ہمارے موکلان کے ساتھ منسوب کئے جا رہے ہیں وہ پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے خلاف جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چالان اور تفتیشی افسران کے بیانات اور برآمد کی گئیں اشیا میں تضاد ہے اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں،ملزمان کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، ان حالات میں دفعہ 164 کے تحت بیانات بھی مشکوک ہیں جبکہ زخمیوں کے بیان قلم بند نہیں ہوئے اور نہ ہی جاں بحق افراد کا پوسٹمارٹم کیا گیا۔
ملزمان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ خود کش بمبار کے فنگرز پرنٹ لیے گئے اور نہ ہی ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا، اصل ملزمان کو بچانے کے لیے باقی سب کو بھینٹ چڑ ھا دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ تفتیشی اداروں نے جو خودکش جیکٹ ڈی این اے کے لیے بھیجی اس میں بارود ہی نہیں تھا۔
عدالت نے ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا ڈی این اے کی رپورٹ نہیں آئی تو جواب میں خواجہ امتیاز نے بتایا کہ ریکارڈ پر رپورٹ نہیں ہے۔
وکلا نے عدالت کو کہا کہ عدالت کا کام ہے کہ وہ ان تمام الزامات کو دیکھے جس پر پراسیکیوشن کی جانب سے شکوک وشبہات ہیں، وکلا کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور کو کوئی نہیں روک سکتا مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کو موقع کس نے فراہم کیا۔
ان کا کہنا تاھ کہ ہمارے موکلان بےگناہ ہیں اور ان کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے۔
مقدمے کی سماعت اگلی صبح تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ پیپلزپارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے دوران راستے میں قتل کیا گیا تھا۔
فروری 2008 میں راولپنڈی پولیس نے ابتدائی طور پر 5 ملزمان کو قاتلوں سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیا تھا تاہم جب پی پی پی نے 2008 میں اپنی حکومت بنائی تو اس کی تفتیش ایف آئی اے کو دے دی گئی تھی۔