این اے 120 انتخابی مہم: مریم نواز نے دورہ لندن منسوخ کردیا
لاہور: ایک جانب جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی والدہ (کلثوم نواز) کی انتخابی مہم چلانے والی مریم نواز کی جانب سے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے استعمال کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) جانے کا ارادہ کر رکھا ہے وہیں نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی نے این اے 120 میں بلاتعطل مہم جاری رکھنے کے لیے اپنا لندن کا دورہ منسوخ کردیا.
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق انتخابی مہم کے دوسرے روز (اتوار 27 اگست کو) بھی مریم نواز نے ماڈل ٹاؤن میں واقع وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں حکمراں جماعت کے مقامی نمائندوں سے ملاقاتیں کی اور اپنی والدہ کی کامیابی کے لیے دن رات کام کرنے کی درخواست کی.
جب چند کارکنان نے مریم نواز سے یہ سوال کیا کہ وہ مہم میں ان کا ساتھ دینے کے لیے حلقے کا رخ کب کریں گی تو ان کا کہنا تھا کہ 'میں عید کے بعد پورے حلقے کے دوروں کا آغاز کروں گی اور 2018 کے الیکشن تک کارکنان کے درمیان موجود رہوں گی'.
مریم نواز نے بتایا کہ اپنی والدہ کلثوم نواز کی انتخابی مہم کو جاری رکھنے کے لیے وہ بیمار والدہ سے ملنے لندن بھی نہیں جائیں گی.
واضح رہے کہ نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین جبکہ دوسری بیٹی عاصمہ لندن میں والدہ کے ساتھ ہی موجود ہیں جہاں ان کے گلے کے کینسر کا علاج جاری ہے.
رواں ہفتے کے دوران نواز شریف کے بھی لندن روانہ ہونے کا امکان ہے.
یہ بھی پڑھیں: مریم صفدر نے والدہ کی الیکشن مہم کا آغاز کردیا
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے ذرائع کے مطابق 'ایسا لگتا ہے کہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب کی مہم کے لیے شریف خاندان پارٹی کے کسی رکن پر بھروسہ کرنے کے لیے راضی نہیں، یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اپنی والدہ کو دیکھنے کے لیے لندن نہیں جارہیں'.
ذرائع کا کہنا تھا کہ 'چونکہ مریم نواز سیاست میں کافی فعال اور پرجوش ہیں اس لیے وہ مہم اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کے حوالے کرنے کا چانس نہیں لے سکتیں'.
دوسری جانب پارٹی صفوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مریم اپنے والد کی برطرفی کی ذمہ دار ہیں، انہیں سیکیورٹی لیکس خبر اور پاناما پیپرز کیس کی کارروائی کے دوران عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے پارٹی پالیسی پر قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ چوہدری نثار علی خان جیسے صاف گو رہنما نواز شریف کے 'نئے مشیروں' کو پاناما کیس کو قانونی اور سیاسی طور پر غلط انداز میں سنبھالنے کا ذمہ دار قرار دے چکے ہیں.
دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز کے ساتھ گذشتہ روز (27 اگست) ہونے والے اجلاس میں لیگی کارکنان کو اپنے موبائل فونز ساتھ لانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
حلقے کے وائس چیئرمین کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اپنے فون میٹنگ روم کے باہر جمع کرانے کا کہا گیا، ایسا شاید اس لیے کیا گیا تاکہ پارٹی کارکنان کے خدشات کی فوٹیج کو لیک ہونے سے روکا جاسکے'.
ان کا کہنا تھا کہ اچھی بات یہ ہے کہ 'کم از کم چار سال بعد این اے 120 کے پارٹی ورکرز اچانک اتنے اہم ہوگئے کہ ہمیں مریم بی بی سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا'.
واضح رہے کہ سینیٹر پرویز رشید، وزیر تجارت پرویز ملک، پنجاب کے وزراء بلال یاسین (کلثوم نواز کے رشتے دار) اور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن بھی اس اجلاس میں موجود تھے.
مزید پڑھیں: والدہ کو ’لیمفوما‘ کی تشخیص ہوئی ہے، مریم نواز
دریں اثناء پی ٹی آئی نے اعلان کیا کہ این اے 120 کی انتخابی مہم میں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے استعمال کے خلاف ای سی پی میں شکایت درج کروائی جائے گی.
ترجمان فواد چوہدری نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ 'لیگی قیادت کی جانب الیکشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر ہم الیکشن کمیشن جائیں گے، ای سی پی قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر پرویز ملک کو نوٹس جاری کرچکی ہے، لیکن وہ اب بھی فعال ہیں اور مریم نواز کے اجلاس میں موجود تھے'.
فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ حکمراں جماعت مہم کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کررہی ہے اور ای سی پی کے حکم کا بالکل احترام نہیں کیا جارہا، ایسا لگتا کہ حکمراں جماعت کو قابو میں کرنے کے لیے ای سی پی بہت کمزور ہے'.
دوسری جانب پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے ڈان کو بتایا کہ ماڈل ٹاؤن کی جس بلڈنگ میں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ موجود ہے اس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی سرگرمیوں جبکہ دوسرا عوامی معاملات کے یونٹس کے لیے ہے، 'لہذا مریم بی بی وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کا استعمال نہیں کر رہیں'.
یہ خبر 28 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.