• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

'ٹی ٹی پی نے بینظیر بھٹو پر ایک اور حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا'

شائع August 26, 2017

اسلام آباد: اگر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مقتول چیئرپرسن بینظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہونے والے حملے میں بچ جاتیں تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ان پر ایک اور خودکش حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بینظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزمان کے اعترافی بیانات پڑھ کر سناتے ہوئے پراسیکیوٹر نے انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی نے سابق وزیراعظم پر ایک اور خودکش حملہ کرنے کے لیے ایک مشتبہ دہشت گرد کا انتخاب کر رکھا تھا۔

اسپیشل پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اصغر علی خان کے سامنے ملزمان کے اعترافی بیانات پڑھ کر سنائے۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اگر بینظیر بھٹو لیاقت باغ حملے میں بچ جاتیں تو کالعدم ٹی ٹی پی ان پر ایک اور حملے کے لیے تیار تھی۔

مزید پڑھیں: بے نظیر قتل کیس: گتھی سلجھنے کے بجائے الجھتی چلی گئی

واضح رہے کہ 2013 میں چار ملزمان اعتزاز شاہ، رفاقت حسین، حسنین گل اور عبدالرشید نے مجسٹریٹ کے سامنے بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ بیت اللہ محسود نے 4 لاکھ روپے قاری اسماعیل کو دیے، جس نے بینظیر بھٹو کو ٹارگٹ کرنے کے لیے خودکش بمباروں اور شوٹرز کا ایک گروپ راولپنڈی روانہ کردیا۔

منصوبے کے مطابق اگر سعید عرف بلال بینظیر بھٹو کو گولی مارنے میں ناکام ہوجاتا تو اسے خودکش حملہ کرنا تھا اور اگر سعید ناکام ہوجاتا تو اکرام اللہ کو خودکش حملہ کرنا تھا۔

سعید اور اکرام اللہ کو لاجسٹک سپورٹ حسنین گل نے فراہم کی، جس میں دھماکا خیز مواد سے بھری ایک جیکٹ، ایک پستول اور آپٹیکل ڈیوائس شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر بھٹو کے قتل کا راز

پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے بینظیر بھٹو کو کراچی کے علاقے کارساز میں اُس وقت نشانہ بنایا تھا جب وہ 18 اکتوبر 2007 کو بیرون ملک سے واپس آئی تھیں، اس حملے میں محترمہ تو محفوظ رہی تھیں تاہم 149 افراد ہلاک اور 402 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

پراسیکیوٹر نے خصوصی عدالت کے جج کے سامنے بیت اللہ محسود کی مولوی عزیز اللہ سے ہونے والی گفتگو کا متن بھی پیش کیا، جس میں عزیز اللہ، بینظیر بھٹو پر کامیاب حملے پر بیت اللہ محسود کو مبارکباد دے رہے تھے۔

انسداد دہشت گردی کے جج نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی ٹیم نے بیت اللہ محسود کی آواز کی تصدیق کی کوشش کی؟ جس پر پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے جواب دیا کہ ملزم اعتزاز نے تفتیش کے دوران اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ بیت اللہ محسود اور مولوی عزیز اللہ کی ہی گفتگو ہے۔

اس موقع پر وکیل دفاع راؤ عبدالرحیم نے مداخلت کی اور کہا کہ ایک انٹیلی جنس ایجنسی نے شواہد میں ہیر پھیر کی اور مذکورہ وائس ریکارڈنگ جعلی ہے۔

مزید پڑھیں: بینظیر قتل کیس: یو این کا 'سخت' خط

اعترافی بیانات پڑھنے کے بعد پراسیکیوٹر نے عدالت کو تجویز دی کہ اقوام متحدہ کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کے کچھ حصوں کا جائزہ لیا جائے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے جواب دیا کہ وہ پہلے ہی رپورٹ پڑھ چکے ہیں تاہم انہوں نے پراسیکیوٹر کو اجازت دی کہ وہ مذکورہ رپورٹ کے کچھ اقتباسات شواہد کی حمایت میں پیش کریں۔

واضح رہے کہ 15 اپریل 2010 کو اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن نے اپنی جاری کی گئی ایک رپورٹ میں لکھا تھا، 'پاکستان کی وفاقی اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے لیے کیے گئے سیکیورٹی انتظامات نامناسب اور غیر موثر تھے جبکہ قتل کے فوراً بعد ثبوتوں کو مٹادیا گیا تھا'۔

اقوام متحدہ کا مذکورہ انکوائری کمیشن اُس وقت کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے پاکستانی حکومت کی درخواست پر مقرر کیا گیا تھا، جو محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ بنانے والوں کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا، جب ایک 15 سالہ خودکش بمبار نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔


یہ خبر 26 اگست 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024