پاکستان میں 'ک' کشمیر ہے جو ابھی تک ہمارا نہیں
اب جبکہ ہم آزادی کی 70 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، ایسے میں ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ پاکستان میں موجود 'ک' کا مطلب کشمیر ہے جو کہ (ابھی تک) ہمارے ملک کا حصہ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مرد و خواتین اور بچے ہندوستان کے بدترین قبضے اور مظالم سے آزادی کے لیے تن من دھن کی بازی لگا کر زبردست جدو جہد کر رہے ہیں۔ ان کی حمایت کے لیے پاکستان نے بہت کم ہی اقدامات کیے ہیں۔
جموں و کشمیر تنازعے کا ایک ایسا حل تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا جس پر تمام فریقین راضی ہوں۔ لیکن سیاسی، اسٹریٹجک، اخلاقی اور قانونی وجوہات کی بنا پر پاکستان کشمیر پر اپنے مؤقف سے پیچھے بالکل نہیں ہٹ سکتا۔
چاہے کوئی بھی معروضی معیار ہو، کشمیر پاکستان کا حصہ ہی بننا تھا۔ کشمیری پاکستان سے انضمام کی اپنی خواہش کی خاطر روزانہ احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ پاکستان کا سیاسی اور اخلاقی طور پر فرض بنتا ہے کہ وہ ان کی خواہشات اور اس سیاسی وژن کی حمایت کرے، جو اس ملک کی اپنی تشکیل کا باعث بھی بنا تھا۔
پاکستان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کا حصہ ہے جس کے تحت جموں کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی رائے شماری کا موقع ملے گا جس کے ذریعے وہ اپنے حقِ خود ارادیت کا استعمال کر سکیں گے۔ لہٰذا پاکستان قانونی طور پر اس معاہدے کا پابند ہے۔
دریائے سندھ اپنا پانی کشمیر کی ندیوں سے ہی حاصل کرتا ہے۔ پانی بقائے وجود کا مسئلہ ہے۔ زندگی کے اس سرچشمے کو قانونی طور پر ہندوستانی قبضے میں نہیں دیا جا سکتا۔
کشمیر ہندوستان کا ایک کمزور پہلو ہے۔ چونکہ کشمیر میں ہندوستان کی بھاری تعداد میں فوج تعینات ہے لہٰذا پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کی صلاحیت کافی متاثر ہوتی ہے۔ ہندوستان کے کشمیریوں پر بدترین مظالم، ہندوستان کے علاقائی غلبے اور بڑی طاقت ہونے کا اخلاقی اور سیاسی دعویٰ رد کر دیتے ہیں۔ یہ کشمیر کی قوت ہے کہ جس کی بنا پر پاکستان ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں ’مساوی’ حیثیت حاصل کر سکا ہے، اسے یکطرفہ طور پر خارج نہیں کیا جانا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہندوستان کی بڑھتی طاقت اور "اسلامی دہشتگردی" کے خلاف مہم کے ذریعے پاکستان پر ڈالے گئے دباؤ کی وجہ سے پاکستانی اشرافیہ کے کچھ حلقے کشمیر میں جاری خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے ہیں اور کشمیر میں 'اسٹیٹس کو' قبول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مشرف دور میں ہندوستان کے ساتھ جس امن منصوبے پر بڑے زور و شور سے بات چیت ہوئی تھی وہ سوائے ڈھکے چھپے انداز میں 'اسٹیٹس کو' کی قبولیت کے اور کچھ نہیں تھا۔ جبکہ اس کے کافی بھیانک نتائج بھی برآمد ہوتے کیونکہ اس منصوبے کے تحت جموں اور کشمیر کے دونوں اطراف ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ ’انتظامیہ’ ہوتی، یوں کشمیر میں ہندوستان کی موجودگی کو قانوناً جائز تسلیم کر لیا جاتا۔
مزید برآں، اصل ’مسئلہ’ — شورش اور مزاحمت— تو مقبوضہ کشمیر میں درپیش ہے، ایسے میں پاکستان آخر کیوں ہندوستان کو آزاد جموں کشمیر کی ’انتظامیہ’ میں کردار ادا کرنے دے گا؟ اور یہاں بیٹھ کر ہندوستان کون سی بدمعاشی کر سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں۔
نئی دہلی اس بات پر بھی زور ڈال سکتا تھا کہ شمالی علاقوں کو بھی مشترکہ انتظامیہ کے زیر انتظام لایا جائے۔ جبکہ قراقرم ہائی وے کے انتظامات میں بھی اپنی جگہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا اور پاکستان اور چین کے درمیان واحد اور اسٹریٹجک روڈ لنک کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا۔ (اس میں کوئی حیرت نہیں کہ کیوں سید گیلانی نے اس منصوبے کو مسترد کردیا تھا، سید گیلانی وہ کشمیری رہنما ہیں جو کشمیر کے پاکستان میں انضمام کی حمایت میں سب سے زیادہ متحرک اور ثابت قدم رہے ہیں۔)
بدقسمتی سے امریکا اور ہندوستان کے خوف سے، پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی ایک کے بعد آنے والی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اٹھانے سے گریز کیا۔ تاہم، یہ خوش آئند بات ہے کہ نئے وزیر اعظم اور وزیرِ خارجہ نے میڈیا کو دیے گئے اپنے پہلے بیانات میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
بلاشبہ، موجودہ وقت میں، جب علاقائی طاقت عدم توازن کا شکار ہے اور کشمیری عوام آزادی کے لیے مقامی طور پر عوامی جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں، ایسے میں پاکستان کے لیے موقع ہے کہ وہ کشمیریوں کو ہندوستان کے مظالم سے چھٹکارہ دلوانے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی ترتیب دے اور کشمیریوں کے حقوق اور خواہشات کی تکمیل کی خاطر ہندوستان پر مزید بین الاقوامی دباؤ بڑھایا جائے۔
پاکستان کو سب سے پہلے ان مختلف مقاصد کی حمایت کرنی چاہیے جن کا حصول خود کشمیریوں کے لیے ضروری ہے:
حریت جماعتوں کے درمیان اتحاد نو و بحالی؛ ناقابل شکست شخصیت کے مالک لیکن عمر رسیدہ رہنما سید گیلانی کے عہدے پر کسی مستحق جانشین کا انتخاب؛ سری نگر کی کٹھ پتلی حکومت کو ناجائز قرار دیا جائے؛ ’شیڈو’ گورنمنٹ کی ممکنہ تشکیل؛ جب تک اقوام متحدہ کی رائے شماری کا انعقاد نہیں ہو جاتا تب تک کے لیے کشمیر میں (عراقی کردوں کی طرح) ’آزاد’ ریفرینڈم کا انتظام؛
دوئم، قانونی جواز کا دوبارہ حصول، کشمیری مزاحمت کی ساخت اور پروفائل کو بدلنا ہوگا۔ اس کی قیادت نئی اور کسی بھی قسم کی کالعدم تنظیم سے پاک نوجوان کشمیریوں میں سے ہو۔
تیسرا، مرکزی دھارے کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر کشمیری جدوجہد اور ہندوستانی مظالم کو مزید واضح انداز میں پیش کیا جائے۔ کیونکہ یہ حکمتِ عملی کے مقاصد کے حصول کے لیے بہت ضروری ہے۔
پاکستان کو ہندوستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک سرگرم اور مضبوط سفارتی مہم کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس مہم میں مندرجہ ذیل حصوصیات شامل ہوں:
سب سے پہلے تو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی کمیشن میں باضابطہ طور پر تجویز پیش کی جائے۔ اگر ہندوستان وہاں آنے سے روکتا ہے تو آف سائٹ رپورٹ طلب کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو چاہیے کہ وہ پرامن مظاہرین پر ہندوستانی فائرنگ، کشمیری بچوں اور نوجوانوں اور خواتین کے ساتھ انسان سوز سلوک، کرفیو، میڈیا بلیک آؤٹس، ایمرجنسی قوانین اور کشمیری رہنماؤں کی من مانی گرفتاریوں جیسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے اقوام متحدہ سے قرارداد منظور کروائے۔
دوسرا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کو ایسے اقدامات کا انتخاب کرنے کی ایک باضابطہ طور پر تجویز پیش کی جائے تاکہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دوسری جنگ چھڑنے سے روکا جا سکے، ان اقدامات میں سب سے پہلے تو 2003 میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جنگ بندی کو باضابطہ حیثیت دلوانا اور جنگ بندی کا جامع انداز میں جائزہ لینے کے لیے یو این ایم او جی آئی پی کا دائرہ کار اور اس کی تعیناتی سرحد کے دونوں اطراف تک بڑھانا شامل ہے۔
جبکہ دوسرا، ایل او سی کو بھاری اسلحے سے پاک کیا جائے؛ پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال اور مداخلت نہ کرنے کی پختہ باہمی یقین دہانیاں کروائیں۔
تیسرا، ہندوستان پر نسل کشی کے کنوینشن کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں شکایت درج کی جائے۔
چوتھا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کی جائے کہ وہ جموں اور کشمیر کے دونوں جانب فوجی انخلاء کے فروغ کی خاطر ایک خاص سفارت کار کی تعیناتی کے ساتھ جموں اور کشمیر پر منظور ہونے والی قرار دادوں پر عمل درآمد شروع کرے اور اقوام متحدہ کی رائے شماری کے انتظام کے طریقہ کار پر نظر ثانی کے ساتھ اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔
مسئلہ کشمیر پر اٹھائے جانے والی پاکستان کی آواز جنگ کا باعث نہیں بنے گی اور اس کے لیے پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کی راہ سے بھی نہیں بھٹکنا ہوگا۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کی تجاویز قبول نہیں بھی ہوتیں تو بھی انہیں پیش کرنے اور ان پر ہونے والی بحث کی وجہ سے ہندوستان پر سفارتی دباؤ بڑھے گا جس سے کشمیری عوام کی تکالیف میں کچھ تو کمی آئے گی۔
ہو سکتا ہے کہ اس طرح ہندوستان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور برائے نام ہی سہی مگر عام حالات پیدا کرنے پر آمادہ ہو جائے؟
یہ مضمون 20 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں