برکتوں کا مہینہ
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/99507876" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
برکتوں کے مہینے کی آمد آمد ہے اور اس کے آنے سے پہلے ہی برکتوں کی آمد کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ روز مرہ کی چیزیں جو غریب کی دسترس میں تو پہلے بھی نہیں تھیں۔ اب تو مارکیٹ سے غائب ہی کردی گئی ہیں تاکہ منہ بولے دام فروخت کی جاسکیں۔
ایک طرف سڑکوں پر سیلانی اور عالمگیرکے بینر ہیں کہ پچھتر روپے میں غریب اور نادار کو کھانا کھلا کر اپنی نیکیوں میں اضافہ کریں تو دوسری طرف اپنی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لائق حضرات کے لیے ڈیلز کے بل بورڈ بھی لگ چکے ہیں کہ چودہ سو پچاس بمع ٹیکس بھر کر افطاری کریں اور اگر اپنے ساتھ اوروں کو بھی شامل کریں یعنی افطار پارٹی کا اہتمام کریں تو چودہ سو بمع ٹیکس میں ایک مہمان پڑے گا۔
سحری کی بھی الگ ڈیلز ہیں جو کچھ سالوں سے فیشن میں ہے۔ خوب ڈٹ کر کھائیں اور پھر سارا دن بے سُدھ پڑے رہیں۔ اس برکتوں کے مہینے میں ویسے بھی کون کافر کام کرتا ہے۔
اب جس کے نصیب میں لائین میں لگ کر کھانا لکھا ہے وہ لائین میں کھڑا ہوجائے اور جیسے ہر دوسرے دن سی این جی کی لائینیں لگتی ہیں اور ختم ہونے کو نہیں آتیں اور جنہیں لائین میں کھڑے ہونے کی عادت نہیں وہ تو آتے جاتے پیٹرول بھروا ہی لیتے ہیں۔ اتنا قیمتی ٹائم سی این جی کی لائین میں تو ضایع نہیں کرسکتے ۔
لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ بڑے لوگ بھی بڑے بڑے ریسٹورانٹس میں بہت زیادہ پیسے خرچ کرکے بھی لائین میں ہی کھڑے رہتے ہیں کہ وہاں بھی ڈیل چل رہی ہوتی ہیں اور کھانے پر مارا ماری جو بڑے ہوٹلوں پر نظر آتی ہے وہ چھوٹے ہوٹلوں میں نہیں۔ آپ کو اگر ٹیبل مل بھی گئی تو اگلی پارٹی آپ کے سر پر کھڑی رہے گی کہ کب منحوس کھانا ختم کرتا ہے تو ان کی بھی باری آئے۔ ویسی باری جس کے لیے اپنے سیاستدان پانچ سال انتظار کرتے ہیں ایسی ہی باری کے لیے آپ کے کھانے تو کیا نوالوں میں بھی نظریں گاڑے لوگ کھڑے رہتے ہیں۔ نا صرف گن رہے ہوتے ہیں بلکہ نوالے کو گلے سے نیچے اترتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور آپ کھانا کھا کے جاکر فیس بک پر اپنا اسٹیٹس اپڈیٹ کرتے ہیں کہ آپ نے بھی فلاں ڈیل سے استفادہ کیا اور الحمدلاللہ انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ ثواب بھی کمایا۔
جنکے پاس سمارٹ فون ہیں وہ تو وہیں بیٹھے بیٹھے فیس بک پر تصویر بھی پوسٹ کردیتے ہیں اور انکے کھانا ختم ہونے سے پہلے وہ دنیا کے ہر کونے سے واہ واہ کے کمینٹس بھی وصول کر چکے ہوتے ہیں۔
کیا کہنے اس ٹیکنالوجی کے زمانے کے، اب کی شبِ معراج کو ایک نئی رسم کا آغاز بھی ہوا۔ قوم نے ایک دوسرے کو معافی کے میسج بھیج بھیج کر اپنے گناہ گھر بیٹھے معاف کروالیے۔
سامنے تو معافی مانگتے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے کتراتے ہیں اور انکے چہرے اور آنکھوں سے بھی پتہ لگ ہی جاتا ہے کہ حضرت معافی مانگ رہے ہیں یا دل ہی دل میں گالیاں دے رہے ہیں۔ لیکن اس میسیج کے ذریعے معافی مانگنے کی نئی اختراع جو ضرور قوم کے مارکیٹنگ اور ایم بی اے پڑھے بیٹے جن کی تخلیقی صلاحیتیوں کی بدولت کارپوریٹ کمپنیاں لوگوں کی جیبیں خالی کرنے پر تلی ہیں نے تو پوری قوم کو گھر بیٹھے بغیر شرمندہ ہوئے معافی دلادی ہے۔
اب تو قوم کوشرمندہ ہونے کی تکلیف بھی نہیں اٹھانی، میسیج بھیجیں اور اپنے گناہ دھلوالیں۔ ویسے بھی فیس بک پر تو معلوم نہیں کیا کیا پوسٹ کرکے شیئر کر کے قوم اپنے گناہوں کا کفارہ اد اکر ہی رہی ہے۔ لیکن اب تو لگتا ہے کہ خدا سے جو بندے کی ڈائریکٹ ڈائلنگ ہے اس کے درمیان مولوی، پیر میر اور ولی تو آ ہی جاتے تھے اب موبائل کمپنیوں کا کردار بھی شامل ہونے ہی والا ہے، اگلے دنوں میں موبائل ہی ہوگا جس کے ذریعے معافی بھی ممکن ہوگی۔
اب اس برکتوں کے مہینے کے آنے سے پہلے آپ کے سو روپے کے کریڈٹ میں سے بیالیس روپے پچاس پیسے تو پہلے ہی کٹ جائینگے باقی کے جو بچیں گے اس سے تو صرف معافیاں ہی مل سکتی ہیں۔
پہلے تو معافی اس ملک سے مانگنی پڑے گی کہ غلطی سے یہاں پیدا ہوگئے ہیں۔ پھر میاں صاحب سے جنہوں نے پھر سے قوم سے قربانیاں مانگنی شروع کردی ہیں۔ خود معلوم نہیں کب اس قابل ہونگے کہ قوم کی خاطر کچھ قربانیاں خود بھی دیدیں۔
پھر ان خودکش بمباروں جو جیسے ہی جوان ہوتے ہیں تو انکے کانوں میں یہ بات ڈال دی جاتی ہےکہ جان تو ویسے بھی آنی جانی چیز ہے اور یہ جو عورتیں تمہاری مائیں بہنیں ہیں یا قریب کی رشتے دار ہوں یا محلے یا شہر کی ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت بدصورت بنایا ہے ان کی طرف دیکھنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔ تمہارے انتظار میں تو بہتر حوریں بیٹھی ہیں، بس دھماکہ کرو اور ان کے پاس پہنچ جاؤ پھر مزے ہی مزے ہیں۔ یہاں اس دنیا میں کیا رکھا ہے۔ سب کچھ وہیں ہے۔ ویسے یہ آج تک کہیں نہیں پڑھا نا کوئی بتاتا ہے کہ حوروں کا لباس کیسا ہوگا؟ ہوگا بھی کہ نہیں؟ پھر ڈیزائینرز آؤٹ فٹ پہنے ہونگی یا پھر وہاں بھی برقعے یا حجاب کا ہی رواج ہوگا؟ جو بھی ہو لیکن انکے بھی کیا کوئی حقوق ہونگے یا پھر وہاں بھی مرد کا ہی حکم چلے گا؟
اور یہ جو اتنی انسانی جانیں لے کر علی الاعلان اسکی ذمّہ داری بھی قبول کرلیتے ہیں اور جو ہم سنتے آئے ہیں کہ واپس لینے کا بھی اس کا اختیار ہے جس نے اس مٹی کے پتلے میں جان ڈالی ہے۔ تو پھر یہ کون ہیں جو اس کی نافرمانی کر رہے ہیں اور کیے جا رہے ہیں اور صرف ذمّہ داری وہ قبول نہیں کرتے جنہوں نے ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تخلیق کیا ہے اور ابھی تک ان کی رکھوالی بھی کر رہے ہیں۔ اور جن کی رکھوالی کی وہ تنخواہ اور ہزاروں مراعات بھی لیتے ہیں اس کا ذمّہ لینے کے لیے وہ بالکل بھی تیارنہیں۔
اب یہ برکتیں جو اس برکتوں کے مہینے کے آنے سے پہلے جاری تھیں وہ اس کے آنے کے بعد بھی جاری ہی رہیں گی۔ چونکہ اِن کے علاوہ جو بھی ہیں وہ کافر ہیں تو ان کی موت تو لازم ہے، پھر چاہے وہ برکتوں کے مہینے میں کیوں نا ہوں۔ ویسے یہ برکتیں غریب تک پہنچیں نا پہنچیں لیکن یہ جو کارپوریٹ کمپنیاں ہیں، ٹی وی چینل ہیں، خود ساختہ علماء ہیں، مولوی ہیں، عمرہ پر بھیجنے والے ہیں یا فوڈ پروڈکٹس کا کاروبار کرنے والے سب پر برکتوں کی بارش برابر ہوگی۔
کہنے کو تو اس برکتوں کے مہینے میں کم کھانا چاہیئے۔ لیکن قوم جن ذائقوں سے سال بھر آشنا نہیں ہوتی اس با برکت مہنیے میں ضرور آشنا ہوتی ہے۔ قیمتیں آپ چاہیں آسمان پر پہنچادیں۔ اس قوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو قوم آسمان سے ستارے توڑ لاسکتی ہے، چاند آپ کو تھالی میں پیش کرسکتی ہے اسے ان قیمتوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔
کراچی شہر کے سب سے بڑے شاپنگ مال جس کو دیکھ کر اور اپنے مہمانوں کو دکھا کر ہم پھولے نہیں سماتے۔ اس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی، پارکنگ میں گاڑیوں کی ریل پیل دیکھیں تو پاکستان کی ترقی پر دل عش عش کر اٹھتا ہے اور غریب قوم کے بیٹے بیٹیاں پیسہ ایسے بہا رہے ہوتے ہیں جیسے پاکستان میں پیسے درختوں پر اگتے ہوں اور وہ ابھی ابھی توڑ لائے ہیں اور اب خرچ ہو بھی گئے تو کیا ہوا پھر توڑ لائینگے۔
اسی شاپنگ مال کے سامنے غلطی سے شہر کے رکھوالوں نے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے درخت لگائے تھے۔ جن میں اگر غلطی سے نگاہ ڈالیں تو ہیروئنی اور موالیوں کے غول کے غول بسیرا کیے ہوئے ہیں اور آپ جیسے شاپنگ مال سے باہر قدم رکھتے ہیں تو یہ آپ کی ترقی اور امیری کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔
ویسے بھی اس قوم کے پاس پیسہ بہت ہے اور ایک ہماری سرکار ہے کہ کنگلی ہے۔ ایک دن کِشتہ توڑنے کی بات کرتی ہے تودوسرے دن پھر اسی ٹُٹے پجے کِشتے کو جوڑ کر چل پڑتی ہے امداد لینے کے لیے۔ اور خوددار بھی ایسی ہے کہ امداد بھی اسے اپنی شرائط پر ہی چاہیئے۔ جیسے لکھنؤ میں ایک بھکارن کو کہیں سے زردہ ملا تو وہ بالائی کے لیے پھرتی رہی کہ وہ زردے پر بالائی ڈالے بغیر تو اسے کھانے سے رہی۔ ایسے ہی اپنی سرکار بھی آپ کے موبائل فون ہی سے اپنی بالائی کا بندوبست کرنے والی ہے، زردہ تو اسے مل ہی چکا ہے۔
وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں