22 اگست 2016 کے بعد ایم کیو ایم کہاں کھڑی ہے؟
اگر آج ہم ماضی میں خود کو پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کہنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے حالات کا تجزیہ 3 مارچ 2016 سے پہلے کے ریکارڈ کو رکھ کر کریں گے تو حالات بہت ہی مختلف نظر آئیں گے۔
ویسے تو ایم کیو ایم کے کمزور ہونے کا سلسلہ گزشتہ برس 3 مارچ کو اُس وقت ہونا شروع ہوا، جب کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال طویل عرصے بعد اچانک دبئی سے پاکستان پہنچے۔
وہ خود ہی ملک سے چلے گئے تھے اور خود ہی وطن آئے، لیکن ان کی خود ساختہ جلا وطنی میں ضرور ایم کیو ایم سے طویل اور شدید ناراضی کا عنصر بھی شامل ہوگا۔
لیکن پھر 22 اگست 2016 کے غروب آفتاب کے بعد پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی کہلائے جانے والی جماعت ایم کیو ایم کا سورج بھی غروب ہوگیا۔
لیکن کیا واقعی ایم کیو ایم کا سیاسی سورج غروب ہوچکا؟
22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ریاستی، حکومتی و عوامی رد عمل کو دیکھتے ہوئے بظاہر 24 اگست 2016 کو پارٹی رہنما فاروق ستار نے اعلان کیا کہ ان کا الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ اب ان کی ایک ہی پارٹی کے 2 حصے ہوگئے۔
فاروق ستار نے اعلان کیا کہ جو ایم کیو ایم لندن سے چلائی جا رہی ہے، اب اس سے کراچی والوں کا کوئی تعلق نہیں اور اب پارٹی کے تمام فیصلے پاکستان میں ہوں گے، جو ایم کیو ایم پاکستان کرے گی۔
جس طرح برصغیر کے ایک ہی ملک کو بعد ازاں 2 ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا، اسی طرح ایم کیو ایم کو بھی سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے حالات سے مجبور ہوکر 2 ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔
ایم کیو ایم کے بٹوارے کا اعلان ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے 24 اگست کو کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا، اس سے قبل ہی رینجرز نے انہیں 8 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کیا تھا۔
رینجرز کے اہلکار انہیں کراچی پریس کلب سے اُس وقت لے گئے تھے، جب وہ ممکنہ طور پر اہم پریس کانفرنس کرنے جا رہے تھے۔
فاروق ستار اس پریس کانفرنس کے ذریعے 22 اگست 2016 کو الطاف حسین کی جانب سے ٹیلی فونک خطاب کے ذریعے پاکستان مخالف بیانات پر صفائی دینے والے تھے۔
فاروق ستار نے پریس کانفرنس کے دوران واضح طور پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی متحدہ کے پلیٹ فارم سے تشدد کا راستہ اختیار کیا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
لیکن یہی ایم کیو ایم، یہی کارکنان اور رہنما 21 اگست 2016 تک فاروق ستار کے لیے اہم تھے اور تمام پارٹی منظم ہوکر کام کر رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین کا پاکستان سے لندن تک کا سفر
پھر اچانک 22 اگست کی شام کو الطاف حسین نے لندن سے کراچی پریس کلب کے باہر 'کارکنوں کی گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل' کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کارکنوں سے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کرتے ہوئے نہ صرفپاکستان مخالف نعرے لگائے بلکہ ملک کو پوری دنیا کے لیے ایک 'ناسور' بھی قرار دیا۔
الطاف حسین کا کہنا تھا، 'پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک عذاب ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے دہشت گردی کا مرکز ہے، اس پاکستان کا خاتمہ عین عبادت ہے، کون کہتا ہے پاکستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد'۔
الطاف حسین نے پوچھا، 'تو کیا تم لوگ یہاں سے اے آر وائے اور سماء (کے دفاتر) جارہے ہو؟، جس پر حاضرین نے یک زبان ہوکر با آواز بلند اثبات میں جواب دیا۔
متحدہ قائد نے مزید کہا، 'تو آج تم لوگ سماء اور اے آر وائے جارہے ہو اور پھر کل اپنے آپ کو رینجرز ہیڈکوارٹرز جانے کے لیے تیار کرو، کل ہم سندھ سیکریٹریٹ کی عمارت کو تالا لگوا دیں گے'۔ انہوں نے کارکنوں خصوصاً خواتین کو اُکسایا، جن کی آوازیں واضح طور پر مائیکروفون پر سنی جاسکتی ہیں، جو نعرے لگارہی تھیں، 'بھائی کا ہو ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہمارا'۔
مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائے کے دفتر پر حملے اور توڑ پھوڑ سے قبل کارکنوں نے الطاف حسین سے بذریعہ ٹیلی فون براہ راست بات چیت بھی کی۔
ایک خاتون کو کہتے ہوئے سنا گیا، 'بھائی ہمیں بس آپ کا اشارہ چاہیے اور کچھ نہیں'، جس پر انھیں الطاف حسین کی جانب سے جواب ملا، 'بسم اللہ، بسم اللہ، بسم اللہ'۔
ایک خاتون نے کہا، 'بھائی ہم یہاں سے اے آر وائے اور سماء جارہے ہیں، آپ فکر نہ کریں ہم خود انصاف حاصل کرلیں گے'
میڈیا کے دفاتر پر ایم کیو ایم کارکنان کے حملوں کے دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور آنسو گیس کا استعمال کیا، اس موقع پر فائرنگ سے ایک شخص ہلاک بھی ہوا۔
اس واقعے کے بعد کراچی میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کو بھی سیل کردیا گیا۔
پاکستان مخالف تقریر کے بعد اگلے ہی دن 23 اگست کو الطاف حسین نے ایک بیان کے ذریعے معافی مانگ لی، جو وہ اس سے قبل بھی ایسے بیانات دینے کے بعد مانگتے آئے تھے۔
الطاف حسین نے اپنی تقریر پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بشمول اُس وقت کے آرمی چیف، ڈی جی رینجرز اور پاکستان کے خلاف الفاظ استعمال کرنے پر عوام سے معافی مانگی۔
الطاف حسین کی تقریر کے بعد ان کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت 2 مقدمے بھی درج کرائے گئے، جب کہ میڈیا دفاتر پر ہونے والے حملوں اور کشیدگی کے مقدمات کی سماعتیں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں شروع ہوئیں۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ایک ماہ بعد 28 ستمبر 2016 کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، اسی کیس میں فاروق ستار متعدد بار عدالت میں پیش بھی ہوئے اور اپنی ضمانت بھی منظور کروائی، لیکن الطاف حسین لندن میں قیام کی وجہ سے محفوظ رہے۔
اسی ماہ ہی لاہور ہائی کورٹ نے الطاف حسین کے خلاف دائر کرائی گئی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 7 ستمبر کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر احمد بھٹہ کو حکم دیا کہ الطاف حسین کی تقاریر اور تصاویر کی نشر و اشاعت پر پابندی عائد کی جائے۔
عدالتی احکامات کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پرنٹ میڈیا پر الطاف حسین کی تقاریر، تصاویر، بیانات اور یہاں تک کے نام شائع ہونے پر بھی پابندی عائد رہی۔
لیکن حالات آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگے۔
الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد 30 اگست 2016 کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 اور 17 کے تحت کارروائی کی سفارش کی۔
اس سفارش کے محض 3 دن بعد قومی اسمبلی نے 2 ستمبر 2016 کو الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر پر قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظور کی، لیکن حیران کن طور پر اس قرار داد میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف کسی کارروائی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔
قرار داد میں صرف تقریر کی مذمت کی گئی اور تقریر کے بعد ہونے والے تشدد پر بھی مذمت کا اظہار کیا گیا۔
الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ان کے خلاف ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور حکمران روایتی بیان دیتے رہے، یوں آہستہ آہستہ وقت گزرتا رہا۔
مزید پڑھیں: الطاف حسین کے بعد ایم کیو ایم کا پہلا یوم تاسیس
اب پاکستانی عوام تھوڑی بہت الجھن کے بعد یہ سمجھ چکے تھے کہ ایم کیو ایم لندن الگ اور ایم کیو ایم پاکستان الگ ہیں۔
بعد ازاں ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں سے اسمبلی کی نشستیں خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا، لیکن فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے خود کو الگ پارٹی کا رکن سمجھ کر اپنی رکنیت برقرار رکھی۔
اب ایک سال بعد ایم کیو ایم واضح طور پر الگ الگ دکھائی دے رہی ہے، لیکن حیران کن طور پر دونوں دھڑوں کے ووٹر اور سیاست کا محور ایک ہی ہے۔
ادھر الطاف حسین کی تقریر سے پہلے منظر عام پر آنے والے مصطفیٰ کمال نے بھی 23 مارچ 2016 کو ’یوم پاکستان‘ کے دن کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی ایک نئی جماعت ’پاک سر زمین پارٹی‘ کا اعلان کردیا۔
مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم سے الگ ہونے کے بعد زیادہ محب وطن پاکستانی بن گئے اور یوں انہوں نے نہ صرف قومی ترانے کے الفاظ ’پاک سرزمین ‘ کو پارٹی کا نام دیا، بلکہ انہوں نے چاند اور ستارے کے بغیر قومی جھنڈے کو اپنا سیاسی پرچم بھی بنالیا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران مصطفیٰ کمال کے تیر بھی کھلم کھلا الطاف حسین کے خلاف ہی ہیں، جب کہ وہ دبے الفاظ میں کبھی کبھار فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کو بھی تنقید کا نشانہ بن اکر خود کو ’مہاجروں‘ کا سب سے بڑا علمبردار کہتے ہیں۔
مصطفیٰ کمال چاہتے ہیں کہ اب ایک ہی پرانی ایم کیو ایم کو لندن اور کراچی سے چلانے سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہے کہ تمام لوگ ’پاک سرزمین پارٹی‘ (پی ایس پی) میں شامل ہوجائیں۔
گزشتہ 15 ماہ میں انہیں کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی اور کئی لوگ ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل بھی ہوچکے ہیں۔
اس وقت ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی دونوں ہی مہاجروں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں اور ان دونوں کی ہی گمشدہ افراد سے متعلق ایک ہی رائے ہے۔
مصطفیٰ کمال اپنی پریس کانفرنسز اور خطاب کے دوران متعدد بار یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ’جس طرح بلوچستان اور سندھ کے دیگر سیاسی کارکنان کو ریلیف دیا گیا، اسی طرح مہاجر لاپتہ کارکنان کو بھی ریلیف دیا جائے‘، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ سندھ اور بلوچستان کے دیگر لاپتہ کارکنان کو کون سا ریلیف دیا گیا؟
الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کو ایک سال گزر جانے کے موقع پر چند دن قبل ہی ایک خبر آئی کہ الطاف حسین نے خود ساختہ جلاوطن خان آف قلات اور پاکستان مخالف کئی تحریکیں لانے والے امریکی کانگریس کے رکن ڈینا روراباکر سے ملاقات کی۔
رواں ماہ 18 اگست کو لندن میں ہونے والی اس اہم ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ تینوں شخصیات نے ہاتھوں میں ہاتھ ملاکر تصویر کھنچوائی، جب کہ ان کے عقب میں پاکستانی نقشہ دکھایا گیا۔
اس ملاقات پر سوشل میڈیا اور خاص طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنان نے شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ملاقات میں ایک بار پھر جناح پور کے قیام اور سندھ کو توڑنے کے ایجنڈے پر بات کی گئی۔
ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اس ملاقات میں الطاف حسین نے روراباکر کو بریفنگ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کراچی اور سندھ کے مختلف علاقوں سے ایم کیو ایم کے کارکنوں اور مہاجر کمیونٹی کے اراکین کی 'غیرقانونی طور پر گرفتاری، تشدد، حراست، گمشدگی اور ماورائے قانون ہلاکتیں' جاری ہیں۔ اعلامیے کے مطابق روباکر نے ان معاملات کو امریکی کانگریس اور دیگر متعلقہ فورمز پر اٹھانے کا وعدہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم کچھ نہیں
خیال رہے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین پرپاکستان توڑنے، سندھ کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے(کراچی کے ساتھ حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژن جیسے علاقے شامل کرکے ’جناح پور‘ نامی الگ صوبہ بنانے جیسے الزامات بھی لگتے رہے ہیں) اور ان سے متعلق حیران کن انکشافات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
نہ صرف یہ بلکہ ماضی میں اس پارٹی پر لسانی فسادات جیسے سنگین الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر سے قبل انہوں نے 2 اگست 2016 کو بھی ایم کیو ایم امریکا چیپٹر کے 19ویں سالانہ کنونشن سے ٹیلی فونک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ "کارکن اقوام متحدہ اور نیٹو ہیڈ کوارٹرز جا کر ان سے کراچی میں فوج بھیجنے کا کہیں تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کس نے قتل عام کیا اور کون کون اس کا ذمہ دار تھا"۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہندوستان خود بزدل اور ڈرپوک ہے، اگر اس میں غیرت ہوتی تو پاکستان کی سرزمین پر مہاجروں کا خون نہیں ہونے دیتا"۔
یہ بھی یاد رہے کہ الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر کے بعد اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار حرکت میں آئے اور انہوں نے اسی دن 2 اگست کی شام کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بانی ایم کیو ایم کی تقریر کو پاکستان مخالف قرار دیا تھا۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کی تقریر ریاست کے خلاف اعلان جنگ ہے، اس طرح کی نفرت انگیز تقاریر کی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہ کہ الطاف حسین کی تقریر کامعاملہ برطانیہ کے سامنے اٹھایا جائے گا۔
لیکن آج تک بانی ایم کیو ایم کے خلاف کسی بھی آئینی و قانونی کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور وفاق کے زیر انتظام دیگر علاقوں میں الطاف حسین کے خلاف غداری کے کم از کم 150 مقدمات بھی درج ہیں، جن کا ذکر خود الطاف حسین اپنی تقاریر میں بھی کرتے رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر گزشتہ ایک سال سے مسلسل سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
آج ایم کیو ایم پاکستان کے فیصلوں میں الطاف حسین یا لندن کی قیادت کا عمل دخل نظر نہیں آتا، لیکن پاکستانی عوام، ریاست اور حکومت کو یقین دلانے کے لیے فاروق ستار اور ان کی ٹیم کو مزید خود مختار ہوکر ایک بالکل الگ اور مضبوط پارٹی بن کر سامنے آنا ہوگا۔