تاریخ کے گمشدہ اوراق: پاکستان اور ڈان کے 70 سال
دہائیوں سے ڈان کو ’پیپر آف ریکارڈ’ کے طور پر جانا پہچانا جاتا رہا ہے۔ یہ بلاوجہ نہیں۔ اگرچہ مؤرخین شاذ و نادر ہی اخبارات کو اولین معلوماتی ذرائع کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن تشکیل پاکستان کے اوائلی برسوں سے ڈان اخبار کے ایڈیٹرز نے قومی و بین الاقوامی واقعات کو کور کرنے کی غیر معمولی اور ہر ممکن کوشش کی ہے۔
انٹرنیٹ کی آمد سے قبل یہ اخبار باقاعدگی کے ساتھ تاریخی عدالتی فیصلے، رہنماؤں کی تقاریر اور اہم گزیٹ نوٹیفیکیشن بھی شائع کیا کرتا تھا۔ اس بنا پر اس اخبار کے گزشتہ شمارے ایک عمدہ اور قیمتی تحقیقاتی ذریعے کی اہمیت رکھتے ہیں۔
لیکن پیپر آف ریکارڈ بننے کے لیے خبروں کی اشاعت سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اداریوں اور تجزیوں کے ذریعے معاملات کو سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرنا بہت اہم ہوتا ہے۔ کیا ڈان کے ایڈیٹرز ایمانداری کے ساتھ خبریں کور کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں کامیاب ہوئے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر، کیا انہیں ایسا کرنے دیا گیا؟ یقیناً انہوں نے ایسا کرنے کے لیے اپنی پوری جان لگا دی۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اتار چڑھاؤ پر مبنی اس ملک کی تاریخ کے کئی اہم مواقع ریکارڈ کر سکے ہیں۔
مسخ شدہ تاریخ
ابتدائی برسوں میں سویلین حکومتوں کی جانب سے میڈیا پہلے ہی دباؤ کی زد میں تھا۔ معاملات اس وقت مزید بگڑ گئے جب ملک میں براہ راست فوجی حکومت اقتدار میں آئی۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق جیسے فوجی حکمرانوں کو آزاد پریس ذرا بھی برداشت نہیں تھی اور وہ اختلاف رائے کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
1960 کے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس جیسے سیاہ قوانین، بالواسطہ اور براہِ راست سینسرشپ، صحافیوں کی گرفتاریوں، اور کئی مختلف اشاعتی اداروں پر پابندیوں کے ذریعے پریس کی آواز دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ تاریخ کے وہ حصے ہیں جن میں حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کو تقریباً جرم تصور کیا جاتا تھا — بعض اوقات تو برتاؤ بھی مجرموں والا کیا جاتا۔ لہٰذا، ڈان کے گزشتہ شمارے — اگرچہ پاکستان کے سب سے زیادہ قیمتی اثاثوں میں سے ہیں — لیکن تاریخ کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کرتے۔
اخبار کے چند پرانے شماروں پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ چند واقعات کو یا تو رپورٹ نہیں کیا گیا، یا پھر انہیں اصلی حالت میں شائع نہیں کیا گیا۔ مثلاً، ان دنوں کی خبروں کو کھنگالا جائے تو یہ جاننا مشکل ہے کہ نوجوان کمیونسٹ رہنما حسن ناصر اور نذیر عباسی (دو مختلف فوجی حکومتوں کے دوران) تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہ پتہ لگانا بھی مشکل ہے کہ ضیا دور میں کتنی تعداد میں سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالا گیا تھا، یا پھر مختلف وقتوں میں ہونے والی بلوچستان کی شورش کے دوران کتنی تعداد میں مزاحمت کاروں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی تفصیلات تک جاننے کو نہیں ملتیں۔
یہ ہیں تاریخ کے وہ چند گمشدہ اوراق۔ طاقتور ریاست کی پالیسیاں سچ سے پردہ ہٹانے پر کبھی بھی رضامند نہیں ہوئیں۔
سینسرشپ سے قبل اور ’پریس ایڈوائسز’
جب میں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا تب جنرل ضیاء کا مارشل لاء دورِ حکومت اپنے عروج پر تھا۔ سینکڑوں سیاسی مخالفین جیلوں میں قید تھے۔ صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد جیلوں میں تھی اور کئی اشاعتی اداروں پر پابندی عائد تھی۔ حکومت آزاد پریس کو اپنے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک تصور کرتی تھی۔
فوج کے زیر انتظام وزارتِ اطلاعات کے تحت چلنے والے بدنام زمانہ ’پریس ایڈوائسز’ سسٹم کی صورت میں میڈیا کو پابندیوں کا تو پہلے ہی سامنا تھا۔ پھر جلد ہی براہ راست سینسرشپ بھی مسلط کر دی گئی۔ مارشل لاء ضوابط کے تحت تمام اخبارات کا باریکی سے جائزہ لیا جاتا تھا؛ اخبار کا تمام مواد منظوری کے بعد ہی شائع کرنا ہوتا تھا۔
میری ڈیوٹیز میں کبھی کبھار دی اسٹار، کراچی کا اخبار جس کے لیے میں کام کرتا تھا، کی کاپی کو سینسر دفتر لے جانا بھی ہوتا تھا۔ ان یادوں کو مٹانا بہت ہی مشکل ہے۔ نیم پڑھے لکھے افسران قصائیوں کی طرح پیش آتے تھے۔ کوئی بھی ایسی خبر جو حکومت یا فوج کو ذرا سی بھی تنقید کا نشانہ بناتی، یا پھر جن میں مخالف سیاستدانوں کے لیے آواز اٹھائی جاتی انہیں خارج کر دیا جاتا۔
بعض اوقات تو روزمرہ کی جرائم کی خبریں بھی اس وقت نکال دی جاتی تھیں جب افسر کو محسوس ہوتا کہ ان خبروں سے فوجی حکومت کا تشخص خراب ہو سکتا ہے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ جب دی اسٹار کے ایک پورے شمارے کو ضبط کر لیا گیا کیونکہ اخبار نے ایک ایسی شادی کی تصویر شائع کردی تھی جس میں بے نظیر بھٹو بھی مہمان تھیں۔
سینسر احکامات کے نفاذ کے پہلے دو ہفتوں کے اندر اندر، ڈان، اس کی ذیلی اشاعت دی اسٹار، اور کئی دیگر اخباروں نے اپنے صفحات میں خالی جگہیں چھوڑنا شروع کر دی تھیں جو کہ خبروں اور اداریوں کے نکالے جانے کو ظاہر کرتی تھیں؛ یہ صاف تھا کہ جو شائع کیا جا رہا تھا، وہ ایک مکمل تصویر نہیں تھی۔
ردِ عمل میں حکومت نے اخباروں کو خالی جگہیں چھوڑنے سے منع کر دیا۔ سینسر ہونے والی خبروں سے جو جگہ بچ جاتی، اسے 'بے ضرر مواد' سے پر کیا جاتا تھا، جو اخبار کو مزید کم حقائق پر مبنی بنا دیتا تھا۔ یہ مصیبت اس وقت مزید بڑھ گئی جب بعد میں چند 'جوشیلے' سول سرونٹس نے سالہا سال میں سینسر ہونے والی خبروں یا اداریوں کی محفوظ شدہ دستاویزات کو ’کلاسیفائیڈ’ قرار دے کر چُھپا دیا یا پھر مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ یوں پیچھے کوئی ثبوت باقی نہ بچا کہ اخبارات کیا کچھ شائع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
منظم کنٹرول
میڈیا کو دبانے والے صرف فوجی حکمران ہی نہیں تھے۔ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی تنقید برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کے دور میں بھی کئی صحافیوں کو جیل میں بند کیا گیا اور اشاعتی اداروں پر پابندی عائد کی گئی۔ لیکن میڈیا پر منظم کنٹرول کی بنیاد ایوب خان کے دور میں متنازع پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس، 1963 کی صورت میں ڈالی گئی۔
پاکستان کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کی ان کی کوشش نے آزاد پریس کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔ حکومت نے نہ صرف کئی ترقی پسند اخباروں کے مالکانہ حقوق حاصل کر لیے، بلکہ دیگر کو بدترین پابندیوں کا بھی نشانہ بنایا۔ افسوس کے ساتھ، چند اخبارات اور ان کے ایڈیٹروں نے — یا تو دباؤ میں آتے ہوئے یا پھر مکمل یقین کے ساتھ — ایوب میں ایک روشن خیال فوجی حکمران دیکھا، اور غیر مشروط طور پر ان کی کئی پالیسیوں کی حمایت کی۔ حقیقی موت آزاد میڈیا کی ہوئی تھی۔
جنرل یحییٰ خان کی حکومت بھی آزادئ پریس کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ملک کے دو لخت ہونے اور بنگلہ دیش کے قیام کی وجہ بننے والے واقعات کے میڈیا بلیک آؤٹ کے ساتھ ساتھ 17 دسمبر 1971 کے دن زیادہ تر پاکستانی اخبارات کے پہلے صفحے اس وقت پریس پر عائد پابندیوں کی ایک افسوسناک یاد دہانی ہیں۔
ڈان کی اپنی شہہ سرخی ’وار ٹِل وکٹری’ (فتح تک جنگ) بھی یحییٰ خان کے قوم سے خطاب پر مشتمل تھی۔ دن کی اصل خبر کو محض دو کالموں کے اندر چند جملے ڈال کر ایک کونے میں چھپا دیا گیا تھا۔ ایک بڑی ہی مبہم شہہ سرخی ’مشرقی حصے میں لڑائی کا اختتام’ کے ساتھ راولپنڈی سے سرکاری طور پر کلیئر قرار دی گئی خبر کچھ یوں تھی کہ، "تازہ ترین اطلاعات یہ اشارہ دیتی ہیں کہ مشرقی میدانِ جنگ میں ہندوستان اور پاکستان کے مقامی کمانڈرز کے درمیان معاہدے کے بعد مشرقی پاکستان میں جنگ بندی ہو چکی ہے اور ہندوستانی فوجیں ٖڈھاکہ میں داخل ہو چکی ہیں۔"
صرف اتنی سی خبر، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، کو شہریوں تک پہنچنے دیا گیا تا کہ شہریوں کو یہ اطلاع دی جا سکے کہ پاکستان اپنا مشرقی حصہ کھو چکا ہے۔
پاکستان کی آزادی کے اوائلی برسوں سے ہی میڈیا کو مختلف اقسام کے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ ماضی میں اگر 1953 تک پیچھے جائیں تو اس وقت کے ڈان کے ایڈیٹر، الطاف حسین، اتنے مایوس ہوئے کہ انہوں نے ایک شمارے میں تو اداریے کی جگہ ہی خالی چھوڑ دی۔
جہاں وہ کالم شائع ہونا تھا اس کے نیچے انہوں نے مندرجہ ذیل سطریں اپنے ہاتھوں سے لکھیں کہ:
"جب سچ آزادی سے نہ بولا جا سکتا ہو، اور حب الوطنی کو تقریباً ایک جرم سمجھا جاتا ہو، ایسے میں قائدِ اعظم کی سالگرہ کے موقعے پر اداریے کی یہ جگہ خالی چھوڑ دی گئی ہے، تاکہ لفظوں سے زیادہ بلیغ انداز میں بات کہی جا سکے۔"
نام نہاد آزادی
اگر سچائی پہلے وقتوں میں کم فراہم کی جاتی تھی تو آج بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ، میڈیا ایک منتخب حکومت کا تنقیدی جائزہ لے سکتا ہے، اس کی پالیسیوں کی جانچ پڑتال اور اس کے اندر ہونے والی بدعنوانیوں کا انکشاف کر سکتا ہے۔ نجی ٹی وی چینلوں پر، اور پرنٹ میڈیا کے بڑے حلقوں میں سیاسی مسائل پر نظر آنے والی بے لگام بحث و مباحثے اس بات کا ثبوت بھی ہیں۔
یہ کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عرصے کے دوران ریاست (یا اس کے چند حصے) نہ صرف مزید طاقتور ہوئے ہیں، بلکہ یہ میڈیا — یا پھر اس کے کئی بڑے حصوں — پر کس کر لگام ڈالے رکھنے کے لیے نت نئے طریقے بھی اختیار کر چکے ہیں۔
سطح کو تھوڑا سا کرید کر دیکھیں گے تو آپ پائیں گے کہ رپورٹنگ کے حوالے سے نو گو ایریاز کی تعداد میں — غیر معمولی طور پر — اضافہ ہوا ہے۔ جیسے جیسے اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ جسے چند افراد ’گہری ریاست’ کے طور پر پکارتے ہیں، اپنے پنجے پھیلاتا جا رہا ہے، ویسے ویسے یہ عفریت ایماندارانہ جانچ پڑتال سے بھی بچ کر نکل رہا ہے۔
مطالبات کی ایک ناختم ہونے والی فہرست ہے: ’شورش زدہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر رپورٹ نہ کریں'؛ مذہبی شدت پسندوں یا مشتبہ دہشتگردوں سے جڑے واقعات میں ذمہ داری کے دعووں پر سوال نہ کریں’؛ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو اٹھانا کوئی اچھا خیال نہیں ہے’؛ اور ’ماورائے عدالت قتل پر روشنی ڈالنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں’۔ حتیٰ کہ شدت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے پر حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان اختلافات کو رپورٹ کرنا بھی قبول نہیں— جس کا اندازہ آپ ڈان کی 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہونے والی سیرل المیڈا کی لکھی خبر سے لگا سکتے ہیں۔ اس قسم کی خبروں کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی تصور کیا جاسکتا ہے، اور اکثر کیا جاتا بھی ہے۔
وہ میڈیا جو ان ہدایات پر عمل پیرا ہوتا ہے اسے ’حب الوطن’ کہا جاتا ہے۔ وہ چند جو اپنی آواز اٹھانے کی جرات کرتے ہیں ان سے بدترین سلوک برتا جاتا ہے، جن میں سوشل میڈیا کے ذریعے بیہودہ مہمات کا چلایا جانا شامل ہے۔
حالیہ دنوں میں، ایسے ہی کچھ زبانی قواعد و ضوابط کا دائرہ کار ایسے معاملات تک بھی پھیلا دیا گیا ہے جن کا دور دور تک قومی سلامتی سے کوئی واسطہ نہیں۔ مثلاً، کاروباری اداروں بشمول نیشنل لاجسٹکس سیل یا ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی، میں ہونے والی بدعنوانیوں پر روشنی ڈالنا۔ بلکہ یہ دائرہ کار ’ان کے خرچے پر بننے والی فلموں’ کے تنقیدی جائزوں تک بھی پھیلایا گیا ہے۔ ایک خود ساختہ ’قومی بیانیے’ کو ایک نئی تقویت بخشنے کے لیے، اس قسم کے تمام مسائل پر تنقیدی رپورٹنگ کرنے کو ’غیر محب وطن رویے’ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ ایک ماتحت میڈیا کی صورت میں نکلتا ہے، جو کہ قصداً یا بلاقصد از خود سینسرشپ کی جانب مائل ہو جاتا ہے — جو براہ راست سینسرشپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ گمراہ کن اور نقصان دہ ہے۔
ناگہانی خطرے
حقیقت پر مبنی صحافت پر قابو پانے کی کوششیں صرف ریاستی اداروں کی خبروں میں ترمیم کی سرگرمیوں تک محدود نہیں۔ ایک دوسرا میڈیا مخالف کھلاڑی پرتشدد انتہاپسندوں کی لاتعداد فوج کی صورت میں ابھرا ہے۔ 1980 کی دہائی میں اگر ایم کیو ایم نے مسلح حکمت عملیوں کے بیج بوئے تھے، تو اب ایسے ہی طریقے بلوچ مزاحمت کار اور، ان سے بھی زیادہ پرتشدد، مذہبی شدت پسندوں کے مختلف دھڑے اختیار کر رہے ہیں۔
فوج اپنے بیانے کو فروغ دے رہی ہے اور شدت پسند اپنے بیانے کو، ان دو کے بیچ میں پھنسے بلوچستان یا فاٹا میں بیٹھے کسی ضلعی نمائندے سے حقائق پر مبنی کوئی خبر رپورٹ کرنے کی توقع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اپنے ’جرائم’ کی وجہ سے کئی ایسے نمائندوں کو تو سزائیں پہلے ہی مل چکی ہیں اور کئی دیگر صحافی اپنا پیشہ چھوڑ رہے ہیں، کوئی بھی ایڈیٹر ان نمائندوں سے معروضی طور پر خبریں رپورٹ کرنے کے لیے کہنے کی جرات نہیں کرتا۔
اور پھر چند کمرشل مفادات ہیں جن کے باعث، میڈیا، یا میڈیا کا ایک بڑا حصہ، ماتحت رہنے پر مجبور رہتا ہے۔
ایک کے بعد ایک حکومتیں اپنی سرگرمیوں کی تشہیر یا پھر خبروں کو دبانے کے لیے اپنے تشہیری بجٹ کا استعمال کرتی ہیں۔ ایسے ہی جذبے سے سرشار بڑے بڑے کمرشل ادارے اپنے اشتہاروں کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان اخبارات پر دباؤ ڈالتے ہیں جو ان اسکینڈلوں کا انکشافات کرتے ہیں جن میں وہ ادارے شامل ہوتے ہیں۔ کئی مواقع پر ڈان اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا چکا ہے، اور نقصان اٹھاتا رہے گا، کیونکہ حکومت یا حکومتی طبقات یا پھر بڑے کمرشل ادارے اخبار کی کوریج سے خوش نہیں ہیں۔
آج بھلے ہی پاکستان ایک آمرانہ ریاست نہ ہو، لیکن اب بھی چند ریاستی ادارے اس ملک کو ایسی ریاست میں بدلنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ طاقتور ریاست یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ آزاد پریس ایک جمہوری سماج کی بالترتیب ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔
بدقسمتی سے آمرانہ ریاست کے حامی حقیقت پر مبنی صحافت، پروپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کے درمیان تمیز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
صحافت کا مطلب بولنے کی آزادی نہیں ہے، بلکہ یہ حدود میں رہتے ہوئے اظہار کا نام ہے۔ صحافت چند اقدار کے اندر رہتے ہوئے اپنا فرض انجام دیتی ہے، ان میں سے سب سے زیادہ ضروری صداقت، صرف سچ پر مبنی، غیر جانبداری اور قابل احتساب رپورٹنگ ہیں۔ اور ڈان نے ان باتوں پر ہمیشہ زور دیا ہے، جو کہ اب ’قارئین کا ایڈیٹر’ یا داخلی محتسب بھی قائم کر چکا ہے، تا کہ اخلاقی تقاضوں کی خلاف ورزیوں پر قابو پایا جا سکے۔
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ برسوں پر محیط سینسرشپ اور دیگر پابندیوں کے باعث، ڈان شاید پیپر آف ریکارڈ کے معیار پر ہمیشہ پورا نہ اتر پایا ہو لیکن پھر بھی اس معیار کے قریب تر ضرور ہے۔ اب جبکہ بیڑیوں سے آزادی کے لیے جدوجہد جاری ہے، تو ایسے میں آپ یہ امید ہی کر سکتے ہیں کہ تمام رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود، یہ اخبار ملک میں اخلاقی اور صداقت پر مبنی صحافت کے اس معیار پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے چیلنجز پر پورا اترے گا، جس معیار کے قیام میں اس نے مدد دی ہے۔
ظفر عباس ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔
ظفر عباس ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔