اسپیکر نے کسی جج کے خلاف ریفرنس نہیں بھیجا، ترجمان قومی اسمبلی
میڈیا میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے سپریم کورٹ کےجسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے حوالے سے چلنےوالی خبر اس وقت دم توڑ گئی جب ترجمان قومی اسمبلی نے اس خبرکی تردید کی۔
قومی اسمبلی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے کسی جج کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا۔
ترجمان نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے بارے میں غلط بیانی اور مبالغہ آرائی سے گریز کیا جائے۔
جسٹس کھوسہ کےخلاف 'ریفرنس': حقیقت یا سوچا سمجھا منصوبہ؟
قبل ازیں ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گردش کررہی تھی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بینچ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کردیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے دائر کیے گئے مبینہ ریفرنس میں پاناما کیس کے فیصلے کے ایک مخصوص پیرا گراف کو بنیاد بناتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کی استدعا کی گئی۔
مبینہ ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 'پاناما پیپرز کیس کے تفصیلی فیصلے کے ایک مخصوص پیراگراف میں معزز جج آصف سعید کھوسہ کی جانب سے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو سابق وزیراعظم نواز شریف کا وفادار قرار دیا گیا جس سے اسپیکر قومی اسمبلی کی ساکھ متاثر ہوئی'۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف اس مبینہ ریفرنس میں کہا گیا کہ 'معزز جج کے اسپیکر قومی اسمبلی سے متعلق ریمارکس سے اسپیکر آفس کی توہین ہوئی کیونکہ اسپیکر قومی اسمبلی کا دفتر کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے'۔
مزید پڑھیں: پاناما گیٹ فیصلہ: جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس
سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر اس مبینہ ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ 'معزز جج کے ان ریمارکس نے کئی منفی سوالات اٹھا دیے جبکہ ان ریمارکس سے ذاتی عناد، جانبداری اور پارلیمنٹ کی خودمختاری پر ضرب لگانے کا تاثر بھی ملتا ہے'۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 'جسٹس آصف سعید کھوسہ مستقبل میں چیف جسٹس پاکستان کا حلف لیں گے اور اپنے عہدے پر برقرار رہنے سے معزز جج صاحب کو مزید متنازع فیصلوں کا موقع ملے گا جس کے اثرات پاکستانی سیاست پر مرتب ہوں گئے لہٰذا انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا جائے'۔
حقیقت یا سوچا سمجھا منصوبہ؟
تاہم اس حوالے سے جب اٹارنی جنرل پاکستان اور اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ ایسی کسی بھی پیش رفت سے لاعلم ہیں، جبکہ اسپیکر چیمبر کا کہنا تھا کہ ابھی تک کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔
تاہم خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں گردش کرتی یہ دستاویزات مکمل نہیں کیونکہ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے جانے والے مبینہ 'ریفرنس' کا صفحہ نمبر 2 غائب ہے۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر موجود ان دستاویزات پر مہر اور دستخط بھی موجود نہیں ہیں جن سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ آخر یہ کاغذات کس محکمہ سے جاری کیے گئے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ اور ان کے اختلافی ریمارکس
جسٹس آصف سعید کھوسہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک اثاثے رکھنے کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی کی اور پاکستان کی تارخ کے اہم فیصلوں میں سے ایک پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ سنایا۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس فیصلہ: نواز شریف نے نظرثانی اپیلیں دائر کردیں
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے جسٹس کھوسہ 18 سال سے زائد دورِ ملازمت میں تقریباً 50 ہزار کے قریب کیسز کے فیصلے سنا چکے ہیں۔
پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف 20 اپریل کا عبوری فیصلہ سنانے والے دو ججز صاحبان میں سے ایک جسٹس آصف سعید کھوسہ ہی تھے جنہوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے ماریو پوزو کے مشہور ناول ’دی گاڈ فادر‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا، ’ہر عظیم قسمت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔‘
جسٹس کھوسہ نے کہا تھا کہ ’یہ ایک طنز اور سراسر اتفاق ہے کہ موجودہ کیس بھی بالزاک کی اسی بات کے گرد گھومتا ہے۔‘
اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’شریف خاندان کے خلاف درخواستوں کو عدالت نے اس لیے سننے کا فیصلہ کیا کیونکہ ملک کے دیگر متعلقہ اداروں، جیسا کہ قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور فیڈر بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بدقسمتی سے یا تو معاملے کی تحقیقات میں ناکام رہے یا انہوں نے اس سے انکار کیا، جبکہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی نہیں بھیجا۔‘