گھریلو تشدد کو نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے!
پڑوس سے آئے دن لڑائی جھگڑے مار پیٹ کی آواز کا آنا معمول کی بات بن چکا تھا۔ دوپہر ہو یا رات، پہلے بحث کی آواز آتی اور پھر گرما گرمی اِس حد تک آگے بڑھ جاتی کہ جیسے اب کوئی جان سے جانے ہی والا ہو، کئی گھنٹوں کے بعد عتاب کا شکار ہونے والی عورت کی سسکیوں اور بددعاؤں کی مدھم آواز بتاتی کہ لڑائی اب اختتام پذیر ہوچکی اور اب سکون ہے۔
سکون تو شاید پڑوسیوں کے لیے ہو لیکن جس گھر میں یہ قیامت روز بپا ہوتی ہو وہاں کون سا سکون ہوتا ہوگا؟ شروع شروع میں یہ آوازیں اور مار دھاڑ بہت تکلیف کا باعث بنتی تھی لیکن پھر میں نے سوچا کہ جس گھر میں یہ تماشا لگتا ہے وہاں کی بالائی منزل پر تو نیچے تماشا لگانے والے کا چھوٹا بھائی بمعہ اہل و عیال رہتا ہے، جب وہ اپنے بڑے بھائی کو اِن حرکتوں سے باز رکھنے سے قاصر ہے تو پڑوس کا بولنا بنتا بھی ہے یا نہیں؟
لیکن ایک دن شاید ساری حدیں پار ہوگئیں اور جب آوازیں آئیں کہ کوئی ہے جو ہمیں بچائے تو رہا نہ گیا اور میں نے خاموشی سے پولیس کو فون کیا اور گھر میں ہونے والی لڑائی اور تشدد کی اطلاح دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس پہنچی اور یہ دنگا فساد کرنے والے کو تھانے لے گئی۔ لیکن اِس کوشش کا زیادہ کچھ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ وہ بہت ہی جلد باہر آگیا۔ وہ کب باہر آیا؟ کون لایا میں نہیں جانتی بس یہ ضرور ہوا کہ اگلی لڑائی تین ہفتوں بعد ہوئی، اگرچہ اس بار شدت کم تھی لیکن اِس سے اگلی لڑائی میں وہی کچھ دہرایا گیا جو پہلے ہوتا تھا۔
گھریلو ناچاقیوں، تشدد اور نازیبا الفاظ کا استعمال، ہمارے معاشرے میں بڑھتا جارہا ہے۔ سب سے اہم وجہ عدم برداشت ہے۔ یہ ہر گھر میں تو نہیں ہوتا لیکن اب کسی نہ کسی گھر میں ہونا عام بات ہے۔ گزشتہ برس ملک کے سب سے بڑے نجی اسپتال میں منعقدہ نیشنل ہیلتھ سائنسز اینڈ ریسرچ سیمپوزیم میں پینل مذاکرے میں ڈاکٹر تزئین سعید علی نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں ہر دوسری عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے۔جس میں جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد شامل ہے، جس کا شکار ہوکر اکثر خواتین مختلف اقسام کے امراض سے دوچار ہوتی ہیں۔ اِن امراض میں نفسیاتی، بے خوابی، جلد، تولیدی، میدے اور آنتوں کے امراض اور ڈپریشن سرِفہرست ہے۔
پڑھیے: 'اطاعت شعار' بنانے کے لیے قبرستان میں زیادتی
ڈاکٹر علی کے مطابق 21 سے 50 فیصد تشدد کا شکار ہونے والی عورتیں وہ ہیں جو شادی شدہ ہیں، جو یا تو اپنے شوہر کے ہاتھوں یا پھر سسرال والوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ رواں برس جنوری میں ایک خبر سامنے آئی جس میں بفر زون کے علاقے سے بیوی کو قتل کرنے کے شبے میں شوہر سمیت سسرال کے دیگر افراد کو پولیس نے حراست میں لیا۔ مقتولہ کے شوہر امتیاز کا کہنا تھا کہ گھریلو جھگڑے کے بعد اُس کی بیوی نے خود سوزی کی کوشش کی جس پر وہ اُسے قریبی اسپتال لے گیا لیکن دوسری طرف ڈاکٹروں کا موقف تھا کہ مقتولہ کی حالت تشویشناک تھی اور اُس کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات تھے۔
لڑکی کی موت اور ڈاکٹروں کی رپورٹ کے بعد پولیس نے تفتیش کی اور اہلِ محلہ نے بھی اِس بات کی گواہی دی کہ مقتولہ پر تشدد عام بات تھی جس پر پولیس نے اُس کے شوہر کو گرفتار کیا۔ یہی نہیں بلکہ مئی 2017 میں بھی اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں ایک شخص نے اپنی بیوی، سالے اور دو بچوں کو لوہے کی راڈ سے تشدد کرکے قتل کر دیا، گرفتاری کے بعد قاتل نے نہ صرف اعتراف جرم کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ مقتولہ اُس کی دوسری بیوی ہے اور پہلی بیوی کو بھی اُس نے ہی قتل کیا تھا، اِس قتل کی وجہ اُس نے گھریلو ناچاکی بتائی۔ یہاں ابھی صرف چند مثالیں بتائی گئیں ہیں، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ایسے درجنوں واقعات رونما ہوچکے ہیں جنہیں روکنے کے لیے اب تک کوئی موثر کوشش نظر نہیں آرہی۔
یہ مثالیں بدترین ہیں اور بظاہر دیکھا جائے تو کم علمی، جہالت اور اخلاقیات کی کمی اِن واقعات کی وجوہات قرار دی جاسکتی ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ کام پڑھے لکھے لوگ بھی کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہماری ایک صحافی دوست اپنے بچوں کے ہمراہ موسم گرما کی تعطیل کو مزید خوشگوار بنانے کی غرض سے کلفٹن کے ایک شایان شان مال گئیں۔ وہاں مووی سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ اپنے بچوں کے ہمراہ فوڈ کورٹ میں اپنے آرڈر کے ڈیلیور ہونے کا انتظار کرنے لگیں تو اُنہیں اپنے ہی قریب بیٹھے ایک جوڑے کے درمیان تلخ کلامی سنائی دی، میاں بیوی کے درمیان ایک کم عمر بچہ بھی موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس شخص نے جو بظاہر انتہائی پڑھا لکھا اور وضح قطع رکھنے والا دکھائی دے رہا تھا، اچانک اُس نے اپنے سامنے بیٹھی خاتون کو دو سے تین تھپڑ رسید کر ڈالے۔
پڑھیے: گھریلو تشدد: پاکستانی 'کلچر' - حقیقت کیا ہے؟
یہ منظر دیکھ کر صحافی دوست لرز اُٹھیں اور انہوں نے اپنے ارد گرد اِس اُمید سے دیکھا کہ شاید کوئی اُس خاتون کی مدد کو آگے بڑھ جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک پبلک مقام پر ایک مرد کے زناٹے دار تھپڑ کھانے والی خاتون وہاں سے اُٹھیں، بچے کا ہاتھ تھاما اور وہاں سے چلی گئیں۔ اِس واقعے پر صحافی دوست نے سوشل میڈیا پر سوال پوسٹ کیا کہ اِس طرح کے واقعے پر کوئی مدد کے لیے آخر کیوں آگے نہیں آیا؟ انتظامیہ کیوں حرکت میں نہیں آئی؟ عورت پر ایسا تشدد ہوا اور کوئی اُسے روکنے یا دلاسہ دینے آگے کیوں نہیں بڑھا؟ جس پر بہت سی آراء سامنے آئیں، لیکن سب سے زیادہ جوابات یہ تھے کہ کسی کی ذاتی لڑائی میں ہم میں سے کسی کو بھی آگے آنے کا حق نہیں، یہ اُن کا ذاتی مسئلہ تھا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کسی کے گھر کا نجی معاملہ تھا لیکن اِن معاملات کا کیا کیا جائے جو سرے عام ہوتے ہوں؟ ابھی کچھ ہی دن پہلے سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے مقام سے ایک بریکنگ نیوز نشر ہوئی جس کی فوٹیج میں متاثرہ خاتون کے چہرے کو چھپاتے ہوئے رپورٹر نے تفصیلات بتائیں کہ خاتون پر کپڑ ے چوری کرنے کا الزام لگا کر سرے عام علاقے کے مردوں نے اُس کی سزا تجویز کی اور اُس سزا پر عمل کرتے ہوئے سب مردوں نے اُس عورت کے سر سے چادر کھینچی اور گردن اور بالوں سے پکڑ کر اُس کے چہرے پر تھپڑیں بھی ماریں۔ یہی نہیں بلکہ جسارت تو دیکھیے کہ اِس انسانیت سوز واقعے کی وڈیو بھی بناکر مقامی رپورٹرز کو بھیجی گئی جس کے بعد یہ خبر میڈیا کی زینت بنی۔
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی 2013 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ عورت کے خلاف تشدد کے پورے ملک سے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 7852 ہے، جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن نے 2014 میں اپنی رپورٹ میں یہ بتایا کہ 39 فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمریں 15 سے 39 برس کے درمیان ہے وہ گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ 2015 میں ایدھی سینٹر کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں تشدد کا شکار ہوکر یا اِس سے بچ کر پناہ لینے کے لیے آنے والی خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایک رپورٹ مرتب کرنے کی غرض سے میں نے ایک خاتون پولیس افسر سے رابطہ کیا اور غیر رسمی گفتگو کے دوران اِس موضوع پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پولیس اسٹیشن میں خواتین کی شکایات کے ازالے کے لیے علیحدہ سے ڈیسک قائم ہے، لیکن پولیس کے پاس اُس وقت تک شکایات نہیں لائی جاتی جب تک خواتین کو یہ محسوس نہ ہونے لگے کہ اِس تشدد کے نتیجے میں وہ جان سے ماری جاسکتی ہیں۔ اِس سے بھی حیران کن بات یہ کہ شکایت درج کروانے کے بعد تشدد سہنے والی خواتین مسلسل پولیس سے التجا کرتی ہیں کہ اُن کے بھائی یا شوہر کو ماریے گا نہیں، حراست میں نہ لیجیے گا، گھر پولیس موبائل نہ لائیے گا، ورنہ بدنامی ہوگی۔
پڑھیے: ایماندارانہ بے وفائی
اِن خاتون افسر کا کہنا تھا کہ ساری بات یہیں تمام ہوجاتی ہے کہ پٹنے والی عورت اذیت سہنے کے باوجود اپنے اوپر ظلم کرنے والے کے خلاف نہیں جاتی اور اگر جائے تو شرائط ایسی رکھ دیتی ہیں کہ ہم مجبور ہوجاتے ہیں۔ اِس حوالے سے قانون بھی موجود ہے، سزا بھی ہے لیکن معاشرتی دیوار کسی ایسی آہنی دیوار سے بھی زیادہ مضبوط بنا دی گئی ہے کہ جہاں عورت کو پیدا ہونے سے مرنے تک روز یہ باور کروایا جاتا ہے کہ مرد اُس کا مالک و حاکم ہے، وہ جب چاہے جیسے چاہے اپنی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے، وہ طاقت جو نام نہاد غیرت بھی ہے اور اُس کا حق بھی۔ یہی وجہ ہے کہ تھپڑ، گھونسے اور لاتیں کھا کر بھی عورت یہی کہہ رہی ہوتی ہے کہ میں اِس کی شکایت کیا کروں یہ تو ہر گھر میں ہوتا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ اِن سب کے ہوتے ہوئے معاشرے کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ گلی میں کرکٹ کھیلتے بچوں کی اگر کسی گھر میں گیند چلی جائے تو وہ وقت کی پرواہ کیے بغیر اُس گھر کی گھنٹی یا کنڈی بجا ڈالتے ہیں چاہے وہ گھرانہ بے آرام ہوجائے لیکن اگر اُس گھر سے کسی عورت کے رونے کی یا مار دھاڑ، گالم گلوچ کی آواز آئے تو کرکٹ کی وکٹ یا تو دور لگادی جاتی ہے یا پھر محلے کے معزز لوگ یہ کہتے گزر جاتے ہیں کہ فلاں کے گھر سے ایسی آوازوں کا آنا تو عام بات ہے۔ جبکہ یہی لوگ اگر معاملے کو خدا پر چھوڑنے کے بجائے ایک دو بار اُس گھر میں موجود مرد سے باز پرس کرلیں تو شاید کوئی عورت اُس روز کم مار کھائے یا پھر جان جانے سے بچ جائے۔ لیکن وہ کیا ہے ناں کہ یہ تو کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں