لاہور دھماکا: 'دہشت گردوں نے آسان ہدف کو نشانہ بنایا'
پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے لاہور میں کارروائی کیلئے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو کہ ایک آسان ہدف تھا۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے ملک احمد خان نے کہا کہ اگرچہ کسی بھی ممکنہ دہشت گرد کارروائی کو سامنے رکھتے ہوئے شہر میں سیکیورٹی کو ہر وقت سخت رکھا جاتا ہے، لیکن جب دہشت گرد اصل جگہ پہنچنے میں ناکام ہوجائیں تو وہ اسی طرح کے علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جس جگہ یہ دھماکا ہوا وہاں قریب میں ہی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کی جانب سے شہر کی پرانی سبزی منڈی کے اطراف غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ایک آپریشن جاری تھا اور روایتی طور پر جب بھی ایسا کچھ ہوتا ہے تو لوگوں کا ہجوم جمع ہوجاتا ہے۔
دھماکے کی نوعیت سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا کہ اب تک کی ابتدائی رپورٹ سے بظاہر تو یہ ایک خودکش بم دھماکا لگتا ہے، لیکن واقعے کی تفتیش شروع کردی گئی ہے اور جلد ہی حتمی رپورٹ بھی تیار کرلی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر پولیس اطراف کی عمارتوں سے لی جانے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے خودکش حملہ آور کی شناخت کرے گی، جبکہ اس کے علاوہ بھی دھماکے کی جگہ سے ملنے والے شواہد کو تفتیش کا حصہ بنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ لاہور کے علاقے فیروز پور روڈ پر واقع ارفع کریم ٹاور کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 9 پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد جاں بحق جبکہ 58 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں: لاہور: فیروز پور روڈ پر دھماکا، 26 افراد جاں بحق
حکومت پنجاب نے ڈپٹی کمشنر لاہور کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے بتایا کہ واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 26 تک پہنچ چکی ہے جس میں 10 لاشیں ایل ایج جی ہسپتال، 2 سروسز ہسپتال، 13 جناح ہسپتال اور ایک اتفاق ہسپتال میں لائی گئی۔
پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ترجمان نے خودکش دھماکے میں 9 پولیس اہلکاروں کے بھی جاں بحق ہونے کی تصدیق کی۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عمران اعوان کا کہنا تھا کہ علاقے میں انسداد تجاوزات کی مہم جاری تھی اور اس کے لیے علاقے میں پہلے سے پولیس تعینات تھی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس فروری میں بھی لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے خودکش دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت 13 افراد جاں بحق اور 85 زخمی ہوگئے تھے جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی تھی۔