سائنسی میدان میں پاکستانی نوجوانوں کے کارنامے
آخرش ہم نے بائیس سال کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ایک روزہ کرکٹ میں کوئی عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔ شاید برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ یا دیگر ممالک کے لیے چیمپئنز ٹرافی جیتنا اِس قدر اہمیت نہ رکھتا ہو، جتنا اُس قوم کے لیے، جس نے پچھلے آٹھ سال اپنے بے رونق میدان دیکھے ہوں۔
جس کی آنکھیں اپنے کھلاڑیوں کو سلاخوں کے پیچھے دیکھ کے ڈبڈبائی ہوں، جس قوم کا ایک حصہ عید کے دن بھی سوگ میں ڈوبا ہو، جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کی عظیم مثالیں قائم کی ہوں۔ ایسے میں ٹورنامنٹ میں آخری نمبر کی ٹیم سب کو پچھاڑتے ہوئے نہ صرف جیتے بلکہ سابقہ ریکارڈز کو بھی روندے، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔
یقیناً یہ خوشی بہت بڑی ہے اور اس کا سبب بننے والوں نے اگر قوم کو دائمی خوشی دی تو قوم نے بھی انہیں نوازنے میں کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑی۔ رمضان گیم شوز ہوں یا کرکٹ بورڈ، اعلیٰ حکومتی افراد ہوں یا فوج، سب نے ہی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق انہیں نوازا۔ میں نے ایک عرصے سے کبھی میچ نہیں دیکھے لیکن اُس روز ٹی وی کے علاوہ بھی اور دنیا تھی، یہ کہاں یاد رہا تھا! مگر کیا کِیا جائے کہ
دل کو کئی کہانیاں سی یاد آ کے رہ گئیں
مسلمانوں کے سائنسی کارناموں سے کسی کو انکار نہیں مگر ہم کب تک شاندار ماضی کا ڈھول پیٹتے رہیں گے؟ ماضی شاندار تھا لیکن ہمارا حال اور مستقبل زیادہ تابناک ہے۔
تحقیق و جستجو کے لبادے میں لپٹی سائنس میں عظیم نابغے صرف ماضی کا قصہ نہیں، یہ ہمارے ارد گرد بھی موجود ہیں۔ انہیں ڈھونڈنے کے لیے چراغِ رخ زیبا بھی نہیں چاہیے، بس ہر طرح کے تعصب کی عینک اتار کر دور اندیشی کا عدسہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا تذکرہ نہیں کروں گا ورنہ اِس تحریر پر وہ "عظیم دانشور" اپنی دانشوری جھاڑنے آ جائیں گے، جن کا دور دور تک سائنس سے کوئی واسطہ تھا اور نہ ہے۔
تریستے اٹلی میں واقع عبد السلام عالمی مرکز برائے نظری طبیعات میں رواں برس اسپرٹ آف عبدالسلام ایوارڈ، قائدِ اعظم یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر عمرانہ اشرف زاہد کو دیا گیا۔ ہر سال ڈاکٹر سلام کی سالگرہ کے موقع پر یعنی 29 جنوری کو دیا جانے والا ایوارڈ تیسری دنیا سے فزکس میں غیر معمولی کار کردگی دکھانے والے سائنسدانوں کو ہی دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ڈاکٹر سلام کا اٹلی میں قائم کردہ یہ ادارہ دنیا میں فزکس کے صفِ اول کے تحقیقی اداروں میں سے ایک ہے۔ ڈاکٹر عمرانہ اشرف کو اِس ایوارڈ کا ملنا اِس لیے بھی خوش آئند ہے کہ آپ کوانٹم آپٹکس میں پاکستان کی پہلی خاتون پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ آپ کو 2004 میں ICTP کی جانب سے رویتا کلکرنی کے ساتھ مشترکہ طور پہ ICTP/ICO ایوارڈ بھی دیا گیا۔
آپ یہ ایوارڈ وصول کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون بنیں۔ آئی سی ٹی پی کے ایک سینئر عہدے دار جوزف نمیلا نے ڈاکٹر عمرانہ کی مستقل اور جامع کاکردگی کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "ممکن ہے کہ عبدالسلام مرحوم سی ذہانت کے ساتھ پاکستان سے کوئی اور شخص ابھرے اور بلاشبہ یہ ڈاکٹر عمرانہ سے متاثر نوجوان لڑکیوں میں سے کوئی ہو، جو اِس بات کا پرچار کرے کہ سائنس قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے اور ہمیں اِس میں سب کی بھلائی کے لیے شریک ہونا چاہیے"۔
فزکس ہی کیا، بائیولوجی کے میدان میں بھی، اسی مٹی نے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ایوب امیہ کی پرورش کی۔ یہ مٹی ابھی بھی اتنی ہی خود کفیل ہے جتنی ماضی میں تھی۔
کچھ ماہ پہلے پاکستانی نژاد امریکی سرجن ڈاکٹر عادل حیدر کو ایلس آئی لینڈ میڈل آف آنر سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ ہر سال National Ethnic Coalition of Organizations کی جانب سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے تارکینِ وطن کو دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ اِس سے پہلے بھی پشاور سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانی نیفرولوجسٹس (ماہرِ امراضِ گردہ) ڈاکٹر فہیم رحیم اور ڈاکٹر نعیم رحیم کو مل چکا ہے۔
یہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں سات امریکی صدور اور دو نوبل انعام یافتگان بھی شامل ہیں۔ یہ ایوارڈ بنیادی طور پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اُن افراد کو دیا جاتا ہے جو امریکا اور امریکی عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ مختلف نسلی گروہوں کے درمیان معاشرتی اور نسلی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر کام کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عادل حیدر نے میڈیسن کی ابتدائی تعلیم آغا خان یونیورسٹی کراچی سے حاصل کی، جس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے اور جان ہوپکنز یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا۔ ڈاکٹر عادل حیدر ٹراما سرجری میں ایک ذہین سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ عجز کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔
آج سے تین ماہ قبل کی گئی ایک فیس بک پوسٹ میں ڈاکٹر عادل حیدر کا کہنا تھا، "یقیناً اور بھی کئی لوگ ہوں گے، جو اِس ایوارڈ کے اہل ہوں۔ میں اِسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے یہ ایوارڈ ملا"۔ اِس موقع پر وہ اپنے امریکی استاد سو بیکر کا تذکرہ کرنا بھی نہیں بھولے، جنہوں نے امریکا واپس آنے کے بعد روزگار کے حصول میں ڈاکٹر عادل کی بے پناہ مدد کی۔
آپ اِس وقت بوسٹن میں واقع بریگھم اینڈ وومینز ہاسپٹل کے سینٹر برائے سرجری اور پبلک ہیلتھ میں 'کیسلر ڈائریکٹر' کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی خالی از دلچسپی نہیں کہ جس ہسپتال میں عادل حیدر ڈائریکٹر کے عہدے پہ فائز ہیں، اُسی ہسپتال میں 1991 میں فزکس میں دو دفعہ کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان جان باردین نے آخری سانس لی۔ جان باردین سائنس کی ایک ہی شاخ میں دو نوبل انعام حاصل کرنے والے دنیا کے واحد سائنسدان ہیں۔
حال ہی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے سید فیضان حسین کو بکنگھم پیلس برطانیہ میں منعقدہ ایک تقریب میں کوئنز ینگ لیڈر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ ہر سال دولتِ مشترکہ میں شامل ممالک کے منتخب نوجوانوں کو دیا جاتا ہے۔ سن 2016 میں یہ ایوارڈ دو پاکستانی نوجوانوں زینب بی بی اور محمد عثمان خان کو دیا گیا تھا۔ زینب ماہرِ ماحولیات ہیں اور انہیں یہ ایوارڈ قابلِ تجدید توانائی کے فروغ کے سلسلے میں پاکستان میں کامیاب گرین انرجی مہم جبکہ عثمان خان کو یہ ایوارڈ تعلیم کے شعبہ میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر دیا گیا۔
رواں برس فیضان حسین کو یہ ایوارڈ پسماندہ علاقوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے صحت کے مسائل کم کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی آگاہی اور غیر مراعات یافتہ غریب گھروں کے بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کے سلسلے میں دیا جائے گا۔
فیضان حسین نے ایجو ایڈ اور ون ہیلتھ سمیت کئی نئے تخلیقی پراجیکٹس کی تشکیل و تکمیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ فیضان اِس وقت وینچر ڈارٹ نامی نئے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نئے اور چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری اور کاروبار سے وابستہ افراد کو سود مند مشورے اور نئی راہیں دکھانا ہے۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ فیضان 2014 میں پاکستان سے مائیکروسافٹ امیجِن کپ کے برین گیمز جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
اگر بات اپلائیڈ یا اطلاقی سائنس کی ہو تو وہاں بھی پاکستانی طلباء کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ رواں برس کیلی فورنیا امریکا میں ہونے والے مشہورِ زمانہ انٹیل انٹرنیشنل سائنس اینڈ انجینیئرنگ فیئر میں پاکستانی طلباء کی جانب سے دس پراجیکٹس پیش کیے گئے۔
اِس عالمی میلے کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس میں پوری دنیا سے 1700 طلباء و طالبات حصہ لیتے ہیں۔ امریکا میں حتمی مقابلے سے قبل اِن بچوں کو ملکی سطح پر کئی مقابلوں میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ اِس مقابلے میں شرکت کا طریقہ کار بھی اپنے آپ میں ایک دلچسپ چیز ہے، مگر اِس کا ذکر کسی دوسرے روز کریں گے۔
آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول کراچی سے تعلق رکھنے والے سال دوم کے طالب علم حسیب احمد خواجہ کا میوزیکل ٹارچ نامی ایک پراجیکٹ تھا۔ یہ پراجیکٹ کم خرچ بالا نشین کے مصداق 'انتہائی کم لاگت سے زیادہ توانائی کا حصول' تھا۔ یہ نہ صرف حسیب کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ مستقبل بینی کا شاندار اظہار یہ بھی کہ ماہرین کے مطابق دنیا کو آنے والوں وقتوں میں توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔
آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول کراچی کے ہی سال اول کے طالب علم مجتبیٰ سجاد کمانی نے اپنا پراجیکٹ بعنوان نابیناؤں کے لیے بریسلٹ پیش کیا۔ بصارت سے محروم افراد اِس بریسلٹ کی مدد سے اپنی آواز یعنی صوتی احکامات کا استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ جگہ تک جا سکتے ہیں۔ اِس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد بصارت سے محروم افراد کا دوسروں پر انحصار کم کرتے ہوئے اُنہیں خود کفیل کرنا ہے۔
دانش ہائیر سیکنڈری اسکول چشتیاں سے تعلق رکھنے والے احمد حسن، لیاقت علی اور نعیم حسن کا پراجیکٹ کال اینڈ چارج دی موبائل تھا۔ موجودہ دور میں موبائل فونز کی بیٹری جلدی ختم ہونا عام سی لیکن خاصی پریشانی کی بات ہے۔ اِسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مذکورہ طلباء نے کال کے دوران کی جانے والی گفتگو یعنی آواز کی انرجی سے بیٹری چارج کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔
پاک ترک انٹرنیشنل اسکول اینڈ کالجز گلستانِ جوہر کراچی کے دو طلباء حسن رضوان اور منصور احمد کا پراجیکٹ پاکستان کے ساحلوں پر بکثرت پائی جانے والی سمندری کائی اور الجی سے حاصل کردہ نامیاتی مادوں کو پلاسٹک میں تبدیل کرنے پر مشتمل تھا۔ یہ پلاسٹک کی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا۔
شاہ زیب اعجاز کا تعلق پاک ترک انٹرنیشنل اسکول اینڈ کالجز لاہور سے ہے۔ شاہ زیب نے ماحول دوست سولر واٹر پمپنگ سسٹم بنایا ہے۔ اِس پراجیکٹ کا مقصد سورج سے حاصل کردہ توانائی کو فوٹو وولٹیک سیلز کے ذریعے بجلی میں تبدیل کرنا ہے۔
موجودہ دور میں نینو ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس کے میدان میں قیمتی دھاتوں کا استعمال اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے، جو اپنی جگہ کئی مسائل کا سبب ہے۔ اسی چیز کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے اسلام آباد ماڈل کالج (بوائز) اسلام آباد کے ارقم علی خان نے ماحول دوست فوٹو کیمیکل سینسر ڈیزائن کیا۔ ارقم کا مقصد ٹیکنالوجی میں قیمتی دھاتوں کی جگہ سستی اور آسانی سے دستیاب دھاتوں کا استعمال ہے۔
پاکستان کی جانب سے آخری پراجیکٹ اینٹی کینسر اسکن لوشن کے نام سے پیش کیا گیا۔ اِس پراجیکٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی ایک ہونہار بیٹی سعدیہ قادر کی جانب سے دنیا بھر سے آئے ہوئے عالمی ماہرین کے سامنے پیش کیا گیا۔ سعدیہ قادر کا تعلق پنجاب کے ضلعے بہاولپور کی ایک قدرے پسماندہ تحصیل حاصل پور سے ہے۔ وہ پنجاب دانش اسکول (گرلز) حاصل پور کی طالبہ ہیں۔ سعدیہ کے والد ڈرائیور ہیں لیکن غربت کے باوجود سعدیہ کا کام اُس کی ذہانت و قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سعدیہ کی خواہش مستقبل میں سائنسدان بننے کی ہے۔
یہ سال 2017 میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستانی طلباء اور سائنسدانوں کی جانب سے ظاہر کی گئی کاکردگی کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ یہ بھی مانا کہ سیاست، کھیل، آرٹ اور فیشن پہ مبنی پروگرام دیکھنا اور دکھانا ہمارے میڈیا اور عوام دونوں کی مجبوری ہے مگر کیا ہماری سمت درست ہے؟
کیا یہ لوگ قوم کی توجہ کے حقدار نہیں! کیا اِن لوگوں کا کام اتنا ہی کم اہمیت ہے کہ ہمارے دن رات اِن کے ذکر سے خالی ہیں۔ اِس قدر شاندار اور تابناک کارکردگی کے باوجود اگر یہ لوگ گمنامی کا شکار رہے تو کیا ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں آنے والے کئی عشروں میں بھی عالمی برادری کا مقابلہ کر سکیں گے!
راقم کو اِس بات پر قطعاً اعتراض نہیں کہ کھلاڑیوں اور فیشن انڈسٹری سے وابستہ افراد کو کیوں نوازا جاتا ہے لیکن کیا سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق و تدریس سے منسلک لوگوں پر بھی یہ کرم نوازی نہیں کی جا سکتی؟
آج نہیں تو کل، ہمیں یہ بات ماننی ہی ہو گی کہ ایک صحیح تحقیقی سائنسی شعور کے بغیر ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونا تو کجا ترقی کی جانب بھی ایک قدم نہیں بڑھ سکتے۔
اب جس کے جی میں آئے، وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا
تبصرے (7) بند ہیں