جنجیریت: اپنی تاریخ سے انکاری چترال کی دلکش وادی
داغستان کے لوک شاعر ابو طالب (بحوالہ رسول حمزہ توف کی کتاب 'یہ میرا داغستان') کہتے ہیں کہ، "جو قوم اپنے ماضی کو گولی کا نشانہ بناتی ہے تو ان کا مستقبل ان کو توپ کا نشانہ بناتا ہے۔"
آج کالاش قبیلہ، سلسلہِ ہندوکش میں دور دراز بسے چترال کی تین وادیوں (بمبوریت، رمبور اور بریر) میں پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائن) کی قربت میں آباد ہے۔
اس علاقے میں آبادی زیادہ نہیں ہے، مقامی نجی فلاحی تنظیم کے سربراہ وزیر زادہ کالاش کے مطابق تینوں وادیوں میں کالاش قبیلے کے تقریباً چار ہزار افراد مقیم ہیں، جو اپنی قدیم تہذیب وتمدن پر آج بھی کاربند ہیں۔ تاریخ اور روایات کی آمیزش سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کالاش موجودہ وادیوں میں قریب دو ہزار برسوں سے یہاں آباد ہیں۔
"تاریخ ِ چترال"، "نئی تاریخِ چترال"، مقامی مؤرخین (پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، پروفیسر ڈاکٹر اسرار الدین، پروفیسر رحمت کریم بیگ وغیرہ) اور کالاشہ روایات کے مطابق سارے چترال پر کالاش قبیلے کی حکمرانی تھی جو 14 ویں صدی کے آغاز میں مسلم حکمرانی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی، مگر کم از کم بالائی اور چترال خاص، جنوبی چترال میں کچھ عرصے تک (بقول آگسٹو کاکوپارڈو اور البرٹو کاکوپارڈو، اطالوی محققین) کالاشہ اپنی سمٹتی ہوئی حکمرانی برقرار رکھ سکے۔
وادئ جنجیریت کوہ بھی انہی وادیوں میں سے ایک کالاش وادی ہے، جہاں ان کے آباؤ اجداد نے برسوں حکمرانی کی، جہاں وہ صدیوں آباد رہے اور اپنی تہذیب و ثقافت کے اثرات ثبت کیے۔ مگر آج وہاں کے باشندے اپنی ہی ثقافت سے گریزاں ہیں۔ مذہبی طور پر کل وہ کالاش تھے آج مسلمان ہیں، ثقافتی طور پر وہ اپنے ماضی سے ناطہ توڑ کر گزشتہ تین نسلوں سے کھوار مسلم ثقافت میں ڈھل رہے ہیں اور انہیں پسند نہیں کہ کوئی ان کے کالاش دور کو کریدے۔
چترال خاص کے جنوب میں قرہب 40 کلومیٹر کی مسافت پر دورش نامی ایک چھوٹا سا پرسکون کوہستانی قصبہ ہے جو اکثر جنوبی چترال کی سیر کرنے والے سیاحوں کا ممکنہ سیاحتی ہیڈ کوارٹر ہوتا ہے۔ یہاں بازار، بینک اور مناسب ہوٹل جیسی سہولیات موجود ہیں اور آس پاس کے علاقوں تک رسائی کے لیے ٹرانسپورٹ بھی مل جاتی ہے۔
دروش سے 12 سے 15 کلومیٹر دور جنوب مغرب میں، ڈیورنڈ لائن کی قربت میں وادئ جنجیریت کوہ ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم ہے اور دن کے مخصوص اوقات میں ہی وہاں کے لیے گاڑی چلتی ہے۔ ایک راستہ دروش بازار سے جنجیریت سے ہوتا ہوا جنجیریت کوہ جاتا ہے اور دوسرا نسبتاً طویل ہے جو دروش بازار سے وادئ سویر سے جنجیریت سے ہو کر جنجیریت کوہ جاتا ہے۔
دروش سے جنجیریت تقریباً 6 اور جنجیریت سے جنجیریت کوہ تقریباً 8 کلومیٹر دور واقع ہے۔ جنجیریت تک تو دروش سے سارا دن گاڑیاں سہہ پہر تک چلتی ہیں لیکن جنجیریت کوہ صرف ایک آدھ ہی گاڑی جاتی یا پھر سالم کروا لی جائے یا پھر جنجیریت تک لوکل گاڑی میں سفر کرنے کے بعد آگے 8 کلومیٹر کا ٹریک کیا جائے۔
جنجیریت کوہ جانے والا راستہ بھی دیگر کالاش وادیوں سے زیادہ مختلف نہیں، وہی ہندو کش کے بھورے سرمئی سنگلاخ بلند و بالا پہاڑ، ایک طرف گہرائی میں بہتی غُراتی ندی، نیچے کوہستانی راستہ اور اوپر سے جھکی ہوئی چٹانیں، جنہیں دیکھ کر کبھی کبھی خوف آتا کہ بس ابھگ ابھی گری۔
اگر آجکل میں بارش نہیں ہوئی ہو تو آپ کو ندی کا پانی صاف و شفاف ملے گا، جو پینے لائق بھی ہوتا ہے۔ پانی تو خیر چشموں کا پیا جا سکتا ہے جو جنجیریت سے جنجیریت کوہ تک وافر تعداد میں مل جاتے ہیں اور ہاں اگر آپ پھلوں کے موسم میں پیدل مائل بہ سفر ہیں تو یہ وادی آپ کو اپنے میوہ جات (شہتوت، خوبانی، سیب، اخروٹ، بادام،انگور وغیرہ) سے بھی نوازتی ہے۔
اس وادی میں تین بڑی قومیتیں آباد ہیں؛ گوجر، پٹھان اور شیخان۔ گوجر اور پٹھان نسبتاً نئے آباد کار ہیں جبکہ شیخان قدیمی باشندے ہیں جو کبھی کالاش ہوا کرتے تھے۔ تواریخ کے مطابق 20 ویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی تک سب کالاش مسلمان ہو گئے اور لفظ شیخان (واحد شیخ) سے ملقب ہوئے۔
میرے مقامی راہنما مظفر خان کے مطابق یہ عمل تین نسل پہلے ہوا۔ ان کے دادا پیدائشی کالاش تھے جو مسلمان ہو گئے۔ آج یہ صورتحال ہے کہ شیخان اپنا ماضی کریدنا نہیں چاہتے اور یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی انہیں کالاش کہے۔ ان سے ماضی کے کالاش دور پر بات کرنا ایک مشکل امر ہے۔
کالاش دور کی اکثر نشانیاں، اثرات، عبادت گاہیں مسمار ہو کر ناپید ہیں۔ ہاں آج بھی کالاش دور کے چند ایک اثرات ضرور مل جاتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ اس وادی کے گروم گاؤں (نیا نام، شیخاندہ) میں کالاشہ قوم کے تین منزلہ پانچ کوٹ (دفاعی مینار) ہوا کرتے تھے اور جب افغانستان کی طرف سے نورستانی حملہ کرتے تو مقامی لوگ ان کوٹوں میں مورچہ بند ہو جایا کرتے اور اوپر سے جلتی لکڑیاں پھینک کر اپنا دفاع کرتے۔
جرمن محقق کارل ووٹ 1976 میں ان کوٹوں کی تعداد تین بتاتے ہیں اور آج 2017 میں صرف دو باقی بچے ہیں۔ دو میں سے ایک کوٹ میں کالاش دور کے گھریلو استعمال کی چند اشیاء محفوظ کی گئی ہیں، ان میں برتن (دھات و لکڑی کے)، مارخور کے سینگ، عصا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کا سہرا برطانوی فلاحی کارکن مورین پی لائینز کے سر جاتا ہے، جنہوں نے ان چیزوں کو اکھٹا کر کے ایک کوٹ میں رکھوایا اور ایک چابی بردار رکھا جس کو وہ ماہانہ مشاہرہ دیا کرتی تھیں۔
مورین اس برس مارچ میں تقریباً 80 برس کی عمر میں وفات پاگئیں اور اب چابی بردار کسی دوسری فلاحی نجی تنظیم کی راہ تک رہا ہے کیونکہ مورین چاہتی تھیں کہ یہاں ایک چھوٹا سا عجائب گھر قائم کیا جائے۔
کالاش دور میں یہاں ایک بڑا قبرستان ہوا کرتا تھا جس میں زمین کے اوپر ہی تابوت رکھنے کی روایت تھی (جیسے ایک بڑا قبرستان آپ آج بھی بمبوریت کالاش وادی کے کراکال گاؤں میں دیکھے جا سکتے ہیں، ایسے ہی دو قبرستان بریر وادی میں بھی واقع ہیں) مگر آج چند ایک تابوت معدومیت کی گھڑیاں گن رہے ہیں۔
شاید یہ روایت پارسیوں سے مستعار لی گئی ہو۔ عبادت گاہیں تو کافی عرصہ قبل ہی مسمار کر کے ان پر گھر بنا لیے گئے ہیں۔ ہاں گھروں کا طرزِ تعمیر اگرچہ کافی حد تک کالاش والا ہی ہے، جن میں پتھر اور لکڑی کا وافر استعمال ہوتا ہے۔
بالائی جنجیریت کوہ وادی کافی کشادہ اور سرسبز ہے۔ ہریاول کی بڑی وجہ چشموں کی بہتات اور جھرنے ہیں جبکہ وادی کے وسط میں بہتی ندی یا چھوٹا دریا بھی ہے۔
دریا کے اکثر پل کافی مخدوش ہیں، جو درختوں کے تنوں پر ہموار پتھر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ دریا اور ندیوں کے کنارے گندم اور مکئی پیسنے والی پن چکیاں ہیں اور کچھ لوگوں نے تو اپنے چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھر بھی بنا رکھے ہیں۔
وادی کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔ دریا کے کناروں پر ہریالے کھیت تو ہیں مگر موجودہ تین کالاش وادیوں کی طرح کھیتوں میں کم خواتین کام کرتی نظر آتی ہیں۔ گندم اور مکئی یہاں کی بڑی فصلیں ہیں۔ کچھ مقامی افراد نجی ملازمتیں بھی کرتے ہیں اور چند ایک چترال اسکاؤٹس، پاک افواج اور پولیس کے محکموں سے بھی منسلک ہیں۔
یہاں ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک کی سہولیات تو مسیر ہیں لیکن آگے پڑھنے کے لیے دورش یا چترال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ صحت کے حوالے سے سہولیات ناکافی نہیں بلکہ ناپید ہیں۔ اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو دورش ہی قریب ترین امید ہوتی ہے، اگر سردیاں ہیں اور راستہ برف سے ڈھکا ہوا ہے تو مریض کو کاندھوں پر اٹھا کر دورش پہنچایا جاتا ہے۔
سیاحت کے حوالے سے کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ جب تک کوئی مقامی دوست، راہنما ساتھ نہ ہو تو یہاں پہنچنا بھی محال ہے اور یہاں کوئی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس موجود نہیں، چند ایک دوکانیں ہیں جو وادی کی روزمرہ کی ضروریات پورا کرتی ہیں۔ پھل اور سبزی تو تقریباً ہر کوئی اپنی اگاتا ہے لہٰذا دوکانوں پر سبزی فروخت ہی نہیں کی جاتی۔
قومی شناختی کارڈ ساتھ نہ رکھنا آپ کو گھمبیر صورتحال سے دو چار کر سکتا ہے، شاید آپ کو وادی میں جانے ہی نہ دیا جائے۔ سیاحتی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک اوکھی وادی ہے لیکن اس کا حسن بالکل اَن چھوا ہے۔ یوگی بابا کے بقول ہمت طلب کرتی ہے جنجیریت کوہ وادی۔
لکھاری لاہور سے تعلق رکھتے ہیں، جامعہ پنجاب سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں جبکہ جامعہ گجرات کے شعبہ تاریخ سے بطورِ استاد منسلک ہیں۔ سیر و سفر سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور ننگی آنکھ سے منظر دیکھ کر کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: kashifthegipsy@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں