پاکستانی سیاست کو ہلادینے والے اسکینڈلز
گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے پاکستانی میڈیا اور سیاسی رہنما یہ دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ ’پاناما پیپرز اسکینڈل‘ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاناما اسکینڈل موجودہ دور میں نہ صرف پاکستان بلکہ شاید دنیا کا بھی سب سے بڑا اسکینڈل ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے اپریل 2016 میں برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس، چین، روس، بھارت، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر، سویڈن، آئس لینڈ، ارجنٹینا، میکسیکو اور اٹلی سمیت دنیا کے 100 سے زائد ممالک کے ہزاروں افراد کی ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جاری کی گئیں۔
دستاویزات جاری ہونے کے پہلے ہی 3 ہفتوں میں فوری طور پر دنیا کے 35 ممالک نے ان انکشافات پر تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے آف شور کمپنیز بنانے والے افراد کو ملکی آئین و قانون کے تحت سزائیں دینے کا اعلان کیا۔
دنیا کے بڑے اسکینڈل کا نام حاصل کرنے والے ’پاناما گیٹ‘ پر پاکستان میں پورا سال بحث ہوتی رہی، سپریم کورٹ سے لے کر میڈیا تک، عوام سے لے کر حکومتی دفاتر تک اس معاملے پر چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔
سپریم کورٹ نے اپریل 2017 میں پاناما پیپرز کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی(جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی، جس نے اپنی رپورٹ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔
عین ممکن ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ملکی سیاست اور حکومت کو دھچکا دینے والا کوئی فیصلہ آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ ہی نہ آئے، جس سے حکومتی ایوانوں پر کوئی اثر پڑے۔
لیکن پاناما اسکینڈل سے ہٹ کر بھی ملکی تاریخ میں ایسے اسکینڈل سامنے آئے، جنہوں نے نہ صرف حکومتی ایوانوں، بلکہ عدالتوں، سیاست، عوام اور اسٹیبلشمنٹ پر اپنے اثرات چھوڑے۔
میمو گیٹ
زیادہ دور کی بات نہیں، گزشتہ دور حکومت میں بھی ایسے کئی اسکینڈل سامنے آئے تھے، جنہوں نے ملکی سیاست اور حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچادی تھی۔
ایسے ہی اسکینڈلز میں سے ایک ’میمو گیٹ‘ بھی ہے، جو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی اور امریکی کاروباری شخص منصور اعجاز کے درمیان ٹیلی فونک اور موبائل پیغامات کے مبینہ تبادلے کے بارے میں منظر عام پر آیا۔
اس واقعے کو میمو گیٹ اسکینڈل کا نام دیا گیا، جس کا کیس بعد ازاں سپریم کورٹ میں بھی چلا اور معاملے کی تفتیش کے لیے عدالتی کمیشن بھی بنایا گیا۔
میمو گیٹ اسکینڈل کیس میں موجودہ وزیراعظم نواز شریف بھی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابق حکومت کے خلاف عدالت میں گئے تھے۔
عدالتی کمیشن نے جون 2012 کو اپنی رپورٹ میں میمو گیٹ اسکینڈل کا خالق حسین حقانی کو قرار دیا، اور کہا کہ انہوں نے امریکا سے مدد مانگی۔
حسین حقانی نے امریکا سے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ نہ الٹنے اور فوج کو محدود کرنے سمیت پاکستان کے خفیہ ادارے کو ختم کرنے کی مدد مانگی تھی، جس کے بدلے واشنگٹن کو دہشت گردی کی جنگ میں مدد سمیت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کی پیش کش کی گئی تھی۔
حسین حقانی نے امریکی شہری منصور اعجاز کو کہا تھا کہ وہ ایڈمرل مائک ملن تک ان کے مطالبات پہنچادیں۔
اس کیس کی وجہ سے حسین حقانی کو استعفیٰ دینا پڑا، جب کہ ایک وقت میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری خاموشی سے علاج کے بہانے دبئی چلے گئے اور اس دوران یہ چہ مگوئیاں جاری رہیں کہ پی پی پی کی حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔
ماضی کے دیگر کیسز کی طرح میمو گیٹ بھی وقت گزرنے اور حالات تبدیل ہونے کے بعد ماضی کا قصہ بن گیا۔
سوئس اسکینڈل کیس
سوئس کیس پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پرمبینہ کرپشن کا کیس ہے۔
سوئس کیس کے لیے نواز شریف حکومت نے 1998 کے بعد سوئٹزرلینڈ حکومت کو درخواست کی کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کیسز کی تحقیقات کی جائیں۔
اس کیس میں بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر پر کئی معاہدوں میں کمیشن لینے سمیت کرپشن کرکے کم سے کم 6 کروڑ روپے بٹورنے کا الزام تھا۔
الزامات کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے ایسے 7 اکاؤنٹ پائے گئے، جن تک بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی رسائی ہے، اس کیس پر سوئٹزرلینڈ میں مقدمہ چلا۔
سوئٹزرلینڈ عدالت نے بے نظیر بھٹو پر جرمانہ بھی عائد کیا، مگر بعد ازاں اس فیصلے کو معطل کردیا گیا۔
لگ بھگ 15 سال تک چلنے والے اس کیس کو نواز شریف کی حالیہ حکومت کے ابتدائی مہینوں میں اس وقت ختم کردیا گیا، جب سوئس حکام نے پاکستانی عہدیداروں کی جانب سے لکھے گئے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوئس آئین کے تحت اب ان کیسز کو نہیں کھولا جاسکتا۔
سوئس کیس/ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی
پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار اپنی آئینی مدت پوری کی تھی، مگر اس دوران اسے کئی سیاسی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔
پی پی نے 2 وزرائے اعظم کے سہارے اپنی مدت پوری کی، پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے جون 2012 میں نااہل قرار دیا، جس کے بعد وہ عہدے پر مزید برقرار نہ رہ سکے، جب کہ انہیں انتخابات کے لیے بھی 5 سال تک نااہل قرار دیا گیا۔
یوسف رضا گیلانی کو سوئس کیسز میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مختصر سزا سنائی گئی، جس کے اثرات نہ صرف پاکستانی سیاست بلکہ حکومت پر بھی پڑے۔
یوسف گیلانی کی نااہلی کے بعد پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو نیا وزیراعظم بنایا، جب کہ اس کیس کی وجہ سے عدالت اور حکومت کے درمیان کشیدگی بھی دیکھی گئی۔
یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کی مدت رواں برس اپریل میں ختم ہوگئی۔
رینٹل پاور کیس
پاکستان میں بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے 2008 میں حکومت نے کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کے لیے ایک معاہدے کی منظوری دی تھی، جس میں قومی خزانے کو تقریباً 60 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا تھا۔
رینٹل پاور کیس میں مجموعی طور پر 16 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جن میں سرفہرست اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجا پرویز اشرف تھے، جو بعد ازاں اسی حکومت میں وزیراعظم بنے۔
رینٹل پاور کیس سپریم کورٹ میں چلا، عدالت نے وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے، عدالتی ہدایات پر ہی کرائے کے بجلی گھر فراہم کرنے والی کمپنیوں نے حکومت کو اربوں روپے واپس کیے۔
راجا پرویز اشرف کا مؤقف تھا کہ رینٹل پاور منصوبہ اصل میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت نے 2006 میں بنایا، جس کی منظوری 2008 میں دی گئی۔
اس منصوبے کے ذریعے کرائے کے بجلی گھر فراہم کرنے والی کمپنیوں کو 22 ارب سے زائد رقم دی گئی۔
حج اسکینڈل کیس
حج اسکینڈل کیس بھی پیپلز پارٹی کی سابق دور حکومت میں سامنے آیا، اس کیس کے اس وقت کے وزیر مذہبی حامد سعید کاظمی سمیت ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) راؤ شکیل اور سابق جوائنٹ سیکریٹری مذہبی امور آفتاب الاسلام سمیت دیگر ملزمان پر حج کوٹا میں کرپشن سمیت عازمین حج کو مناسب سہولیات نہ دینے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔
حج اسکینڈل کیس 2010 میں سامنے آیا، جس کے بعد اس کیے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں بھی چلا، حج کرپشن کیس کا مقدمہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں درج تھا، عدالت نے 2 سال بعد وفاقی مذہبی امور حامد سعید کاظمی پر 2012 مین فرد جرم عائد کی۔
حج اسکینڈل کیس سامنے آںے کے بعد حامد سعید کاظمی سمیت دیگر عہدیداروں کو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عہدوں سے ہٹادیا تھا، اس کیس میں یوسف گیلانی کے قریبی دوست زین سکھیرا کا نام بھی آیا۔
سپریم کورٹ نے جون 2016 کو الزام ثابت ہونے پر ملزمان کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔
عدالت کی جانب سے سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو اور سابق جوائنٹ سیکریٹری مذہبی امور آفتاب الاسلام کو جرم ثابت ہونے پر 16 سال قید، جبکہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) حج راؤ شکیل کو 40 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
بعد ازاں رواں برس مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی درخواست پر سماعت کے بعد تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا۔
ریکوڈک اسکینڈل
ریکوڈک اسکینڈل بلوچستان کے ضلع چاغی میں موجود پہاڑوں سے سونے کے ذخائر نکالنے سے متعلق صوبائی حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کرپشن کا اسکینڈل ہے۔
اس منصوبے پر سب سے پہلے 1993 میں حکومت بلوچستان اور آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے،جس کے تحت چاغی کے پہاڑوں سے نکلنے والے سونے اور تانبے کے ذخائر میں سے صرف 25 فیصد بلوچستان جب کہ 75 فیصد مائننگ کمپنی کی ملکیت ہوں گے۔
اس معاہدے نے اسکینڈل کی شکل 2011 میں اختیار کی، جب اس منصوبے کا کام آسٹریلوی کمپنی نے ایک اور کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کو منتقل کیا۔
اس کمپنی نے 2006 میں ریکوڈک پر کام کیا اور 400 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی، بعد ازاں کمپنی نے زیادہ معدنیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان حکومت کو مزید سرمایہ کاری کرنے اور رائلٹی دینے کی پیش کش بھی کی، مگر صوبائی حکومت نے درخواست مسترد کردی۔
اس کمپنی نے واشنگٹن ڈی سی میں واقع انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ٹربیونل سے رابطہ کیا اور بلوچستان حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا۔
معاملہ عالمی فورم پر پہنچنے کے بعد صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے مدد طلب کی، پاکستان نے عالمی فورم میں مؤقف اختیار کیا کہ عالمی فورم صوبائی حکومت پر ہرجانہ دائر نہیں کرسکتا، کیوں کہ یہ معاہدہ کرپشن کے تحت ہوا۔
کرپشن کی گونج سنائی دیے جانے کے بعد معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور کئی میڈیا اداروں کی جانب سے حیران کن انکشافات سامنے آتے گئے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے منصوبے کے معاہدوں پر نوٹس لیتے ہوئے ان معاہدوں کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیا۔
مہران گیٹ اسکینڈل
مہران بینک اسکینڈل کیس کا شمار بھی پاکستان کے بڑے اسکینڈلز میں ہوتا ہے، اس اسکینڈل میں نہ صرف سیاستدان بلکہ پاکستان کی فوج کے اعلیٰ عہدیداران بھی ملوث تھے۔
جس کے ذریعے 1990 میں سابق صدر غلام اسحٰق خان نے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں شکست دینے کے لیے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے توسط سے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کرائے۔
سیاستدانوں میں مہران بینک کے صدر یونس حبیب کے ذریعے پیسے تقسیم کیے گئے اور انہوں نے ہی بعد ازاں سپریم کورٹ میں مہران بینک کے پیسے واپس دلوانے کے لیے درخواست دائر کی۔
اس کیس میں سابق آرمی چیف جرنل اسلم بیگ، سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل اسلم درانی اور ایڈمرل اصغر خان سمیت دیگر فوجی جرنیلوں اور عہدیداروں سمیت دیگر اعلیٰ حکام کے نام آئے۔
پیسے لینے والے سیاستدانوں میں حالیہ وزیراعظم نواز شریف سمیت کئی اہم سیاستدانوں کے نام سامنے آئے۔
اس کیس پر سپریم کورٹ نے جون 2012 میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 1990 کے انتخابات میں کرپشن اور دھاندلی ہوئی اور غلام اسحٰق خان نے آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ رقم لینے والوں سے پیسہ منافع سمیت واپس لیا جائے، یونس حبیب کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور آئی ایس آئی میں سیاسی سیل ختم کیا جائے۔
فیصلے کے مطابق صدر، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی الیکشن سیل قائم کرنے کے مجاز نہیں، عدالت نے واضح کیا کہ فوج اور آئی ایس آئی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔
ان اسکینڈلز کے علاوہ پاکستان میں اور بھی کئی مالی و کرپشن کے اسکینڈل سامنے آئے جنہوں نے سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے۔
ان کیسز میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ایفی ڈرین کیس
اس کیس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں اور اہلیہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی سمیت دیگر افراد کا نام آیا۔
این آئی سی ایل کیس
نیشنل لوجسٹک سیل (این ایل سی) کرپشن کیس میں فوج کے عہدیدار بھی ملوث تھے۔
نیٹو کنٹینرز چوری کیس
اس کیس میں افغانستان میں موجود امریکی فوج کے لیے سامان کی ترسیل کرنے والے 19 ہزار کنٹینرز کی چوری سمیت اسلحہ و سامان کی چوری بھی شامل ہے۔
اسٹیل ملز کرپشن کیس
تباہی کے دہانی پر پہنچنے والی اسٹیل ملز کبھی ملک کا سب سے بڑا منافع دینے والا ادارہ تھا، مگر کرپشن، نااہلی اور بدعنوانی نے اسے تباہ کردیا۔
اسٹیل ملز میں 2009 میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے کیسز میں بھی کئی سرکاری عہدیداروں اور سیاستدانوں کا نام آیا۔
اراضی اسکینڈل کیس
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کی ایک لاکھ 93 ہزار ایکڑ زمین کو ہتھیانے کے کیس کا ازخود نوٹس لیا گیا تھا۔
اس کیس میں بااثر قبضہ خوروں نے جعلی عدالتی فیصلے بناکر شہریوں کو یہ زمین فروخت کرنے کی کوشش کی۔