• KHI: Asr 4:10pm Maghrib 5:46pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:10pm Maghrib 5:46pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm

قندیل کی کہانی ان خواتین کی زبانی جو انہیں سب سےبہتر جانتی تھیں

غیرت کے نام پر قتل ہونے والی سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کو اس دنیا سے گزرے پورا ایک سال ہوگیا۔
شائع July 15, 2017

قندیل بلوچ ایک ایسی لڑکی تھی، جس نے اپنی وائرل ہونے والی ویڈیو کلپس، منفرد انداز کے ملبوسات اور میوزک ویڈیوز سے سوشل میڈیا پر اہم جگہ بنائی۔

غیرت کے نام پر قتل ہونے والی قندیل بلوچ کو اس دنیا سے گزرے پورا ایک سال ہوگیا۔

قندیل بلوچ کی زندگی پر ڈاکیومنٹری بنانے والے فلم ساز سعد خان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'میڈیا ان چیزوں کو زیادہ نمایاں کرتا ہے جس سے کمائی ہوسکے، وہ گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین کو ایک الگ انداز میں پیش کرتا ہے، جو کہانیاں ہم اپنی ڈاکیومنٹری میں بیان کرنے جارہے ہیں، یہ ان لوگوں نے ہی بتائی ہیں جن کو قندیل بلوچ کے انتقال کے بعد میڈیا کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کی بتائی ہوئی کہانیاں کبھی شیئر نہیں کی گئیں'۔

مزید پڑھیں: ماڈل قندیل بلوچ 'غیرت کے نام' پر قتل

انہوں نے مزید کہا کہ ’قندیل کے انتقال کے بعد ہر کسی نے ان کی موت کی وجہ اور تنازعات پر غور کیا، لیکن کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کیسی انسان تھی‘۔

یہاں تحریر کی گئی کہانیاں فیس بک پر ’قندیل کی کہانی‘ نامی پیج سے لی گئی ہیں، یہ قندیل کی والدہ اور بہن کے وہ انٹرویوز ہیں جو سعد خان اور ڈاکیومنٹری فلم ساز تزئین باری نے لیے۔

قندیل کی کہانی (پہلی کڑی)

قندیل کی بہن: "میں اسے فوزیہ کے نام سے بلاتی تھی۔ اس نے میڈیا میں آنے کے بعد اپنا نام تبدیل کرکے قندیل بلوچ رکھ لیا۔ جب میں دو سال پہلے اس سے ملی تھی تو میں نے اس سے پوچھا تھا کہ اس نے اپنا نام تبدیل کرکے قندیل کیوں رکھا؟

اس نے بتایا کہ وہ جن لوگوں کے ساتھ کام کرتی ہے وہ نہیں جانتے کہ وہ اکیلی عورت ہے جو برسرِروزگار ہے اور یہ بھی کہ اسے اس کے گھر والوں کی طرف سے بھی کوئی تعاون حاصل نہیں، اس لیے اس نے اپنا نام تبدیل کیا ہے.

وہ کہتی تھی کہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ اکیلی تھی اور محض اس کے والدین اس کے ساتھ تھے۔ یہ بھی کہ اس کے رشتے دار اس کے ساتھ نہیں تھے۔ انہیں یہ معلوم نہیں تھا۔ لیکن اگر وہ ان کو اپنا نام قندیل بلوچ بتائے گی تو وہ سمجھیں گے کہ وہ بلوچ لڑکی ہے اور وہ اسے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچیں گے، وہ کچھ بھی کہتے ہوئے اس کی بلوچ شناخت سے ڈریں گے کہ وہ بلوچ خاندان سے تعلق رکھتی ہے، پہلی دفعہ لوگوں کو تب پتا چلا جب میڈیا نے انہیں بتایا کہ وہ بلوچ نہیں بلکہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا، 'میری بہن کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس میں بنیادی کردار مفتی قوی کا تھا اور پھر میڈیا کا، جس کی وجہ سے وہ موت کی آغوش میں چلی گئی'۔


دوسری کڑی

قندیل کی بہن: 'ہماری والدہ چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹیاں پڑھیں۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان کی کوئی لڑکی کبھی اسکول نہیں گئی تھی۔ لوگ میرے والد سے (تمسخرانہ انداز میں) کہتے تھے کہ 'ارے اب تمہاری لڑکیاں اسکول جائیں گی'، پھر میرے والد کے رشتہ دار بھی انہیں ہمیں اسکول بھیجنے سے روکنے کا کہتے تھے۔ میرے والد کچھ نہیں کہتے تھے مگر میری والدہ نے ہمت دکھائی اور ان سب کے خلاف جاکر اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجا۔ اور ہم گئیں'۔

یہ بھی پڑھیں: قندیل بلوچ تھیں کون؟

قندیل گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، ایک دن جب وہ اپنے کزنز کے ساتھ کھیل رہی تھی تو اس نے انہیں بتایا کہ 'کل میں اپنی نانی کے گھر جا رہی ہوں، وہاں سے میں اپنی گڑیوں کے لیے خوبصورت کپڑے لاؤں گی اور وہ تمہاری گڑیوں کے کپڑوں سے بھی زیادہ پیارے ہوں گے'، ہماری نانی ماں درزن تھیں۔

اگلے دن وہ اسکول کے بعد سیدھا بس اسٹیشن گئی اور وہاں سے ایک ویگن میں بیٹھ گئی. وہ چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی اور قریباً بارہ یا تیرہ سال کی تھی۔

وہ یہ تسلی کیے بغیر ہی ویگن میں بیٹھ گئی کہ وہ ویگن ملتان جا رہی تھی یا ڈی جی خان۔ وہ ویگن میں بیٹھ گئی اور ویگن چلتی رہی۔ شاید ڈی جی خان بھی گزر گیا، ہمیں معلوم نہیں۔

ویگن ملتان رکی اور وہ وہاں اتر گئی. وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کدھر ہے. وہ اتنی چھوٹی تھی کہ وہ رونا شروع ہو گئی. قریب ہی ایک دکاندار اسے دیکھ رہا تھا. وہ اس کے پاس آیا اور شفقت سے اس سے پوچھا، 'بیٹی! تم کہاں جانا چاہتی ہو؟ تم کہاں سے ہو؟' اس نے اس آدمی کو بتایا کہ وہ شاہ صدر الدین سے ہے اور ڈی جی خان میں اپنی نانی کے گھر جانا چاہتی ہے۔ اس آدمی نے اسے بتایا کہ وہ غلطی سے ملتان آ گئی ہے۔ وہ مزید رونے لگ، پھر اس آدمی نے اسے ایدھی ہوم میں چھوڑ دیا۔

ہم سب بہت پریشان تھے۔ ان دنوں ہمارے پاس موبائل فون بھی نہیں تھا. ان دنوں گھر گھر جا کر کسی کو ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ ہم لوگوں سے پوچھتے اور اسے ڈھونڈتے رہے، 4 سے 5 دن گزر گئے۔ ہمارے گھر اتنے دن کھانا نہیں بنا۔ ہماری والدہ رو رو کے بے سدھ ہوگئی. وہ سوچ رہی تھی کہ اسے شاید کسی نے اغوا کر لیا ہے اور اسے یرغمال بنا لیا ہے۔ 'فوزیہ کہاں گم ہو گئی؟' وہ ہر وقت بس یہی کہتی رہتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: لڑکیاں مجھ سے متاثر ہیں، قندیل بلوچ

پھر ایک روز رات میں بہت بارش ہوئی. عبدالستارایدھی، آپ نے ان کا نام سنا ہوگا، ہے نا؟ وہ قندیل کو واپس لے آئے.

ہم سب آگ کے گرد ایک دائرے کی شکل میں پریشان بیٹھے تھے جب وہ آئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس (فوزیہ) سے پوچھا کہ وہ گھر کیسے واپس جائے گی۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے میرے گاؤں لے جائیں اور وہاں سے وہ اپنے گھر کا راستہ بتا دے گی. وہ ایک ویگن میں شاہ صدر الدین اسٹاپ تک آئے اور وہاں اتر گئے۔ اس نے عبدالستار ایدھی کو بتایا، 'اب جبکہ آپ مجھے یہاں تک لے آئے ہیں، میں آپ کو اپنے گھر تک لے جاؤں گی'۔

اس نے گھر کے باہر سے ہمیں آواز دی۔

میرے والد باہر گئے۔ وہ فوزیہ اور عبدالستار ایدھی کے ساتھ واپس لوٹے. بہت ٹھنڈ تھی. میرے والد اور ہم سب بہت خوش تھے. ہمیں حیرت تھی کہ وہ ان تک کیسے پہنچ گئی. پھر انہوں نے ہمیں بتایا۔

ہم نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں تھی؟ اس نے بتایا کہ وہ نانی گھر جا رہی تھی تاکہ اپنی گڑیوں کے لیے کپڑے لا سکے، لیکن اسے نہیں معلوم کہ وہ کیسے گم ہو گئی۔

میرے والد نے اخبار میں اشتہار بھی دیا تھا۔ ایدھی صاحب نے وہ اشتہار دیکھا تھا جس میں ہمارا پتہ اور قندیل کی تصویر بھی تھی۔

اس رات ایدھی صاحب ہمارے پاس ٹھہرے، ہمارے گھاس پھوس سے بنے کمرے میں۔ ہم نے انہیں افطاری کروائی، ان کے لیے چائے اور ابلے انڈے بنائے۔ ٹھنڈ تھی اور ان کے کپڑے گیلے تھے لہذا ہم نے انہیں اپنے والد کے کپڑے دیے۔ انہوں نے وہ پہن لیے. صبح ہمارے والد انہیں ویگن اسٹاپ تک چھوڑ کر آئے.

وہ پہلی دفعہ تھی جب فوزیہ ویگن میں سوار ہوئی تھی اور اس کے بعد اسے کبھی اسکول جانے کی اجازت نہ ملی.

ایدھی صاحب اور قندیل 2016 میں محض ایک ہفتے کے وقفے سے چل بسے۔ قندیل کی نعش کو ایدھی ایمبولینس کے ذریعے آخری آرام گاہ تک لے جایا گیا۔


قندیل کی کہانی (تیسری کڑی)

(قندیل کی والدہ، آبائی گاؤں شاہ صدر الدین میں): 'اس کے بارے میں جتنی بھی بات کریں، کم ہے۔ بہت سی یادیں ہیں۔ اس جگہ اس کا بستر تھا۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی'۔

اس جگہ ٹی وی تھا، اس کی کتابیں ٹی وی والی میز پر رکھی ہوتی تھیں۔ یہاں بجلی کا بورڈ ہوا کرتا تھا. سب کچھ یہیں تھا۔ اس کے تکیے، اس کا بستر، سب کچھ یہیں تھا. ہم اسی کمرے میں صبح اور شام کھانا بنایا کرتے تھے۔ ہم سب اس ایک کمرے میں رہتے تھے۔

وہ اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی تھی۔ وہ اسکول مانیٹر تھی۔ کلاس مانیٹر۔ اساتذہ اس سے خوش تھے۔ وہ کہتے تھے، 'فوزیہ بہت صاف ستھری ہے، وہ اچھے سے استری کیے کپڑے پہن کر آتی ہے۔ اس کے جوتے صاف ہوتے، اس کی جرابیں بھی صاف، جرسی صاف، دستانے صاف، کچھ بھی گندہ نہ ہوتا۔'

جب وہ ٹی وی دیکھتے دیکھتے تھک جاتی تو پڑھنے لگتی اور جب وہ پڑھائی سے تھک جاتی تو نماز پڑھتی اور قران کی تلاوت کرتی۔ جب بھی اس کا دل کرتا، وہ کھیتوں میں آتی اور اپنی مرضی سے گھاس کاٹتی، جب بھی کبھی وہ اسکول سے فارغ ہوتی یا جب اس کا دل کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: قندیل اور مولوی عبدالقوی کی سیلفی کی 'داستان'

وہ کہتی, 'ماں مجھے درانتی دو، میں گھاس کاٹنا چاہتی ہوں'. جب وہ گھاس کاٹتی تو اپنا ہاتھ بھی زخمی کر بیٹھتی. جب وہ گندم کاٹتی، تو بھی اپنا ہاتھ زخمی کر لیتی.

جب میں اسے آٹا گوندھنے کو کہتی تو وہ اپنے ہاتھ گندے کر لیتی. وہ کہتی، 'ماں مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا'، جب میں اسے روٹی پکانے کو کہتی تو وہ نہ بنا پاتی بلکہ اپنا ہاتھ جلا لیتی، 'ماں میرا ہاتھ جل گیا.'

جب میں اسے سالن بنانے کا کہتی تو وہ چمچ ہلاتے ہلاتے اپنا ہاتھ جلا بیٹھتی، وہ کہتی تھی ' ماں یہ زیادتی ہے، میں استانی بننا چاہتی ہوں'۔

'میں اسے کہتی کہ کم از کم سیکھ تو لو، تمہاری شادی ہوگی اور تم نئے گھر جاؤ گی تو وہاں کیا تم اپنے شوہر کے لیے روٹی نہیں پکاؤ گی؟'

'میں اس کے لیے روٹی نہیں بناؤں گی، میں شادی ہی نہیں کروں گی'، وہ جواباً کہا کرتی۔

'ماں میں شادی نہیں کرنا چاہتی اور نہ تم مجھے کبھی بیاہنا'۔