• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاناما جے آئی ٹی رپورٹ: نوازشریف کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان

شائع July 14, 2017
وزیراعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی ارکان کے اجلاس میں شریک ہیں — فوٹو: ثناء اللہ خان
وزیراعظم نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی ارکان کے اجلاس میں شریک ہیں — فوٹو: ثناء اللہ خان

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے اثاثوں اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی حتمی رپورٹ کے بعد اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبے کو وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی ان کے خلاف کوئی کرپشن کا الزام نہیں اس لیے استعفی نہیں دوں گا۔

اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی ارکان کا اجلاس ہوا، جس میں پارٹی کے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز شریک تھے۔

اس اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ عدلیہ آزادی کے لیے لانگ مارچ ایک مشکل مشن تھا، جس میں اللہ نے کامیابی عطا کی، جان ہتھیلی پر رکھ کر عدلیہ بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا لیکن مشرف کی آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

انھوں نے دہرایا کہ جے آئی ٹی کی متنازع رپورٹ ہمارے مخالفین کے بے بنیاد الزاما ت کا مجموعہ ہے، اس رپورٹ میں ہمارے موقف اور ثبوتوں کو جھٹلانے کے لیے کوئی ٹھوس دستاویز پیش نہیں کی گئیں، صرف ہمارے خاندان کے 62 سالہ کاروباری معاملات کو مفروضوں، ذرائع سے حاصل رپورٹوںس، بہتان اور الزام تراشیوں کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا، ’جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی ایک جملہ ایسا نہیں جس سے اشارہ بھی ملے کہ نواز شریف کرپشن کا مرتکب ہوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا مستعفی ہونے سے انکار

ان کا کہنا تھا کہ میرے اقتدار کے پانچوں ادوار اور شہباز کے ادوار میں اگر ہمارے خلاف رتی بھر کرپشن کا بھی کوئی کیس ہے تو بتایا جائے، اسکینڈل تو دور کی بات رپورٹ کے چار ہزار صفحات میں کرپشن، بدعنوانی کا کوئی الزام تک نہیں لگایا جاسکا، انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی میرے راستے میں مشکلات کھڑی کی گئی لیکن میں اپنے نظریہ اور موقف پر جما رہا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات کے بعد ہی سے ان کے خلاف ایک بلا جواز مہم کا آغاز کیا گیا، دُکھ ہوتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی پیدا کرنے والے عناصر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اسٹاک مارکیٹ 54 ہزار کی ریکارڈ حد تک پہنچ کر اس ماحول کی وجہ سے نیچے آگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے درجنوں منصوبے ان کے دور میں لگے اور مسلسل لگ رہے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں کبھی توانائی کے اتنے منصوبے نہیں لگے، ملک کو اندھیروں میں غرق کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ ہم نے فوج کے ساتھ بیٹھ کر دہشت گردی کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی معیشیت شاندار ترقی کررہی ہے، تخریبی سیاسی عناصر کی سازشوں کا سلسلہ نہ ہو تو ہم بہت جلد 6 اور 7 بلکہ اِس سے بھی آگے کی شرحِ نمو حاصل کرسکتے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ جو ممالک ہم سے پیچھے تھے وہ بھی بہت آگے نکل گئے ہیں، 2013 میں کہا جارہا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا، پاکستان FAILED STATE ہے، کیا آج کوئی ایسا کہہ رہا ہے؟ دکھ ہوتا ہے کہ ہماری اتنی محنت کے بعد ملک کو ایک بار پھر پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صرف تین پاور پلانٹس میں 168ارب روپے کی بچت کی، کیا ایسے ہوتے ہیں کرپٹ لوگ؟ مجھے یقین ہے کہ عدالت ہمارے تحفظات کو سنے گی، قوم دیکھ رہی ہے کہ میرا ضمیر صاف ہے، کیا میں ان لوگوں کے کہنے پرمیں استعفیٰ دے دوں جنہیں عوام نے ایک بار نہیں بار بار ٹھکرایا۔

یہ بھی پڑھیں: استعفے کا زور پکڑتا مطالبہ: کابینہ، اتحادیوں کا ہنگامی اجلاس طلب

گذشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران وفاقی کابینہ کو پاناما اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد میں لیتے ہوئے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ الزامات، بہتان اور مفروضوں کا مجموعہ ہے۔

اس اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ کسی کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے جس کے بعد کابینہ نے ان کے مستعفی نہ ہونے کے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے قانونی جنگ لڑنے کا مشورہ دیا۔

خیال رہے کہ استعفے کے لیے بڑھتے ہوئے مسلسل دباؤ کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پاناما پیپر کیس کے سلسلے میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال پر اپنے وزراء اور اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jul 14, 2017 07:05pm
کیا واقعی!

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024