وزیراعظم نے قطری خط کو پڑھے بغیر اس کی تصدیق کی، جے آئی ٹی
اسلام آباد: شریف خاندان کے اثاثوں اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے یہ نشاندہی کی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف لندن جائیداد کے حوالے سے کی جانے والی منی لانڈرنگ سے متعلق دو خطوط سے متعلق پرعزم دکھائی نہیں دیئے، جو سپریم کورٹ میں قطر کے سابق وزیراعظم شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کی جانب سے پیش کیے گئے تھے۔
15 جون کو وزیراعظم نوازشریف کے جے آئی ٹی ارکان کے سامنے پیش ہونے کے حوالے سے رپورٹ کے ایک حصے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے ابتدا میں قطری خطوط کو پڑھنے سے انکار کیا تھا لیکن بعد میں انہوں ںے بتایا کہ شاید انہوں نے یہ خطوط دیکھے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے دونوں خطوط کو پڑھے بغیر ان میں موجود بیان سے اتفاق کیا، جے آئی ٹی نے نشاندہی کی کہ اس عمل نے قطری خطوط کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے عمل کو متاثر کیا ہے۔
جے آئی ٹی نے رپورٹ میں بتایا کہ وزیراعظم نے اپنے بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کی جانب سے لندن کے 4 فلیٹس کو حاصل کرنے کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نہیں بتایا اور وہ ان فلیٹس کی اصل ملکیت سے بھی واقف نہیں تھے۔
اگرچہ وزیراعظم نواز شریف نے تصدیق کی کہ وہ ان کے والد میاں محمد شریف کی جانب سے قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ کی جانے والی سرمایہ کاری کے بارے میں آگاہ ہیں، لیکن انہیں مشکل سے ہی اس کی تفصیلات معلوم تھیں، یہاں تک انہوں نے بمشکل ہی اپنے بیٹے کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ، جس میں متحدہ عرب امارات میں گلف اسٹیل ملز کی فروخت کی تفصیلات موجود تھیں، کو دیکھا۔
رپورٹ کے مطابق لیکن آخر میں، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ عدالت میں ان کے بچوں کی جانب سے جمع کرائی گئی تمام تفصیلات کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ تصدیق کی گئی ہے کہ وزیراعظم دبئی سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی ایف زیڈ ای کے چیئرمین آف بورڈ رہے۔
جے آئی ٹی نے بتایا کہ تاہم اس حوالے سے شریف خاندان کی جانب سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا اور انہوں نے معاملے کے ثبوت براہ راست متعلقہ ریگولیٹر ’جیبل علی فری زون اتھارٹی‘ سے حاصل کیے، جس نے تصدیق کی کہ وزیراعظم نواز شریف نہ صرف کمپنی کے ہیڈ کے طور پر کام کررہے ہیں بلکہ انہیں 7 اگست 2006 سے 20 اپریل 2014 تک 10 ہزار درہم تنخواہ بھی ادا کی گئی۔
شہباز شریف کا متنازع بیان
اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف 17 جولائی کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے لیے اعتماد کے ساتھ آئے لیکن گلف اسٹیل، حدیبیہ ملز، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ اور شریف خاندان کے دیگر اثاثوں کے حوالے سے مختلف رائے دی۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کا پاناما پیپرز کیس سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے ان کا پیش ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔
لیکن جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ شہباز شریف اس کیس میں جواب دہندہ نہیں ہیں اور پاناما گیٹ میں گلف اسٹیل، حدیبیہ ملز اور التوفیق کیسز میں انہیں ایک اہم گواہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے التوفیق اور حدیبیہ ملز کیس کے حوالے سے غیر قانونی رقم پر کسی قسم کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ گلف اسٹیل ان کے والد نے قائم کی تھی اور ان کے والد کے کزن طارق شریف اس کے مالک اور فائدہ حاصل کرنے والے تھے، جو اس کی ہر چیز کے ذمہ دار ہیں۔
یہ بیان واضح طور پر طارق شفیع، وزیراعظم اور حسین نواز کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے بیان اور جے آئی ٹی کو فراہم کیے گئے ریکارڈ سے متضاد ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے اصل فائدہ حاصل کرنے والے میاں شریف اور ان کا خاندان ہے۔
وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بتایا کہ انہوں نے گلف اسٹیل کو چلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اپنے والد کی ہدایت پر طارق شفیع سے معاونت کی، جو 1980 کے فروخت کے معاہدے کے حوالے سے تھی۔
یہ بات طارق شفیع کے بیان سے تضاد رکھتی ہے، جنہوں نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ شہباز شریف اکثر دبئی آتے تھے اور مل کے مالی معاملات کو دیکھتے تھے، خاص طور پر 1978 سے 1980 کے دوران، جب میاں شریف پاکستان لوٹ گئے تھے۔
جے آئی ٹی کے سوال پر کہ کیا کبھی دبئی کی عدالتوں کی جانب سے شہباز شریف کو فرمان جاری ہوا ہے؟ جس پر وہ فکر مند نظر آئے اور کہا کہ پاکستان اور دبئی میں گلف اسٹیل مل یا بی سی سی آئی قرضوں کے حوالے سے انہیں کبھی بھی ادائیگیوں سے متعلق (ڈگری) فرمان جاری نہیں ہوا۔
مریم صفدر
وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر سے متعلق جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ انہوں نے طے شدہ دستاویزات کے حوالے سے دو ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی تھیں، تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کی جانب سے یہ بات قائم کی گئی کہ یہ دستاویزات اصل نہیں ہیں اور اس کا مقصد سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو گمرہ کرنے کی کوشش ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مریم نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کومبر کمپنی کی ٹرسٹی ہیں لیکن اپنی کمپنی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی دستاویزات پیش کرنے سے قاصر رہیں۔
انہوں نے لندن اثاثوں اور ان کی ذمہ داریاں اپنے بھائی حسین کو دینے کے حوالے سے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بھائی کی تجویز پر عمل کرتی ہیں۔
مریم صفدر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کبھی بھی دو آف شور کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ نہیں دیکھے، جن میں نیلسن انٹرپرائزز اور نیسکال شامل ہیں۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ دو آف شور کمپنیوں کی بنیفیشری مالک نہیں ہیں، جیسا کہ اٹارنی جنرل چیمبرز اور فنانشیل انویسٹی گیشن اتھارٹی آف برٹش ورجن آئیس لینڈ کی جانب سے فراہم کردہ تصدیق میں بتایا گیا ہے۔
جے آئی ٹی نے مریم صفدر کو ان کے اور والد کے درمیان تحائف کے تبادلوں پر پوچھے گئے سوالات پر حیلے بہانے کرنے کا الزام لگایا، اسی طرح مریم صفدر نے چوہدری شوگر ملز کے حوالے سے کی جانے والی ان کی منتقلیوں کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اس حوالے سے کسی قسم کا دستاویزاتی ثبوت بھی پیش نہ کرسکیں۔
یہ رپورٹ 13 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی