نواز شریف استعفیٰ دیں یا انتظار کریں؟ تجزیہ کار کیا کہتے ہیں
پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ نے شریف خاندان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ جہاں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنما رپورٹ کو ’پی ٹی آئی رپورٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کرچکے ہیں تو وہیں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی وزیر اعظم کے مطالبے میں شدت آگئی ہے۔
ہم نے چند ماہرین سے پوچھا کہ ان کے خیال میں وزیر اعظم نواز شریف کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔
نواز شریف کے پاس محدود آپشنز
زاہد حسین
جے آئی ٹی رپورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کے لیے قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کی اکثریت اور پنجاب میں حکومت کے باوجود وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے لیے پوزیشن کمزور کردی ہے اور ان کے آپشنز مسلسل محدود ہوتے جارہے ہیں۔
نواز شریف کے پاس اب یہی آپشنز ہیں کہ وہ یا تو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر چارجز کا سامنا کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔
جے آئی ٹی کے نقصان دہ الزام نے نواز شریف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا انکار بحران کو مزید بڑھائے گا اور جیسا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں، اس سے پورا سیاسی نظام بھی پٹڑی سے اتر سکتا ہے۔
وہ اپنی جگہ کسی اور کو وزیر اعظم مقرر کرکے اب بھی اپنی پارٹی کی حکومت کو بچا سکتے ہیں۔ اس طرح موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی اور آئندہ سال عام انتخابات میں حصہ لے گی۔
اس طرح موجودہ حکومت کے لیے آئندہ انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ان کی جماعت اب بھی ملک کی سب سے بڑی اور پنجاب کی طاقتور پارٹی ہے اور نئی قیادت کے تحت، جو ممکنہ طور پر ان کے بھائی شہباز شریف بھی ہوسکتے ہیں، آئندہ انتخابات میں دوبارہ حکومت میں آسکتی ہے۔ لیکن تنازعات کی سیاست ان کی پارٹی کو تباہ کر سکتی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات بھی معدوم ہوسکتے ہیں۔
زاہد حسین مصنف اور صحافی ہیں۔ وہ ٹویٹر ہینڈل @hidhussain سے ٹویٹ بھی کرتے ہیں۔
نواز شریف لڑائی لڑیں گے
ضرار کھوڑو
ہم گزشتہ کچھ عرصے سے نواز شریف کو تناعات کی سیاسی کرتا دیکھ رہے تھے۔ اس لیے میرے خیال میں وہ اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے ’سیاسی شہید‘ ہونا چاہیں گے تاکہ آئندہ انتخابات میں انہیں اس کا فائدہ ہو۔
ان کے آپشنز بلکل واضح ہیں، وہ یا تو جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف لڑ سکتے ہیں یا مستعفی ہوسکتے ہیں لیکن میں انہیں مستعفی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہا، کیونکہ یہ ان کا اسٹائل نہیں ہے۔
یقینی طور پر ان کے لیے سب سے زیادہ آسان آپشن یہ تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے کسی دوسرے رکن کے حق میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیں، جیسا کہ یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا، لیکن میں انہیں ایسا کرتے نہیں دیکھ رہا۔
ضرار کھوڑو صحافی ہیں۔ وہ ٹویٹر پینڈل @ZarrarKhuhro سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
وزیر اعظم آخر تک لڑیں گے
عباس ناصر
میرے خیال میں نواز شریف رسی سے جھول رہے ہیں۔ ان کے آپشنز سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے میں سامنے آئیں گے۔ اگر سپریم کورٹ انہیں نااہل قرار دے دیتی ہے تو انہیں فوری طور پر پارٹی کے اندر سے اپنا جانشین تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی اور پھر وہ اپنا کیس عوام کی عدالت میں لے جائیں۔
اگر سپریم کورٹ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیتی ہے تو نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے اور کیس کو ممکنہ طور پر آئندہ انتخابات تک طول دینے کی کوشش کریں گے۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ضدی ہیں اور لڑیں گے کیونکہ بیرون ملک جانا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔
تاہم ان کی بیٹی مریم نواز ان کی کمزوری ثابت ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ جے آئی ٹی کہہ رہی ہے کہ مریم نواز نے سپریم کورٹ میں جھوٹے اور جعلی دستاویزات جمع کرائیں جس پر انہیں کرمنل چارجز کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسی صورت میں ان لوگوں کو جو مریم نواز کا اخراج چاہ رہے ہیں انہیں اس کا فائدہ ہوگا۔
عباس ناصر ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ وہ ٹویٹر ہینڈل @abbasnasir59 سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
بال اب سپریم کورٹ کے کورٹ میں
اسد رحیم
نتیجہ اب اس بات پر منحصر ہے کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ فیصلے تین طرح کے ہوسکتے ہیں۔
پہلا یہ کہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ٹھوس اور کافی شواہد پیش نہیں کرسکی، لہٰذا درخواست رد کی جاتی ہے۔
دوسرا یہ کہ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کافی شواہد اکٹھے کیے، اس لیے عدالت فُل ٹرائل کے آغاز کے لیے وزیر اعظم اور دیگر مدعا علیہان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیتی ہے۔
تیسرا یہ کہ عدالت جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کو درست مانتی ہے اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد وزیر اعظم کو صادق اور امین نہ ہونے پر آرٹیکل 62 کے تحت نااہل قرار دیتی ہے۔
اسد رحیم بیرسٹر وار تجزیہ کار ہیں۔ وہ ٹویٹر ہینڈل @AsadRahim سے ٹویٹ کرتے ہیں۔
نواز شریف استعفیٰ دیں اور جلد انتخابات کا اعلان کریں
اویس توحید
شریف خاندان اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ سیاسی اور عدالتی محاصرے کے بعد نواز شریف کے پاس دو تہائی اکثریت کے باوجود اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیں۔
حد سے زیادہ پراعتماد نواز شریف نے خود کو بچانے کے کئی مواقع ضائع کیے۔ انہوں نے 2014 میں عمران خان کے دھرنے سے ان کو بچانے والی پارلیمنٹ کو مضبوط نہیں کیا اور سیاسی فورسز کو نظر انداز کیا۔
سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز کی جانب سے انہیں نااہل قرار دینے کے ووٹ کے بعد وہ جلد انتخابات کا اعلان کر سکتے تھے اور بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر سکتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے جے آئی ٹی کو سب سے پہلے خوش آمدید کہا لیکن اس کی سفارشات کو مسترد کردیا۔
اویس توحید صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ ٹویٹر ہینڈل @OwaisTohid سے ٹویٹ کرتے ہیں اور ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔