چیئرمین ایس ای سی پی ریکارڈ ٹیمپرنگ میں ملوث، ایف آئی اے رپورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ کی ہدایت پر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی جانے والی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کو ریکارڈ ٹیمپرنگ میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی تجویز دے دی۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس کے مطابق ایس ای سی پی کے چیئر مین ظفر حجازی ریکارڈ کے ردو بدل میں ملوث پائے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کچھ سرکاری ادارے متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کر رہے جبکہ کچھ ریکارڈ میں ردوبدل بھی کیا جارہا ہے۔
ایس ای سی پی کمیشن نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات پر ایف آئی اے ٹیم کے ادارے میں چھان بین کرنے کے بعد پہلا اجلاس منعقد کیا کیونکہ ایس ای سی پی نے ایف آئی کی تحقیقات ختم ہونے تک اجلاس کو ملتوی کیا ہوا تھا۔
یاد رہے کہ ایس ای سی پی کے چیئر مین کے خلاف ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کے الزام کے بعد ادارے کے اعلیٰ عہدیداراں کے درمیان محاذ آرائی جاری تھی۔
مزید پڑھیں: ایس ای سی پی چیئرمین کے خلاف الزامات کی تحقیقات کا آغاز
ایس ای سی پی کے اعلیٰ عہدیداران کے درمیان ہونے والی محاذ آرائی کا راز اس وقت افشا ہوا جب ایس ای سی پی کے چیئر مین اور دیگر متعلہ عہدیداران نے ایف آئی اے ٹیم کو الگ الگ بیانات قلمبد کرائے۔
اپنے دفاع میں ایس ای سی پی چیئرمین نے ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن ونگ کے ڈائریکٹر مقصود الحسن کے سامنے کہا کہ انہیں یہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ حدیبیہ شوگر ملز کے معاملے میں جھوٹے گواہان کی گواہی کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔
اپنے جواب میں ظفر حجازی کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی چیئر مین کی ہر فائل کی جانچ پڑتال نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی یہ عملی طور پر ممکن ہے کیونکہ ایس ای سی پی کا چیئر مین اپنے ڈپارٹمنٹ کے لوگوں کے ساتھ متعلقہ کمشنروں کے ذریعے بات چیت کرتا ہے۔
ظفر حجازی نے دعویٰ کیا کہ چوہدری شوگر ملز کے خلاف منی لانڈرنگ کے کوئی الزامات نہیں جبکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے مخالفین یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چیئر مین ایس ای سی پی کا جواب ایس ای سی پی کے محکمہ انٹرنل آڈٹ اور کمپلائنز کی سربراہ ماہین فاطمہ کے جواب سے بالکل مختلف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی ایس ای سی پی کے خلاف الزامات کی تحقیقات مکمل
ماہین فاطمہ نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز کا مبینہ کیس 2016 میں ایس ای سی پی چیئر مین کی ہدایت پر تبدیل گیا جس کے اختتامی نوٹ پر 2013 کی تاریخ درج کی گئی۔
جس کے بعد سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ کو ایف آئی اے کی مدد سے ایس ای سی پی کے چیئر مین کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
ماہین فاطمہ نے ایف آئی اے ٹیم کو بتایا تھا کہ پاناما کیس کی تحقیقات کے دوران چوہدری شوگر ملز کا کیس منظر عام پر آنے کے بعد ایس ای سی پی چیئرمین نے علی عظیم کو چوہدری شوگر ملز کی تحقیقات روکنے کا حکم دیا۔
ماہین فاطمہ کے بیان کے مطابق چیئرمین ایس ای سی پی نے انہیں فورا ایس ای سی پی کی فائل بند کر کے اس میں 2013 کی تاریخ کا اختتامی نوٹ رکھنے کی ہدایت کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام کام ظفر حجازی کے بے انتہا دباؤ میں کیا گیا اور وہ اس وقت چیئرمین ایس ای سی پی کو 'نہ' کہنے کی حالت میں نہیں تھیں۔
تبصرے (2) بند ہیں