• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

'پاکستان میں ایک لاکھ 26 ہزار افراد ایڈز سے متاثر'

شائع July 7, 2017 اپ ڈیٹ September 27, 2017

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے فوکل پرسن ڈاکٹر سکندر اقبال کا کہنا ہے کہ نئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ26ہزار افراد ایڈز کے موذی مرض سے متاثر ہیں۔

ڈاکٹر سکندر اقبال نے حیدرآباد پریس کلب میں صحافیوں کو ایڈز سے متعلق آگاہی کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مارچ 2017 تک سندھ میں 11 ہزار 746 مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی ہے جن میں 239 ایڈز کے مریض ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایڈز کے 71فیصد مریضوں کا تعلق کراچی سے ہے جبکہ اس کے علاوہ سکھر، سانگھڑ، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں بھی ایڈز کے مریض ہیں۔

انھوں نے بتایاکہ پاکستان میں اب تک ایک فیصد سے کم لوگ ایڈز کی موزی بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ بیماری اب تک عام لوگوں میں نہیں پھیلی ہے بلکہ نشے کے عادی افراد، خواجہ سرا اور جنسی بیماریوں کا شکار لوگوں تک محدود ہے۔

فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ ایڈز کنٹرول پروگرام میں 200کے قریب ایسے بچے بھی رجسٹرڈ ہیں جو اس بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان: ایچ آئی وی کیسز میں گیارہ برس میں آٹھ گنا اضافہ

انھوں نےکہا کہ ایچ آئی وی کی علامات نزلہ، بخار کی شکل میں سامنے آتی ہیں اور پھر یہ بیماری 10 سے 12سال تک خاموشی سے انسانی جانوں کو نقصان پہنچاتی ہے جس کے بعد یہ بیماری کھل کر سامنے آتی ہے اور پھر اس مرض کے شکار افراد کی قوت مدافعت بہت کم ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر سکندر کا کہنا تھا کہ ہمیں اس مرض سے نفرت کرنی چاہیے لیکن مریض سے نفرت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بیماری ہاتھ ملانے ، ساتھ گھومنے سے نہیں ہوتی بلکہ ایڈز کے مرض میں مبتلا شخص کے لیے استعمال کی جانے والی سرنج دوسرے مریض میں استعمال سے وائرس منتقل ہوتا ہے ، اسی طرح جنسی اختلاط سے بھی یہ بیماری پھیلتی ہے اور 74فیصد ایچ آئی وی میں مبتلا افراد اسی کا شکار ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں:ایچ آئی وی ایڈز کا علاج دریافت؟

ان کا کہنا تھا کہ افریقہ میں عام لوگوں میں اس بیماری کا تناسب 60فیصد تک پہنچ گیا ہےاس لیے حکومت پاکستان کو بھی اس بیماری کے حوالے سے خصوصی طورپر توجہ دینی چاہیے ورنہ پورے ملک کا بجٹ بھی اس بیماری کے خاتمے کے لیے کم پڑے گا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024