کراچی کے ایک سرجن کے ہاتھوں جنسی ہراسگی کا تلخ تجربہ
مجھے پیٹھ کے نچلے حصے میں درد تھا لہٰذا طبی معائنے کی غرض سے میں کراچی کے ایک بڑے ہسپتال پہنچی۔ میری والدہ ڈاکٹر کے کلینک تک تو میرے ہمراہ تھیں مگر تشخیصی کمرے میں ساتھ نہ تھیں۔
کمرہ بہت ہی چھوٹا اور تنگ تھا۔ اس کمرے میں صرف دو افراد موجود تھے، ایک میں اور ایک خاتون نرس۔
طبی مسئلہ ہی کچھ ایسی نوعیت کا تھا کہ مجھے نرس اور ڈاکٹر کو اپنے جسم کا ایک برہنہ حصہ دکھانا پڑا۔ نرس نے مجھے ایک گاؤن دیا اور معائنے کی جگہ کو تیار کیا۔ پھر ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوئے۔
انہوں نے میرے پچھلے حصے کو دیکھا اور تکلیف کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے آپریشن کے بعد ہونے والی تکلیف کا سامنا ہے۔ انہوں نے معائنہ شروع کیا، درد کی اصل جگہ کا پتہ لگانے کے لیے انہوں نے تکلیف والے حصے پر دباؤ ڈالا۔
میں نے انہیں بتایا کہ تکلیف کہاں ہو رہی ہے اور کہاں نہیں ہو رہی، اور جب ضروری طبی معائنے کا مرحلہ ختم ہو گیا، اس کے بعد اچانک نہ جانے کہاں سے میرے کولہے پر ایک تھپکی رسید ہوئی۔
میں نے اس عمل کو غلط نہ سمجھنے کی کوشش کی لیکن وہ عمل واضح طور پر غلط تھا۔ میرے جسم کے نچلے حصے پر ایک تھپکی نے مجھے سکتے میں ڈال دیا تھا۔
سونے پر سہاگہ، اس عمل کے بعد اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ، ’اب نہیں ہوگا۔'
.........
.........
.........
.........
مندرجہ بالا نکتے میری اس وقت کی ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں حواس باختہ اور خاموش تھی، میرے تمام حواس، میرے کولہے پر تھپکی رسید کرنے والے ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں سے کہیں غائب ہو گئے تھے۔
اب کمرے میں میرے علاوہ صرف نرس تھیں، میں نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اپنی نظریں جھکا دیں اور مجھ سے نظریں چرانے لگیں۔ میں اس کی خاموشی کو پڑھ سکتی تھی جو یہ کہہ رہی تھی کہ، ’مجھے معاف کر دینا، لیکن میں بے بس ہوں۔’
میں اس بہت ہی تنگ کمرے سے باہر نکلی اور ڈاکٹر کے دفتر میں آئی جہاں میری والدہ بیٹھی تھیں اور میرے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی منتظر بھی، وہ جاننے کے لیے بے چین تھیں کہ ڈاکٹر کیا کہنے جا رہے ہیں، اس بات سے مکمل بے خبر کہ بند کمرے میں کیا کچھ ہوا ہے۔
ڈاکٹر نے بغیر آنکھیں جھپکے مجھے کہا کہ، ’کوئی بھی پریشانی کی بات نہیں، آپ بالکل ٹھیک ہیں۔’ میں نے آنکھیں ملانے سے گریز کیا، اور جو کچھ ہوا تھا اسے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی۔
میری والدہ نے فکر کے عالم میں پوچھا کہ، ’آپ کو یقین ہے؟ اور اس کے درد کا کیا؟’ انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، ’دیکھیے، میں اس تکلیف کے لیے کچھ تجویز نہیں کروں گا، کیوں کہ پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں آپ کو یہ اعتبار دلانا چاہتا ہوں کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ دراصل یہ آپ کے دماغ کا وہم ہے، آپ اس پر دھیان نہ دیں، یہ تکلیف خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔’
ہسپتال سے نکل کر گھر پہنچنے تک میرے ذہن میں اس تشخیصی کمرے میں گزرے تین منٹوں کا بار بار خیال آ رہا تھا، دماغ میں بار بار بس یہی ایک ہی فلم چل رہی تھی جس کے پس منظر میں اس تھپکی کی گونج تھی۔ میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا، میری والدہ نے مجھ سے پوچھا کہ میں اتنی گم صم کیوں ہوں۔
جس کے بعد میں نے اس تلخ تجربے کو اپنے ذہن کے کسی کونے کی گہرائیوں میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے کوئی اپنے کندھے سے کوئی کیڑا جھٹک دیتا ہے بس کچھ ویسے ہی میں نے بھی میرے وجود سے جڑی اس یاد کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس دن میں کافی دیر تک نہاتی رہی کیوں کہ مجھے انتہائی کراہت محسوس ہو رہی تھی
کراہت۔
یہ لفظ میری ان احساسات کی ترجمانی کے لیے انتہائی چھوٹا ہے جو مجھے اس ناگوار تجربے کے بعد سے محسوس ہو رہے تھے۔
میں نے بہت کوشش کی لیکن مجھے کوئی ایک بھی ایسا جواز حاصل نہ ہوا جس کے تحت اس شخص کی میرے جسم کے ساتھ کی گئی حرکت کو غلط قرار نہ دیا جاسکے۔ جس انداز میں اس شخص نے یہ حرکت کی تھی اس پر میری دماغی استعداد اور سوچ صرف ایک ہی 'جواز' کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
شاید اس نے ایسا بے تکلفی میں کیا ہو؟ ہو سکتا ہے اس نے مجھے ایک چھوٹی بچی سمجھ کر مذاق کیا ہو؟ ہو سکتا ہے کہ یہ اس کے اظہار کا ہی ایک طریقہ ہو؟
شاید یہ حقیقت بھی ہو، مگر چاہے جو بھی صورتحال ہو، ڈاکٹر کا اپنے مریضوں کو اس انداز سے چھونا کسی صورت درست نہیں۔ طبی معائنے کے مقصد کے لیے اس کی کوئی ضرورت تھی نہ ہی کسی دوسری صورتحال میں اس کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہے۔
کولہے پر تھپکی مارنا، کاندھے یا بازو تھپتھپانے جیسا نہیں ہے۔ نہ تو یہ اتفاقی طور پر قابل قبول ہے اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کا اپنے کسی مریض کے ساتھ ایسی کسی حرکت کا دور دور تک کوئی جواز پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب ڈاکٹر مرد اور مریض ایک خاتون ہو۔
کولہے پر تھپکی مارنا بلاشبہ جنسی بدسلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسا میں آپ میں سے ہر اس شخص کو بتانا چاہتی ہوں جو شاید یہ سوچ رہا ہو کہ اس میں اس بات کو ’اتنا طول' کیوں دے رہی ہوں۔
چلیے اس بات کو یوں سمجھیے؛ کہ ایک انتہائی محترم سرجن ہیں جو کراچی کے ایک بڑے ہسپتال میں بیٹھے ہیں اور طبی معائنے کے دوران ایک خاتون مریضہ کے کولہے پر تھپکی مارتے ہیں۔ اب بتائیے، آپ کو یہ بات پریشان کرتی ہے یا نہیں؟
میں اس بارے میں کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتی تھی لیکن میرے آس پاس موجود کچھ معقول ذہنوں نے مجھے اس بارے میں لکھنے پر قائل کیا۔
کیا اس سب کے بعد مجھے واپس ہسپتال جانا چاہیے تھا؟ کیا میری شکایت بہرے کانوں تک پہنچنے سے کچھ ہوتا؟
کیا مجھے اس شخص کے پاس دوبارہ جانا چاہیے تھا؟ کیا ہوتا اگر وہ انکار کر دیتا کہ اس نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں، تو؟ ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے یہ حرکت اس قدر معمولی اور عام نوعیت کی ہوتی کہ اسے اس بارے میں کچھ یاد بھی نہ ہوتا، تو؟ کچھ خبر نہیں۔
پھر میں نے خود سے سوال کیا، اور یہ مضمون لکھتے وقت بھی یہی پوچھ رہی ہوں، کہ میں چاہتی کیا ہوں؟ کیا میں چاہتی ہوں کہ وہ شخص مجھ سے معافی مانگے؟ نہیں۔ کیا مجھے کسی قسم کا معاوضہ چاہیے؟ نہیں۔
ایسے افراد کی ایسی حرکتوں کو درست قرار دینے کے بہانے تلاش کرنا چھوڑ دیں۔ خود کو ہراسگی کا قصور وار ٹھہرانا چھوڑ دیں۔ نامناسب برتاؤ برتے جانے پر خاموشی اختیار کرنا بالکل بھی درست نہیں۔
آج میں نے یہ بات میڈیا تک اس لیے پہنچائی ہے کہ اگر کوئی ایک بھی شخص اس بات کو جان کر اپنی کہانی کو تسلیم کرنے میں تھوڑا سا بھی اطمنان محسوس کرتے ہیں تو میں سمجھوں گی کہ میرے خیالات کو تحریری اظہار دینے کا مقصد پورا ہو گیا۔
میں ایسی لڑکیوں میں شمار نہیں ہونا چاہتی تھی جو ‘چھوٹے چھوٹے مسائل’ کے بارے میں شکایات کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم بھلے ہی اسے ایک ’چھوٹا مسئلہ’ سمجھیں لیکن یہ ایک مسئلہ ضرور ہے۔ ایک سنجیدہ مسئلہ۔
ہسپتال اور کلینک ایسی جگہ ہے جہاں اپنے کپڑے اتارنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی مرضی سے برہنہ ہو رہے ہیں، اور نہ ہی یوں آپ کسی کو بھی اپنی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا لائسنس فراہم کر دیتے ہیں۔ ایسی کسی صورتحال میں آپ کا خیال رکھنا ڈاکٹر اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔
میں کسی قسم کی قیاس آرائیوں میں نہیں پڑنا چاہتی کہ ممکن ہے کہ یہ ڈاکٹر دیگر مریضوں کے ساتھ بھی ایسا کرتا ہو (جان کر یا انجانے میں) یا اس کا اپنی خاتون ماتحتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرتا ہو، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس نے پہلے کبھی ایسی حرکت نہ کی ہو۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اس نے میرے ساتھ یہ حرکت کی۔
جنسی ہراسگی کسی ایک ثقافت، ایک معاشرے یا ایک نسل تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ میری پیٹھ کے نچلے حصے میں درد ہو سکتا ہے کہ وہم ہو، لیکن جنسی ہراسگی ’میرے یا آپ کے دماغ کا وہم’ قطعاً نہیں ہے۔
شناخت کے تحفظ کے لیے لکھاری کا نام پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ اگر آپ بھی اپنے ڈاکٹر یا طبی عملے کے ہاتھوں نامناسب رویے کا شکار ہوئے ہیں تو ہمیں اپنی کہانی سے [email protected] پر آگاہ کیجیے۔
تبصرے (14) بند ہیں