یلغار ریویو: بہترین ایکشن اور کمزور کہانی
پاکستانی فلمی صنعت کے عہد جدید میں ایکشن فلموں میں قومی بیانیے اورحب الوطنی کے موضوعات کوبھی شامل کیا جانے لگا ہے، اس کی تازہ ترین مثال فلم’’یلغار‘‘ہے، جس کی نمائش اس عید الفطر پر ہوئی۔
بلال لاشاری کی ہدایت میں بننے والی فلم ’وار‘، جمال شاہ کی ہدایت کاری پر مبنی فلم ’بدل‘ اور عاشر عظیم کی فلم ’مالک‘ بھی اسی تناظر کی حامل فلمیں تھیں۔
گزشتہ برس ریلیز ہونے والی فلم ’بدل‘ کا موضوع بھی وادئ سوات تھا، جبکہ ’یلغار‘ فلم کا موضوع بھی سوات کی وادی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ’بدل‘ میں مقامی افراد کی قیام امن کی کوششوں کوعکس بند کیا گیا، جبکہ ’یلغار‘ میں پاکستان آرمی کی جدوجہد اور قربانیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس فلم کو آئی ایس پی آر کے مکمل تعاون کے ساتھ فلمایا گیا۔
کہانی:
فلم کا مرکزی خیال بہت اہم ہے کہ پاکستانی افواج نے وادی سوات میں فوجی آپریشن کے ذریعے طالبان اوردہشت گردی کی کمرتوڑی، وہاں کا امن بحال کیا۔ فلم کی بنیادی کہانی اسی دور کے ایک طویل آپریشن کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہے، البتہ اسکرین پلے میں مزید کئی واقعات اور کردار بھی شامل کیے گئے ہیں۔ فلم کے کہانی نویس حسن وقاص رانا ہیں، جو اس فلم کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور ایکٹر بھی ہیں۔ فلم کی کہانی میں تین بڑے آپریشن دکھائے گئے ہیں، جن میں سے تیسرے اور آخری آپریشن کو بنیاد بنا کر فلم لکھی گئی ہے۔ تاہم کہانی نویس اتنے بڑے اور اہم موضوع کو اسکرین پلے کی صورت میں سمیٹنے میں ناکام رہے ہیں۔
شان شاہد، بلال اشرف، عدنان صدیقی، عاشر عظیم کے ساتھ ان کے خاندانی مراسم کو دکھانے کی کوشش کی گئی، مگر پیار محبت اور خاندان کے پہلو سے یہ کہانیاں ادھوری ثابت ہوئی ہیں، کیوں کہ وہ ان کرداروں کے تعلقات کو بہتر طور سے دکھا نہیں سکے، زیادہ کردار ہونے کی وجہ سے کہانی کو بہت تیزی سے جوڑا توڑا گیا، جس کی وجہ سے فلم بینوں کو الجھن پیش آئے گی۔ منفی کردار میں ہمایوں سعید کا کردار بھی ناقص طریقے سے لکھا گیا، البتہ فوجی کرداروں کے درمیان ہلکی پھلکی مزاحیہ گفتگو قابل تحسین ہے۔ مجموعی حیثیت میں ایک اتنے اہم موضوع سے اسکرین پلے میں اس طرح انصاف نہیں کیا گیا، جس کا وہ متقاضی تھا۔
فلم سازی و ہدایت کاری:
فلم سازی اور ہدایت کاری جیسے دونوں شعبوں میں حسن وقاص رانا نے انتھک محنت کی، جو فلم میں نظر آتی ہے، کیوں کہ فلم میں موضوع کے اعتبارسے جس طرح کی تکنیکی سہولتوں کی ضرورت تھی وہ سب نظر آئیں اور بے شک یہ سب کچھ کامیابی سے ہونا ممکن نہ تھا اگر اس میں آئی ایس پی آر کی معاونت شامل نہ ہوتی۔ حسن وقاص رانا نے اس میں بہت سارے خطرناک مناظر کو حقیقی اداکاروں سے کروایا، جس طرح بلال اشرف، فلم کے ایک منظر میں حقیقی طور پر ہیلی کاپٹر سے زمین پر کودے، اس کے ساتھ کودنے والوں میں موصوف حسن وقاص رانا خود بھی شامل تھے۔
یہ ان کی بطور فلم ساز دوسری فلم ہے، اس سے پہلے یہ ’وار‘ فلم بھی پروڈیوس کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ’میں نے تمام اسلحہ اور دیگر فوجی آلات سمیت گن شپ ہیلی کاپٹرز وغیرہ حقیقی استعمال کیے ہیں۔ ان تجربات میں چھوٹے موٹے نقصانات بھی ہوئے، میرے خیال میں ٹیکنالوجی اب سب کچھ تخلیق کردیتی ہے، ہولی وڈ میں یہ سب بہت عام ہے، بجائے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے اور اداکاروں کو پرخطر راستے پر دھکیلنا، شاید کوئی عقل مندی نہیں ہے‘۔
اداکاری:
اس فلم میں شان اوربلال اشرف مرکزی کرداروں میں دکھائی دیے، ان کے ساتھ ساتھ عدنان صدیقی، ایوب کھوسہ اور دیگر بہت سارے اداکاروں نے فلم میں کام کیا۔ کئی ایک ایسے اداکار بھی ہیں، جن کی یہ پہلی فلم ہے۔ اس فلم کے لیے چونکہ جنگی مناظر کے لیے ان تمام اداکاروں کو تربیت دی گئی، جنہوں نے ان مناظر کو عکس بند کروانے میں حصہ لینا تھا، اسی لیے فلم کے وہ تمام حصے، جہاں ایکشن ہے، وہ بہت متاثر کن ہیں۔ سب اداکاروں نے اپنے لحاظ سے اچھا کام کیا ہے، اس کے باوجود شان، بلال اشرف، گوہر رشید اور عدنان صدیقی نے متاثر کن اداکاری کی ہے۔ خواتین اداکارائیں بھی متاثر نہ کرسکیں، جس کی وجہ ان کے آدھے ادھورے کردار ہیں، جن کو کہانی نویس مکمل طور پر بیان نہیں کرسکے۔ ہمایوں سعید سمیت دیگر منفی کرداروں میں بھی فنکار غیر متاثر کن رہے، جبکہ خود حسن وقاص رانا بھی اپنی اداکاری سے متاثر نہ کرپائے۔
موسیقی:
فلم کی موسیقی بہت شاندار ہے۔ فلم میں تین گیت ہیں، گلوکاروں میں شفقت امانت علی اور اظفر حسین ہیں۔ فلم کی پس پردہ موسیقی بھی قابل تحسین ہے۔ خاص طورپر شفقت امانت علی کی آواز میں گائے ہوئے دو گیت ’یاد نہ آویں‘ اور ’اے وطن پیارے وطن‘ میں کچھ ایسا ہے جو فلم بینوں کو جذباتی کرسکتا ہے۔
تکنیکی غلطیاں:
فلم کو سوات کے ایک حقیقی آپریشن پر بننے والی فلم بتایا گیا، مگر فلم میں اس سے پہلے ہی کئی آپریشن ہوتے دکھائے گئے، جن کا مرکزی کہانی سے تعلق نہیں تھا۔ اسی طرح سوات کی ایک پختون شادی دکھائی گئی، جس میں شادی کا گیت ایک پنجابی زبان میں ہے، فلم کے ولن کا تکیہ کلام بھی اسی پنجابی گیت کا مکھڑا ہے۔ اصل میں سوات میں ہونے والا آپریشن، جس کو بنیاد بنا کر یہ فلم بنائی گئی، وہ کئی دنوں پر مشتمل تھا، جبکہ فلم میں آپریشن مختصر دکھایا گیا۔ فلم میں جابجا انگریزی کا استعمال ہے، اردو سینما کے فلم بینوں کے لیے، جو اکثریت ہے، ان کے لیے سب ٹائٹل میں اردو ضروری تھی، حالانکہ بقول فلم ساز، دنیا کے 22 ممالک میں یہ فلم ریلیز کی جارہی ہے اورسب جگہ مختلف ممالک کی زبانوں میں سب ٹائٹلز بھی شامل ہوں گے، تاہم جن کے لیے فلم بنائی گئی، ان کے لیے سب ٹائٹل کا خیال ہی نہیں آیا۔
نتیجہ:
پاکستان میں اس فلم کے ذریعے سنجیدہ ایکشن سینما کا دور شروع ہوگیا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ اپنے ملک کے مسائل کو فلم کے پردے پر پیش کرتے ہیں، تاکہ دنیا تک اپنا موقف واضح طور سے پہنچایا جاسکے۔ پاکستان آرمی اپنی اندرونی اور بیرونی منفی طاقتوں سے نبردآزما ہے، جہاں اسے مالی و جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اس طرح کی فلم کے ذریعے ملک کے لیے دی گئی ان قربانیوں کو قریب سے دکھایا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ فلم ہر حب الوطن پاکستانی کے دل سے قریب ہو گی، مگر اس کی تکنیکی غلطیاں، کمزور اسکرین پلے شائقین نظر انداز نہیں کرپائیں گے۔ ایک اہم ترین اورحقیقی موضوع کی وجہ سے یہ فلم پاکستان میں باکس آفس پر کامیابی حاصل کرے گی۔
لکھاری سے ان کے ایک میل [email protected] پر رابطہ کریں۔