فیصل آباد: زرعی یونیورسٹی کے گارڈ کا صحافیوں پر تشدد
فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے گارڈ نے تعلیمی ادارے سے متعلق ایک معاملے کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں متعدد صحافی زخمی ہوگئے۔
نجی ٹی وی چینل سماء کی رپورٹ کے مطابق واقعے میں ان کا رپورٹر، کیمرہ مین اور ڈرائیور زخمی ہوئے ہیں، ’جنھیں فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے گارڈز نے تشدد کا نشانہ بنایا‘۔
نجی ٹی وی چینل کے مطابق ’جیسے ہی سماء کی ٹیم یونیورسٹی سے نکالے گئے طالب علموں کے معاملے پر رپورٹنگ کے لیے یہاں پہنچی، تو یونیورسٹی کے عملے اور گارڈز نے طاقت کے ذریعے صحافیوں کو کوریج سے روکنے کی کوشش کی‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’یونیورسٹی کے گارڈز اور عملے نے ٹیم کو تشدد کا نشانہ بنایا اور سماء کی ڈی ایس این جی وین کو نقصان پہنچایا‘۔
مزید پڑھیں: فیصل آباد:فیس بک تبصرے پریونیورسٹی کے چار طلبا خارج
اسی کے علاوہ نجی چینل ایکسپریس نیوز کا کہنا تھا کہ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے گارڈز کے تشدد سے زخمی ہونے والے صحافیوں میں ان کا ایک کیمرہ مین محمد عثمان بھی شامل ہے۔
ابتدائی رپورٹس کے مطابق ٹی وی چینلز کی ٹیم کی جانب سے یونیورسٹی کے باہر نیوز پیکج کے لیے کیمروں کو ترتیب دینے کے دوران گارڈز نے انہیں ایسا کرنے سے روکا اور بعد ازاں تشدد کا شانہ بنایا۔
اس سے قبل صحافیوں کو یونیورسٹی میں داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
صحافیوں پر تشدد کرنے والے گارڈز نے تکرار کے دوران انہیں یونیورسٹی کی انتظامیہ سے کوریج کی اجازت لینے کو کہا تھا، تاہم ٹیم نے یونیورسٹی کے حدود سے باہر کوریج کے لیے انتظامیہ سے اجازت لینے کو مسترد کیا جس کے بعد متعدد گارڈز نے ٹیم پر حملہ کردیا۔
سماء کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وردی میں ملبوس دو گارڈز زمین پر پڑے ایک شخص کو لاتیں مار رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فیس بک پر تنقید، طالب علم یونیورسٹی سے برخاست
واقعے کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گارڈز نے تشدد کا نشانہ بننے والے صحافیوں کی مدد کے لیے آنے والے دیگر صحافیوں پر پتھراؤ بھی کیا۔
فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے واقعے میں زخمی ہونے والے دیگر صحافیوں میں آج ٹی وی کے راحیل اصغر، میٹرو ٹی وی کے کیمرہ مین جاوید، دنیا ٹی وی کے رپورٹر شہروز عباد اور نیو ٹی وی کے رپورٹر وقاص شیراز بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ کچھ روز قبل مذکورہ یونیورسٹی نے سوشل میڈیا پر ادارے کی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنانے پر یونیورسٹی سے نکال دیا تھا۔