• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
— فوٹو محمد علی/وائٹ اسٹار

شناخت کے متلاشی کراچی کے بنگالی، برمی اور ایرانی

ملک کے سب سے بڑے شہر میں مقیم یہ تین برادریاں عشروں سے اپنی شناخت کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
شائع June 16, 2017 اپ ڈیٹ June 17, 2017

اتوار کی صبح بھی ابراہیم حیدری میں کافی چہل پہل ہے، بازاروں میں موٹرسائیکلوں، گاڑیوں اور رکشوں کا رش ہے جبکہ خریدار گھریلو اشیاء اور ماہی گیری کا سامان خریدنے میں مصروف ہیں۔

بکھرے بالوں اور باریک مونچھوں والے درمیانی عمر کے خیرالدین جنوب مشرقی کراچی کی اس ماہی گیر آبادی کی گہماگہمی میں ایک چائے کے ہوٹل کے باہر بیٹھے ہیں، باتیں کرتے وقت وہ تھوڑے گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں اور بولتے وقت کن انکھیوں سے ان 2 پولیس اہلکاروں کو دیکھتے رہتے ہیں جو پاس ہی اپنی گاڑی میں گھوم رہے ہیں۔

پولیس اہلکار ہوٹل کے پاس رکتے ہیں، ان کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں اور پاس کھڑے لوگوں سے ان کے بارے میں پوچھتے ہیں، پھر وہ کوئی ایکشن لیے بغیر وہاں سے چلے جاتے ہیں۔

خیرالدین کی اس گھبراہٹ کے پیچھے ایک وجہ ہے۔

چند دن قبل خیرالدین ایک مقامی جیٹی سے مچھلیاں خرید کر ابراہیم حیدری کے علاقے سو کوارٹرز میں واقع اپنے گھر لا رہے تھے کہ ان کا پولیس سے سامنا ہوگیا۔

واضح رہے کہ مذکورہ علاقے میں رہائش پذیر ماہی گیروں کی اکثریت بنگالی ہے۔

چند پولیس اہلکاروں نے انہیں روکا اور ان سے ان کا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ دکھانے کو کہا، خیرالدین کے پاس زائد المیعاد کارڈ تھا۔ ان کے مطابق پولیس اہلکاروں نے انہیں چھوڑنے کے لیے رقم طلب کی، جو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا۔

پولیس اہلکار انہیں قریبی تھانے لے گئے۔ جب انہوں نے اگلی صبح تک خیرالدین کو چھوڑا تو تمام تر مچھلی سڑ چکی تھی، ان کے مطابق ایک لاکھ روپے کے اس نقصان نے انہیں مقروض بنا دیا ہے۔

خیرالدین کے پاس موجود کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ 2013 میں زائد المیعاد ہو چکا ہے، وہ اب بھی اسے اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ جب وہ اپنے کارڈ کی تجدید کے لیے نادرا کے دفتر گئے تو ان سے ان کے والدین کے شناختی کارڈ اور ان کے نکاح نامے طلب کیے گئے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ان کا خاندان 1971 میں سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے بھی مغربی پاکستان میں مقیم تھا۔

انہوں نے 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں جاری ہونے والی یہ دستاویزات پیش کیں، مگر نادرا حکام نے پھر بھی ان کے کارڈ کی تجدید سے انکار کر دیا، نادرا کے مطابق خیرالدین پاکستانی نہیں، بلکہ بنگلہ دیشی ہیں۔

بقول خیر الدین، "میں پاکستان میں پیدا ہوا ہوں اور ساری زندگی سے یہیں مقیم ہوں، میرے والدین بھی پاکستان میں رہتے تھے۔ ہمارا بنگلہ دیش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"

وہ اپنی بنگالی ماہی گیر برادری سے کئی دیگر مثالیں دے کر نادرا پر الزام عائد کرتے ہیں کہ جو افراد نادرا حکام کو رشوت دے سکتے ہیں، ان کے کارڈز کی تجدید آسانی سے ہوجاتی ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں مقیم بنگالی برادری کے ساتھ کام کرنے والے سماجی کارکنوں کے مطابق اس رشوت کے ریٹ 5000 روپے سے لے کر 30,000 روپے تک ہیں۔

خیرالدین کے ساتھ کھڑے ایک اور 30 سالہ شخص کے مطابق جو لوگ رشوت نہیں دے پاتے، انہیں واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔


مچھر کالونی (اردو میں ماہی گیر بستی) کراچی کی سب سے بڑی اور سب سے پسماندہ کچی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ شمال میں ریل کی پٹڑی اور ماڑی پور روڈ اور جنوب میں بحیرہ عرب کے درمیان قائم اس بستی کی آبادی تقریباً 85 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور پاکستانی بنگالیز ایکشن کمیٹی کے مطابق ان میں سے 75 فیصد کے قریب رہائشی بنگالی ہیں۔

مچھر کالونی کی گلیاں ناہموار اور گرد آلود ہیں، جہاں جابجا کچرے کے ڈھیر موجود ہیں اور سمندر کی نم ہوا، سڑتی ہوئی مچھلی، سیوریج کے کھلے نالوں اور جلتے ہوئے کچرے کی بو نے اس پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

مچھر کالونی کے ایک احاطے میں تقریباً 15 خواتین اپنے بچوں کے ساتھ جمع ہیں، جن میں سے کچھ تو چار سال سے بھی کم عمر کے ہیں۔ ہر خاندان کے سامنے جھینگے کا ڈھیر موجود ہے، جس میں تہہ در تہہ برف رکھی گئی ہے تاکہ جھینگا سڑنے سے بچایا جا سکے۔

لکڑیوں اور سوکھے پتوں سے بنائی گئی اس جھونپڑی میں یہ خواتین جھینگے چھیل کر انہیں اپنے سامنے موجود بالٹیوں میں بھر رہی ہیں۔ احاطے کا فرش گیلا ہے اور جھینگے کو دھونے کے لیے ڈالے گئے پانی اور پگھلتی برف نے آپس میں مل کر بدبودار کیچڑ پیدا کر رکھا ہے۔

فاطمہ نامی ایک درمیانی عمر کی بنگالی خاتون احاطے میں ایک لکڑی کے تختے پر بیٹھی اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ جھینگا کاٹ کر چھیل رہی ہیں، ان سب کے ہاتھ مشینی انداز میں چل رہے ہیں۔

ان کے سامنے ایک پیالہ موجود ہے جس میں پوکر چپس کی طرح کے ٹوکن موجود ہیں۔ ان ٹوکنز پر ایک مقامی فش پراسیسنگ کمپنی کا نام درج ہے جس کے لیے فاطمہ کام کرتی ہیں۔ کمپنی انہیں اور ان کے بچوں کو ایک بالٹی جھینگا (تقریباً 15 کلو) صاف کرنے کے عوض 50 روپے مالیت کا ایک ٹوکن دیتی ہے۔

مچھر کالونی میں بنگالی خواتین جھینگا چھیل رہی ہیں۔ — فوٹو بلال کریم مغل
مچھر کالونی میں بنگالی خواتین جھینگا چھیل رہی ہیں۔ — فوٹو بلال کریم مغل

دن کے اختتام پر وہ تمام ٹوکن اکھٹے کرتی ہیں جن کی کُل مالیت تقریباً 400 سے 500 روپے بنتی ہے، کمپنی سے اپنا معاوضہ وصول کرتی ہیں اور اپنے گھر چلی جاتی ہیں، ان کے پورے خاندان کی دن بھر کی محنت کا معاوضہ یہ چند سو روپے ہیں جو ویسے تو بہت کم ہیں، لیکن دو وقت کی روٹی کے لیے کافی ہوجاتے ہیں۔

شدید ٹھنڈا جھینگا صاف کر کرکے فاطمہ کی انگلیاں گَل سی گئی ہیں۔ دن بھر کام کرنے کے بعد جب وہ اپنے گھر لوٹتی ہیں تو پھٹکری کے پانی میں اپنے ہاتھ ڈبو کر بیٹھ جاتی ہیں تاکہ بدبو سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے، پھر وہ اپنے ہاتھوں کی کھوپرے کے تیل سے مالش کرتی ہیں اور انہیں گرمی پہنچاتی ہیں تاکہ اگلے دن کے کام کے لیے تیار ہوا جا سکے۔

وہ اس مشقت سے کم از کم جزوی طور پر ہی سہی، مگر بچ سکتی تھیں، اگر ان کے شوہر کام کر رہے ہوتے۔ جب وہ کام کرتے تھے تو وہ سمندر میں جا کر مچھلیاں پکڑتے اور ان کی بیوی کو صرف آدھی تعداد میں ہی جھینگے چھیلنے پڑتے تھے، اس وقت ان کے بچے اسکول بھی جایا کرتے تھے۔

مگر اب جبکہ سمندری حکام نے تمام ماہی گیروں کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ سختی سے چیک کرنے شروع کر دیے ہیں تو ان کے شوہر کراچی میں غیر قانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشی قرار پاکر گرفتار ہونے کے خوف سے سمندر پر نہیں جاتے۔ فاطمہ کہتی ہیں، "وہ گذشتہ 6 ماہ سے مچھلی پکڑنے نہیں جاسکے"، انہوں نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بھی بند کر دیا ہے تاکہ وہ سارا وقت ان کے ساتھ کام کر سکیں۔

مچھر کالونی میں مقیم دیگر کئی گھرانوں کی بھی یہی کہانی ہے۔

19 سالہ غلام حسین، جو مچھر کالونی میں مقیم ہیں، شاید اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکیں کیوں کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ ایک مشہور برانڈ کے لوگو والی ایک پرانی بھوری ٹی شرٹ میں ملبوس غلام حسین کے چہرے پر موجود ہلکے بالوں کو نظرانداز کر دیا جائے، تو وہ اپنی عمر سے کہیں بڑے لگتے ہیں۔

حسین کی بات چیت میں انگلش کے فقرے اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرے بار بار سننے کو ملتے ہیں، وہ انٹر کے امتحانات کے لیے پرائیوٹ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ ب فارم، جو کہ ان کی پیدائش اور ولدیت کا ثبوت ہے، دکھا کر امتحانات میں بیٹھیں گے۔ مگر انہیں کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ چاہیے ہوگا، جو کہ ان کے پاس نہیں ہے۔

حسین نے حال ہی میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے لیے درخواست دی تھی۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا ان کے والدین پاکستانی شہری ہیں یا نہیں، انہوں نے اپنے والد کی چند دستاویزات پیش کیں جن میں ایک پرانا قومی شناختی کارڈ، ایک ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک سرٹیفیکیٹ (جس میں ان کا نام ووٹر لسٹ میں موجود ہونے کی تصدیق کی گئی ہے) شامل تھے، لیکن نادرا دفتر میں موجود افسران نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ ان کے مطابق غلام حسین بنگلہ دیشی ہیں۔

حسین مچھر کالونی میں اپنے 58 سالہ والد کے ساتھ مٹھائی کی دکان پر کام کرتے ہیں، مگر انہیں یہ کام پسند نہیں، ان کا کہنا ہے "میں دکان نہیں چلانا چاہتا، میں پڑھنا چاہتا ہوں۔"


قیامِ پاکستان کے چند سال بعد کراچی میں تقریباً تین لاکھ بنگالی مقیم تھے۔ کراچی کی بنگالی برادری میں سرگرم سیاسی جماعت پاک مسلم الائنس کے سربراہ خواجہ سلمان خیرالدین کے مطابق ان میں سے زیادہ تر بنگالی گارمنٹ فیکٹریوں میں یا پھر ملازموں اور ڈرائیوروں کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔

خواجہ سلمان خیرالدین کے والد خواجہ خیرالدین تحریکِ پاکستان کے مرکزی رہنماؤں میں شامل تھے اور 1960 میں جب ڈھاکہ مشرقی پاکستان کا دارالخلافہ تھا، تب وہ اس کے میئر بھی رہ چکے تھے۔

خواجہ سلمان کے مطابق 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہزاروں بنگالیوں نے پاکستان چھوڑا، مگر زیادہ تر پھر بھی یہیں مقیم رہے، اس کے علاوہ 1971 کے بعد جب بنگلہ دیش کی معیشت پاکستانی معیشت کے مقابلے میں کہیں کمزور تھی، اُس وقت بھی بنگلہ دیش سے کئی افراد چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں روزگار کی تلاش میں کراچی آتے رہے، آج ان تارکینِ وطن کی تعداد کوئی دو لاکھ کے قریب ہے۔

پاک مسلم الائنس کے ایک سروے کے مطابق کراچی میں رہائش پذیر اور کام کرنے والے بنگالیوں کی مکمل تعداد 20 لاکھ کے قریب ہے، یہ کراچی بھر میں تقریباً 105 بستیوں میں مقیم ہیں جن میں اورنگی ٹاؤن (ضلع غربی)، ابراہیم حیدری اور بلال کالونی (ضلع ملیر)، ضیاء الحق کالونی اور موسیٰ کالونی (ضلع وسطی) اور مچھر کالونی اور لیاری بنگالی پاڑہ (ضلع جنوبی) شامل ہیں۔

یہ آبادیاں یا تو سمندر یا پھر صنعتی علاقوں کے پاس قائم ہیں کیوں کہ اس برادری کے زیادہ تر افراد یا تو ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہیں یا پھر فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں۔

کراچی میں مقیم تمام بنگالیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں پاکستانی تسلیم کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے حالیہ قومی مردم شماری میں ایک اجتماعی حکمتِ عملی اختیار کی ہے، جب حکام ان کے گھر آتے ہیں تو وہ خود کو مردم شماری کے فارم میں دی گئی 9 زبانوں میں سے کسی کا بولنے والا درج نہیں کرواتے، اس کے بجائے وہ اپنی زبان 'دیگر' درج کرواتے ہیں کیوں کہ فارم میں بنگالی کا خانہ موجود نہیں، اس کے علاوہ وہ اپنی قومیت پاکستانی لکھواتے ہیں۔

خواجہ سلمان کے مطابق، مردم شماری کا عملہ قومیت کے بارے میں ان کا دعویٰ ایسے ہی تسلیم نہیں کر لیتا، اس کے بجائے وہ یہ اندراج صرف شناختی کارڈ، نکاح نامے یا شہریت کا کوئی اور ثبوت دیکھنے کے بعد ہی کرتے ہیں۔

مگر مردم شماری میں خود کو پاکستانی درج کروا لینے سے بنگالی خودکار طریقے سے پاکستانی نہیں بن جائیں گے۔ پاکستانی بنگالیز ایکشن کمیٹی کے صدر شیخ محمد سراج کے مطابق ایسا 1998 کی مردم شماری میں بھی کیا گیا تھا، مگر ان کے شہریت کے مسائل اس کے بعد بھی باقی رہے۔ ہاں کچھ ہوا ہے تو وہ یہ کہ ان کے مسائل میں شدت آ گئی ہے۔

فاطمہ وہ ٹوکن دکھا رہی ہیں جو انہیں جھینگا صاف کرنے پر ملتے ہیں۔ — فوٹو بلال کریم مغل
فاطمہ وہ ٹوکن دکھا رہی ہیں جو انہیں جھینگا صاف کرنے پر ملتے ہیں۔ — فوٹو بلال کریم مغل

پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل کرنے کے لیے بنگالیوں نے جو ایک اور حکمتِ عملی اپنائی، وہ ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے شناختی کارڈ حاصل کرنا تھا۔ جب شناختی کارڈ ہاتھ سے بنائے جاتے تھے، تب ان کی اکثریت کو شناختی کارڈ جاری کیے گئے تھے۔ جب 2000 کے اوائل میں نادرا کا ادارہ قائم ہوا اور شناختی کارڈ کمپیوٹرائزڈ کر دیے گئے، تب ان میں سے تقریباً تمام کے ہی شناختی کارڈ کمپیوٹرائزڈ کارڈز میں تبدیل کر دیے گئے۔

مگر گذشتہ چند سالوں سے حکومت نے پاکستان کے قانونی بنگالی شہریوں اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کو الگ کرنے کے لیے ایک مہم شروع کر رکھی ہے، سراج بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، وہ 1980 میں بنگلہ دیش سے پاکستان آئے اور اپنی برادری میں موجود زیادہ تر لوگوں کی طرح کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، جو کہ 2014 میں زائد المیعاد ہو گیا تھا لیکن حکومت ان کے شناختی کارڈ کی تجدید کی درخواست مسترد کر چکی ہے۔

سماجی کارکنوں کے مطابق حکام کئی جائز پاکستانی بنگالیوں پر خود کو غیر ملکی رجسٹر کروانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ سراج کے اپنے بیٹے محمد حنیف کو 2005 میں غیر ملکی (ایلیئن) کے طور پر درج کیا گیا، بھلے ہی ان کی پیدائش 1988 میں پاکستان میں ہوئی اور ان کے پاس حکومتِ سندھ کا جاری کردہ پیدائشی سرٹیفیکیٹ بھی ہے۔ نیشنل ایلیئنز رجسٹریشن اتھارٹی (نارا) کی جانب سے حنیف کو جاری کردہ کارڈ پر ان کا ملک بنگلہ دیش، جب کہ ان کی قومیت بنگلہ دیشی تحریر ہے۔

یہ پاکستانی قانونِ شہریت 1951 کے خلاف ہے، جس کے مطابق "اس قانون کے جاری ہونے کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص پاکستانی شہری ہوگا"، حنیف کو اس قانون کے تحت پاکستانی شہریت نہ دینے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ یا تو ان کے والد غیر ملکی سفارتکار ہوں، یا پھر ایک غیر ملکی دشمن۔

محمد عالم ایک بنگالی رکشہ ڈرائیور ہیں جو گلشنِ اقبال کے قریب رحمتیہ کالونی میں رہائش پذیر ہیں اور اپنا فارغ وقت سندھ ہائی کورٹ میں غیر ملکی قرار دیے گئے بنگالیوں کی ان کے مقدمات میں مدد کرتے ہوئے گزارتے ہیں، وہ کہتے ہیں، "ہم بنگلہ دیشی نہیں ہیں، ہم کیوں ایلیئن رجسٹریشن کارڈ یا پھر کوئی اور عارضی شناخت قبول کریں؟ ایسا کرنا تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم واقعی پاکستانی نہیں بلکہ غیر ملکی ہیں۔"


کراچی کے بنگالیوں کے نام 1998 کی قومی مردم شماری سے اب تک انتخابی فہرستوں میں شامل رہے ہیں۔ 2008 اور 2013 میں جن کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ موجود ہوں گے، انہوں نے ووٹ بھی ڈالے ہوں گے۔ درحقیقت خواجہ سلمان خیرالدین کی جماعت پاک مسلم الائنس نے 2008 میں تین امیدوار بھی کھڑے کیے تھے، جن میں سے دو سندھ اسمبلی اور ایک قومی اسمبلی کے لیے تھا، مگر کوئی بھی چند سو ووٹ سے زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

2013 کے انتخابات میں سندھ اسمبلی کے لیے پارٹی امیدواروں کی تعداد بڑھ کر 6 ہوگئی، مگر ملنے والے ووٹوں کی تعداد قابلِ ذکر نہیں تھی، اہم بات یہ ہے کہ یہ امیدوار پاکستانی شہری ہونے کے ٹھوس ثبوت کے بغیر انتخابات نہیں لڑسکتے تھے۔

سراج کہتے ہیں، "ہمارا مطالبہ نہایت سادہ ہے، اگر ہم پاکستانی نہیں ہیں، تو ہمیں 1998 میں پاکستانی کیوں شمار کیا گیا؟ اور اگر تب ہم پاکستانی تھے، تو اب ہم سے ہماری شہریت کیوں چھینی جا رہی ہے؟" وہ اپنی برادری کی مزید خصوصیات بھی گنواتے ہیں جو ان کے نزدیک انہیں پاکستانی قرار دیتی ہیں، ان کا کہنا تھا "اگر ہم یہاں رہتے ہیں، یہیں کماتے ہیں اور کسی اور ملک کو پیسہ نہیں بھیجتے تو پھر حکومت ہمیں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کیوں جاری نہیں کرسکتی؟"

سراج نے کاغذات کا ایک بھاری پلندہ جمع کر رکھا ہے جس میں اخباری تراشے اور مختلف سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسروں اور ریاستی اداروں کو لکھے گئے خطوط شامل ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی 24 مارچ 2017 کو سندھ کے گورنر محمد زبیر سے بھی ملے۔ سراج کے مطابق "گورنر نے ہمارا معاملہ وزیرِ اعظم کے سامنے اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔"

نیشنل ایلیئنز رجسٹریشن اتھارٹی (نارا، جو 2000 میں قائم ہوئی تھی مگر جسے 2016-2015 میں نادرا میں ضم کر دیا گیا تھا) کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق حکومت صرف کسی کی زبان کی بناء پر کسی کی شہریت منسوخ نہیں کرتی۔

نادرا میں کام کرنے والے مذکورہ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "ہم نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت کے ثبوت لائیں — کوئی بھی چیز جو یہ ثابت کرے کہ وہ قانونِ شہریت پاکستان 1951 کی شرائط پر پورا اترتے ہیں، جب وہ یہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے تو پھر ہم ان کی شہریت منسوخ نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟"

لیکن وہ مانتے ہیں کہ کچھ غلطیاں ہوئی ہوں گی اور ہوسکتا ہے کہ کچھ پاکستانی شہریوں کو "غیر ملکی" کی فہرست میں ڈالا گیا ہو، مگر ان کے مطابق یہ غلطیاں کراچی میں مقیم بنگالیوں کے تمام کیسز کا صرف ایک فیصد ہوں گی۔


اراکان آباد برما سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی آبادی کا مسکن ہے، جنہوں نے اپنے علاقے کو برما کے اُس علاقے کا نام دے رکھا ہے جہاں سے وہ ہجرت کرکے آئے تھے۔ یہ کورنگی کے علاقے ابراہیم حیدری سے ایک پتھریلی اترائی کے اختتام پر واقع ہے جہاں کی گلیاں ناہموار ہیں مگر کافی کشادہ ہیں، یہاں کے گھروں کے سائز مختلف ہیں مگر دیکھنے میں ایک ہی جیسے ہیں۔

30 سالہ شائستہ٭، اراکان آباد میں اپنے دو کمروں کے گھر میں لوہے کے دروازے کے پیچھے سے بات کر رہی ہیں، ان کے والدین گھر کے باہر ایک صحن میں رکھی بینچ پر بیٹھے ہیں۔ صحن کی دیواریں نہیں ہیں، اس کے بجائے بانسوں کے ذریعے خشک پتوں اور شاخوں سے بنائے گئے سائے کو سہارا دیا گیا ہے۔

اس شکستہ سے گھر کے مختلف حصوں میں صوفی بزرگ حضرت لال شہباز قلندر کی تصاویر آویزاں ہیں، ایک کونے میں ایک شوخ رنگ کا پرچم لہرا رہا ہے، جس سے یہ بات واضح ہے کہ اس گھرانے کے پاس اپنے مشکل دن گزارنے کے لیے روحانیت کے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔

ارکان آباد کے تمام لوگوں کی طرح شائستہ بھی پاکستان کی قانونی شہریت چاہتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ شہریت ملنے سے ان کے معاشی حالات بہتر ہوں گے یا کم از کم ان کے لیے صحت اور ان کے تین بچوں کے لیے تعلیم کے دروازے ضرور کھل جائیں گے۔

گذشتہ سال انہیں گائنی کے ایک مسئلے میں علاج کی ضرورت تھی مگر جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے حکام نے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا تھا، وہ اپنے تینوں بچوں کو کسی اسکول میں بھی داخل نہیں کرواسکتیں کیوں کہ ان کے پاس سرکاری پیدائشی سرٹیفیکیٹ نہیں ہیں۔

مچھر کالونی کراچی میں فشریز ہاربر۔ — فوٹو بلال کریم مغل
مچھر کالونی کراچی میں فشریز ہاربر۔ — فوٹو بلال کریم مغل

ارکان آباد کی ایک اور رہائشی بے بی، جو کہ 30 سال سے کچھ اوپر کی ہیں، کا مسئلہ بھی ملتا جلتا ہے۔ وہ ابراہیم حیدری کے قریب گھروں میں کام کر کے گزر بسر کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کے تین بچوں، جو کہ 10 سال سے کم عمر کے ہیں، کو تعلیم مل جائے تاکہ وہ اپنے والدین سے بہتر زندگی گزار سکیں, مگر بے بی کی یہ خواہش تب تک پوری نہیں ہوگی جب تک وہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ حاصل نہ کرلیں۔

کراچی میں مقیم ہزاروں برمیوں کی طرح ان دونوں خواتین کے پاس شناخت حاصل کرنے کا واحد راستہ کسی نادرا اہلکار کو رشوت دے کر شناختی کارڈ حاصل کرنا ہے۔ شائستہ کی والدہ نے سنہ 2000 کے اوائل میں جاری ہونے والے اپنے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے زائد المیعاد ہوجانے پر یہی کیا، جب وہ تجدید کے لیے گئی تھیں تو نادرا حکام نے انہیں غیر ملکی قرار دیتے ہوئے انہیں نیا کارڈ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا، مگر انہوں نے ایک ایجنٹ کو 8 ہزار روپے دیے اور اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔ شائستہ کی والدہ کے مطابق "نادرا دفاتر کے باہر ایسے ایجنٹ ہر وقت پائے جاتے ہیں۔"

شائستہ اور بے بی، دونوں ہی روہنگیا مسلم برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ برادری برما (میانمار) کے علاقے ارکان، جسے سرکاری طور پر راکھائین ریاست کہا جاتا ہے، سے کراچی آئی ہے۔ یہ علاقہ دوسری جنگِ عظیم سے لے کر اب تک تنازع کا شکار ہے۔ روہنگیا مسلمانوں نے بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں شدید مشکلات اٹھائی ہیں جو کہ راکھائین اور میانمار کے دیگر حصوں میں اکثریت میں ہیں اور جن کے مطابق روہنگیا مسلمان برمی نہیں بلکہ درحقیقت بنگالی ہیں۔

1947 میں اور اس کے فوراً بعد کئی روہنگیا مسلمان مشرقی پاکستان کے اراکان سے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں ہجرت کر گئے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مغربی پاکستان، بالخصوص کراچی کی جانب ہجرت کرنی شروع کی اور جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں ریاستِ پاکستان نے انہیں میانمار میں نسل کشی سے بچنے کے لیے پاکستان میں کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔

جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خاتمے تک یہ برادری چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں کراچی آتی رہی اور خواجہ سلمان کے مطابق آج کراچی میں "دو سے تین لاکھ کے قریب برمی بغیر شناخت کے کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔"

حکومت اس حوالے سے الجھن کا شکار ہے کہ ان لوگوں کا کیا کیا جائے۔ پاکستان کے قانونِ شہریت 1951 کے تحت (کاغذی طور پر ہی سہی)، جو بھی شخص برِصغیر میں پیدا ہوا مگر اس قانون کے منظور ہونے کے وقت 'پاکستان' میں رہائش پذیر تھا، وہ پاکستانی شہری کہلائے گا، مگر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت برما کو برِصغیر سے علیحدہ کر دیا گیا تھا، اس لیے روہنگیا مسلمان اس شق کے تحت پاکستان کے شہری نہیں بن سکتے۔

خواجہ سلمان کے مطابق "انہوں نے خود کو کراچی کی بنگالی برادری میں ضم کر لیا ہے، اب وہ خود کو برمی بھی نہیں کہلواتے، ورنہ ان کے پاس قانونی [پاکستانی شہری] بننے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا"، وہ کہتے ہیں کہ یہ برادری بھی خود کو مردم شماری میں پاکستانی بنگالی ہی لکھوا رہی ہے۔

برمیوں کا بنگالیوں میں ضم ہونا مشکل نہیں تھا کیوں کہ اراکان کے لوگوں اور بنگالیوں کے چہروں کے خطوط ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، مگر پھر بھی روہنگیا مسلمانوں کے لیے شہریت حاصل کرنا آسان نہیں ہے، کیوں کہ لاکھوں بنگالی خود بھی شہریت حاصل کرنے کے لیے پریشان ہیں۔

ایک اور حل یہ ہوسکتا ہے کہ روہنگیا مسلمان پناہ گزین کے درجے کے لیے درخواست دیں، اگر انہیں یہ درجہ حاصل ہوجاتا ہے تو شائستہ اور بے بی بین الاقوامی امدادی اداروں کے ذریعے کم از کم اپنے لیے صحت اور اپنے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

مگر پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں، اس لیے یہ بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی پناہ گزین کو اپنے ملک میں پناہ دینے کا پابند نہیں ہے، اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے نزدیک صرف افغان ہی پاکستان میں پناہ گزین کی حیثیت رکھتے ہیں۔


56 سالہ مولا بخش کراچی کے علاقے لیاری کی بستی نوا لین کے رہائشی ہیں، وہ صحافیوں سے بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ انٹرویو کے دوران وہ بار بار اپنی کہی ہوئی باتوں کو خفیہ رکھنے کے لیے کہتے ہیں اور فکرمند ہیں کہ اگر حکام کو یہ باتیں معلوم ہوگئیں تو یہ ان کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں۔

مقامی ایرانی برادری کے دو دیگر افراد اسی وجہ سے صاف انداز میں صحافیوں سے بات کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ اگر ان کی لسانی شناخت سامنے آگئی تو حکومت انہیں ایران ڈی پورٹ کر دے گی یا اس سے بھی برا یہ کہ ان پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے اور دہشت گرد حملوں کی معاونت کا الزام لگا دیا جائے گا۔

ان کا یہ خوف بے بنیاد نہیں ہے، کچھ عرصہ قبل ہی لیاری سے تعلق رکھنے والے مبینہ گینگ لیڈر عزیر بلوچ کا اعترافی بیان منظرِ عام پر آیا تھا، جس میں انہوں نے ایران اور پاکستان کی دہری شہریت رکھنے اور ایرانی انٹیلی جنس حکام سے تعلق کا اعتراف کیا تھا۔ یہ بیان میڈیا میں 24 اپریل 2016 کو جاری ہوا جب یہ خبر سامنے آئی کہ عزیر بلوچ پر کراچی میں سینئر سیکیورٹی حکام اور حساس تنصیبات کی جاسوسی کرنے کے لیے فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

کراچی کے علاقے لیاری کی بستیوں کمہار واڑہ، چاکیواڑہ اور میرا ناکا میں ایران سے تعلق رکھنے والے تقریباً 150 خاندان رہائش پذیر ہیں، یہ ایک کھلا راز ہے کہ ان کے ایران کے ساتھ خاندانی اور کاروباری تعلقات ہیں۔

ان خاندانوں کے ارکان کراچی اور ایران کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں، ان میں سے کئی افراد چادریں، پردے، چاول، دالیں اور سبزیاں پاکستان سے ایران برآمد کرتے ہیں، جبکہ خشک میوہ جات، مٹھائیاں، اچار اور قالین ایران سے پاکستان لاتے ہیں۔ یہ سارا کام قانونی ذرائع سے ہوتا ہے، کچھ لوگ ایران سے پیٹرولیم مصنوعات پاکستان اسمگل کرتے ہیں جبکہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر لوگوں کو ایران بھی بھیجا جاتا ہے۔

مچھر کالونی کے غلام حسین اپنے والد کا پرانا شناختی کارڈ دکھا رہے ہیں۔ — فوٹو بلال کریم مغل
مچھر کالونی کے غلام حسین اپنے والد کا پرانا شناختی کارڈ دکھا رہے ہیں۔ — فوٹو بلال کریم مغل

ایسا ہی ایک خاندان محمد حسین کا ہے، جو اپنے فارغ وقت میں لیاری میں جماعتِ اسلامی کے فلاحی ونگ الخدمت فاؤنڈیشن کے کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے دادا دادی ایران کے ضلع سرباز سے تعلق رکھتے تھے اور وہ خود 1950 کی دہائی میں اپنے بچپن میں لیاری آئے۔

گریجویشن مکمل کرنے کے بعد وہ 19 سال کی عمر میں سرباز چلے گئے، جہاں ان کی اپنی کزن سے شادی ہوگئی۔ ان کے خاندان کے کئی لوگ اب بھی ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے مختلف ضلعوں اور قصبوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ان کے دو بچوں (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) کی شادیاں بھی ایران میں ہوئی ہیں۔

ان خاندانوں کے ارکان، بشمول مولا بخش اور محمد حسین، نے ٹی وی پر عزیر بلوچ کے اعترافی بیان کی تفصیلات دیکھیں۔ مولا بخش کے نزدیک عزیر کی گرفتاری حیران کن ہے کیوں کہ "اس پر ایک ایسے ملک کی جاسوسی کرنے کا الزام ہے جسے [پاکستان کا] دوست تصور کیا جاتا ہے، ان کے مطابق اس سے "ان لوگوں کے لیے حالات مزید غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگئے ہیں جن کے خاندان [پاک-ایران] سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں۔"

مولا بخش کے والد ایران کے صوبے سیستان بلوچستان سے 1970 کی دہائی کے اواخر میں لیاری کے علاقے نوا لین میں آباد ہوئے تھے، اپنی وفات سے قبل وہ اپنے 7 میں سے چار بچوں کے لیے شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ان کے مطابق "1990 کی دہائی میں ان کے تین بھائی بحرین منتقل ہو کر وہیں مقیم ہو گئے"۔

اُس وقت انہوں نے یہ بالکل نہیں سوچا تھا کہ انہیں کبھی اپنی شہریت کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کرنا پڑے گا، "اس وقت تو ہجرت کرنے کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی"، مگر ان کا کہنا ہے کہ اب یہ ضرورت تیزی سے جنم لے رہی ہے۔

یہ اس لیے ہے کیوں کہ ایران اور پاکستان نے حال ہی میں سرحدی کنٹرول اور شہریت کے قوانین میں سختی کر دی ہے۔ گذشتہ تین سالوں میں مولا بخش نے دونوں ملکوں کے درمیان نقل و حرکت پر پابندیوں میں صرف سختی ہی آتے دیکھی ہے، نرمی نہیں۔

مولا بخش کے مطابق ایران کا سفری اجازت نامہ (جسے راہداری کہا جاتا ہے)، اب صرف 15 دن کی مدت کے لیے دیا جاتا ہے، انھوں نے بتایا "اس سے پہلے ہم ایران میں 2 ماہ تک کے لیے بھی رہ لیتے تھے"، ان کے مطابق اب اگر کوئی معینہ مدت سے زیادہ دن ایران میں ٹھہر جائے تو 30 ہزار ایرانی تومان (تقریباً 1000 پاکستانی روپے) دینے پڑتے ہیں، یہاں تک کہ بسا اوقات مکمل سفری دستاویزات رکھنے والوں کو بھی ایران میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

یہ پابندیاں ایران کے اس شک کی وجہ سے ہیں کہ تہران مخالف جنگجو ایران میں پاکستان کے ذریعے داخل ہوتے ہیں، رواں برس 26 اپریل کو 10 ایرانی گارڈز کو سیستان بلوچستان کے صوبے میں قتل کر دیا گیا تھا، جس پر ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ حملہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں نے کیا، ایرانی بارڈر گارڈز پر اسی طرح کے حملے اپریل 2015 اور اکتوبر 2013 میں بھی ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں لیاری اور جنوبی بلوچستان میں رہنے والے تقریباً 10 ہزار کے قریب ایرانیوں کو حالیہ دنوں تک سرکاری حکام کی جانب سے کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا، مگر یہ منظرنامہ بلوچستان میں 21 مئی 2016 کو افغان طالبان کے رہنما ملّا اختر منصور کی ایران سے پاکستان آتے وقت امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تبدیل ہو گیا۔

اس کے علاوہ کم از کم ایک اور واقعہ پاکستان کے ایرانی سرحد پار کرنے والے لوگوں کے بارے میں بڑھتے شکوک و شبہات کا سبب ہو سکتا ہے، جب وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسدادِ انسانی اسمگلنگ سیل نے 10 اگست 2015 کو پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک نادرا اہلکار عبدالقدیر کو غیرملکیوں کو پاکستانیوں کے طور پر اندراج کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

محمد حسین کے مطابق عبدالقدیر مبینہ طور پر پاکستان میں علاج کروانے کے خواہشمند ایرانیوں کو 10 ہزار روپے فی بندہ رشوت کے عوض پاکستانی شناختی کارڈ جاری کر رہا تھا، ان کے مطابق "جن لوگوں نے قدیر سے سرحد پار سفر کرنے میں مدد لی تھی، انہیں خوف ہے کہ حکام اب انہیں گرفتار کرنے کے در پے ہوں گے۔"

اس کے علاوہ ایران سے پاکستان میں داخل ہونے والے مبینہ ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گذشتہ سال گرفتاری اور عزیر بلوچ کے اعترافات کی وجہ سے حکام نے سختی بڑھا دی ہے۔

جب یہ بات سامنے آئی کہ ملّا اختر منصور کے پاس ولی محمد کے نام سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ تھا، تب سے حکام نے لیاری میں رہائش پذیر کئی لوگوں کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ منسوخ کر دیے ہیں۔ محمد حسین کے مطابق منسوخ شدہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ زیادہ تر اُن لوگوں کے ہیں جو ایرانی بلوچ جڑیں رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق لیاری اور بلوچستان کے علاقوں پسنی اور پنجگور میں رہنے والے تقریباً 40 فیصد ایرانیوں نے گذشتہ سال سے اب تک اپنی ایرانی شہریت کھو دی ہوگی۔

چوں کہ پاکستان اور ایران کا آپس میں دہری شہریت کا معاہدہ نہیں ہے، اس لیے وہ لوگ جن کے والدین یا دادا دادی ایران میں پیدا ہوئے تھے، ان سے پاکستان میں پیدائش کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں، لیاری کے مقامی صحافی ابوبکر اپنے علاقے کے "نادرا دفتر کے باہر ایک طویل قطار" کا حوالہ دیتے ہیں، ان کے مطابق زیادہ تر لوگ اپنی پاکستانی شہریت کا ثبوت دینے کے لیے دستاویزات جمع کروانے کے لیے کھڑے ہیں۔


وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رواں برس 15 اپریل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جس بنیادی مسئلے پر بات چیت کی، وہ شہریتوں کا مسئلہ تھا۔ ان کے مطابق حکومت 174,184 کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ منسوخ کر چکی ہے کیوں کہ وہ لوگ بلاشبہ غیر پاکستانی تھے۔

یہ بتائے بغیر کہ کتنے افراد کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ 3,641 غیر ملکیوں نے اپنے پاکستانی شناختی کارڈ رضاکارانہ طور پر واپس کر دیے تھے، جن میں ہندوستانی، بنگلہ دیشی، افغانی اور عراقی شامل تھے۔

وزیرِ داخلہ کے مطابق حکومت نے کُل ساڑھے تین لاکھ سے زائد کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک کیے ہیں، ان میں سے سوا لاکھ شناختی کارڈ غیر افغان افراد کے پاس تھے، جس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ان میں سے کچھ کراچی کے بنگالی، برمی اور ایرانی رہائشیوں کے پاس ہوں گے۔

منسوخ شدہ کارڈز کے علاوہ وزیرِ داخلہ کے مطابق باقی بچ جانے والے بلاک شدہ کارڈ 60 روز کے لیے کھولے جا رہے تھے، جس کے دوران ان افراد کو اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع دیا گیا اور ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں انہیں غیر ملکی قرار دے کر شناختی کارڈ منسوخ کیے جائیں گے۔

ابراہیم حیدری کے علاقے سو کوارٹرز کا ایک بازار۔ — فوٹو محمد علی/وائٹ اسٹار
ابراہیم حیدری کے علاقے سو کوارٹرز کا ایک بازار۔ — فوٹو محمد علی/وائٹ اسٹار

وزیرِ داخلہ نے پھر دستاویزات کی وہ فہرست گنوائی جو لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے پیش کر سکتے ہیں، جس میں زمین کی خرید یا ملکیت کی ایک تصدیق شدہ دستاویز (چاہے رقبہ کتنا بھی کم کیوں نہ ہو)، ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ، محمکہ مال کا جاری اور تصدیق کردہ شجرہء نسب، تعلیمی دستاویزات، پاسپورٹ یا شناختی کارڈ، اسلحہ لائسنس اور کوئی بھی سرکاری طور پر جاری کردہ کاغذ، جو کہ متعلقہ محکمے کی جانب سے تصدیق شدہ ہو، شامل ہیں۔

ان تمام دستاویزات کے قابلِ قبول ہونے کی صرف ایک شرط ہے کہ یہ سب 1978 سے پہلے کے جاری شدہ ہونے چاہئیں۔

مگر کراچی میں اب بھی سماجی کارکنوں کی شکایت ہے کہ وزیرِ داخلہ کی ہدایات کے مطابق پاکستانی شہریت کے تصدیق شدہ ثبوت پیش کرنے کے باوجود اب بھی لاتعداد شناختی کارڈ بلاک ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے وکیل رانا آصف حبیب، جو کہ کراچی میں ایک غیر منافع بخش تنظیم انیشیئٹر ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی ہیں، کہتے ہیں کہ شناختی کارڈ بلاک یا منسوخ کرنا حکومت کو پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں، خصوصاً برمیوں اور بنگالیوں سے چھٹکارہ نہیں دلوا سکتا۔

ان کے مطابق یہ برادریاں یہاں اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ انہیں ڈی پورٹ کرنا ناممکن ہے۔ درحقیقت پاکستان نے 1996-1995 میں ہزاروں لوگوں کو بنگلہ دیش ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر بنگلہ دیش نے انہیں واپس لینے سے انکار کر دیا، اس کے علاوہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بھی ڈی پورٹیشن کی سخت مخالفت کی۔

حبیب، جو کہ شہریت کے مقدمے لڑنے والے افراد کی جانب سے ہائی کورٹ میں پیش ہوتے ہیں، مانتے ہیں کہ حکومت کو جلد یا بدیر ان افراد کو پاکستانی شہری تسلیم کرنے کی پالیسی بنانی پڑے گی۔ ان کے مطابق ایسی کسی پالیسی کو بنگلہ دیشیوں اور بنگالیوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا، وہ کہتے ہیں، "[پاکستان میں] بنگالی ہونا جرم نہیں ہے، بلکہ بنگلہ دیشی ہونا [اور غیر قانونی طور پر ملک میں رہنا] جرم ہے۔"

٭شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

— ہیڈر فوٹو: محمد علی/وائٹ اسٹار


یہ مضمون ہیرالڈ میگزین کے مئی 2017 کے شمارے میں 'Strangers in the house' کے عنوان سے شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے سبسکرائب کریں۔