نیشنل بینک کے صدر بھی پاناما جے آئی ٹی ارکان کے رویے سے نالاں
اسلام آباد: نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پاناما پییرز کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات میں بننے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے ارکان کے رویے کی شکایت کردی۔
سعید احمد کی جانب سے لکھے گئے خط کے متن کے مطابق جے آئی ٹی ارکان نے انھیں 5 گھنٹے تک انتظار کروایا جبکہ کچھ ارکان کا رویہ دھمکی آمیز اور تحمکانہ ہے۔
سعید احمد نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا کہ 'میں نے جے آئی ٹی کو اطلاع دی تھی کہ میں (کچھ وجوہات کی بناء پر) مقررہ تاریخ پر پیش نہیں ہوسکتا، لہذا میں اگلی مرتبہ پیش ہوگیا لیکن جے آئی ٹی ارکان نے معاملے کی سماعت کرنے والے معزز جج صاحبان کے سامنے یہ تاثر دیا کہ جیسے میں جان بوجھ کر اس معاملے کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتا ہوں'۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'ملاقات کا وقت صبح 11 بجے طے تھا، میں مقررہ وقت پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی پہنچ گیا، لیکن 3 سیشنز پر مشتمل انٹرویو کے سلسلے میں پہلے انٹرویو کے لیے مجھے تقریباً 5 گھنٹے تک انتظار کروایا گیا'۔
مزید پڑھیں:شریف خاندان نے جے آئی ٹی کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا دیے
انھوں نے مزید کہا کہ 'ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد مجھے ایک دستاویز پڑھنے کے لیے دی گئی اور اپنا بیان تحریر کرنے کو کہا گیا، بعدازاں مجھے 2 گھنٹے بعد دوبارہ بلوایا گیا، جہاں میں نے اپنا دستخط شدہ بیان جمع کروایا، مجھ سے کہا گیا کہ میں اسے باآواز بلند پڑھوں، میں نے ایسا ہی کیا، جس کے بعد ہم نے افطار کیا اور آخری سیشن سے قبل بھی مجھے 2 گھنٹے انتظار کروایا گیا، یہ سارا سلسلہ رات ساڑھے 10 بجے ختم ہوا'۔
نیشنل بینک کے صدر نے اپنے خط میں کہا کہ وہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں 12 گھنٹے تک رہے، اس موقع پر طویل انتظار خصوصاً پہلے سیشن سے قبل 5 گھنٹے کا انتظار تکلیف دہ تھا، 'مجھے ادراک ہے کہ میں وہاں تحقیقات کے سلسلے میں بطور گواہ گیا تھا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ جیسے مجھے کسی مجرم کی طرح سزا دی جارہی ہو، عام دنوں میں بھی اتنا انتظار تکلیف دہ ہوتا ہے، لیکن رمضان میں تو یہ خاص طور پر آزمائش ثابت ہوا'۔
یہ بھی پڑھیں: ’جے آئی ٹی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور قبل از وقت‘
صدر نیشنل بینک نے مزید کہا کہ 'عدالت فیصلہ دے چکی ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والوں کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ اپنایا جانا چاہیے، تاہم اس تمام پوچھ گچھ کے عمل کے دوران مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری بے عزتی کی گئی، ڈرایا دھمکایا گیا اور دباؤ کا نشانہ بنایا گیا'۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'اگر انٹرویو کی مکمل ریکارڈنگ دستیاب ہو تو یہ بات بالکل واضح ہے، میں پوچھے گئے سوالات کی نوعیت پر بات نہیں کروں گا، لیکن میں یہ معاملہ ضرور معزز جج صاحبان کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کا نوٹس لیا جائے'۔
سعید احمد کون ہیں اور انھیں جے آئی ٹی نے کیوں بلایا؟
واضح رہے کہ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں ملوث ہونے کی بناء پر جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا تھا۔
سعید احمد کا نام اُس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب 1998 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے فوجی بغاوت کے بعد، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے انھیں 'اپنا قریبی دوست' قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ شریف خاندان کے مالی معاملات کو 'ہینڈل' کرنے کے لیے سعید احمد کا اکاؤنٹ استعمال کیا گیا۔
اکتوبر 1999 میں فوجی بغاوت کے بعد ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کو کرپشن کے 3 ریفرنسز میں ملوث کیا تھا جن میں سے ایک حدیبیہ پیپر ملز کیس تھا، تاہم 2014 میں احتساب عدالت نے اس ریفرنس کو خارج کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'اسحٰق ڈار کا بیانِ حلفی لندن فلیٹس کا اصل منی ٹریل'
حدیبیہ پیپرز ملز کیس وزیراعظم کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کا احاطہ کرتا ہے، پاناما جے آئی ٹی کو فراہم کیے جانے والے ریکارڈ میں 2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل ہے۔
اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر 1.2 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا 'اعتراف' کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔
فی الوقت سعید احمد نیشنل بینک کے صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں، اس سے قبل وہ اسٹیٹ بینک میں ڈپٹی گورنر کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں۔
پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل
یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔
اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں: حکمراں جماعت کو جے آئی ٹی میں فوجی اہلکاروں کی شمولیت پر اعتراض
جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔
وزیراعظم کے صاحبزادے حسین اور حسن نواز اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے کئی مرتبہ پیش ہوچکے ہیں، جہاں ان سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔
جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ
یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ دنوں حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد
حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف کے کزن طارق شفیع بھی جے آئی ٹی ارکان کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور دباؤ ڈالنے کے الزامات عائد کرچکے ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں