• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

حکمراں جماعت کو جے آئی ٹی میں فوجی اہلکاروں کی شمولیت پر اعتراض

شائع June 8, 2017

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے اہلکاروں کی شمولیت کی وضاحت مانگتے ہوئے جے آئی ٹی کی مزید کارروائیوں کے خلاف احتجاج کی دھمکی دے دی۔

حکمران جماعت بظاہر سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی جانے والی جے آئی ٹی کے قیام سے مطمئن تھی تاہم اب وہ مختلف بنیادوں پر اس کی تحلیل چاہتی ہے۔

حکومت پنجاب کے ترجمان ملک احمد خان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ واٹس ایپ کال (سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے)، اسٹیٹ بینک پاکستان (ایس بی پی) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت، تحقیقات کے دوران حسین نواز کی لیک ہونے والی تصویر جے آئی ٹی کے دباؤ کے ہتھکنڈے اور جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ممبران کی مہارت پر سوالیہ نشان ایسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر مسلم لیگ (ن) جے آئی ٹی کے خلاف احتجاج پر جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ’جے آئی ٹی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور قبل از وقت‘

ان کا مزید کہنا تھا ’جیسا کہ ہم پہلے ہی اسٹیٹ بینک کے عامر عزیز اور ایس ای سی پی کے بلال رسول کی شمولیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر چکے ہیں اور اب ہم یہ وضاحت چاہ رہے ہیں کہ کن بنیادوں پر آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ممبران کو جے آئی ٹی کا حصہ بنایا کیا گیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کا قیام 184 مجموعہ ضابطہ دیوانی کے تحت ہوا، لیکن یہ اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کر رہی ہے، اس قانون کے تحت جے آئی ٹی صرف تحقیقات کر سکتی ہے لیکن یہ مجرمانہ تفتیش کر رہی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا شریف خاندان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے جس کے تحت جے آئی ٹی مجرمانہ تحقیقات کر رہی ہے؟

ملک احمد خان نے کہا کہ ’جے آئی ٹی پر ہمارے تحفظات ٹھوس وجوہات پر ہیں اور ہم اس تحقیقاتی ٹیم کے خلاف احتجاج کا آغاز بھی کر سکتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: حسن نواز بھی پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش

اسی دوران وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے بھی ملے جلے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان کے پاس جے آئی ٹی کے بائیکاٹ کا آپشن موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے جے آئی ٹی کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ لیا گیا تو کارکنان سڑکوں پر آسکتے ہیں اور میں اس مہم میں سب سے آگے ہوں گا‘۔

جے آئی ٹی کی غیر جانب داری پر سوال اٹھاتے ہوئے صوبائی وزیر قانون نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کر رہی اور گواہان پر شریف خاندان کے خلاف بیان دینے پر دباؤ ڈال رہی ہے۔

تحقیقات کے دورانیے پر اعتراض کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم وزیراعظم کے بیٹے حسین نواز سے گھنٹوں تک سوالات کیوں کر رہی ہے؟

ایک اور خبر پڑھیں: اداریہ: جے آئی ٹی کو متنازع نہ ہونے دیا جائے

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی چند گھنٹوں تک سوالات و جوابات کر سکتی ہے، لیکن 9 سے 13 گھنٹوں تک ایک روزہ دار سے سوالات کرنا نا مناسب ہے۔

انہوں نے باور کرایا کہ جے آئی ٹی کے پاس سپریم کورٹ جیسے اختیارات نہیں ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ ’ہمیں جے آئی ٹی پر شدید تحفظات ہیں اور سپریم کورٹ کو اس کے طریقہ کار کا نوٹس لینا چاہیے‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے اعتراضات کا ہدف خصوصی عدالت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حسن نواز بھی پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش

وزیراعلیٰ شہباز شریف کے جے آئی ٹی پر عوامی سطح پر اعتراض کرنے کے بعد ’شہباز شریف کیمپ‘ سے تعلق رکھنے والی لیگی قیادت بھی اس مہم میں آواز سے آواز ملا رہی ہے۔

شہباز شریف نے شریف خاندان کے خلاف پاناما پیپرز کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات کو ’منتخب احتساب‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ عدالت عظمیٰ ’دوسرے لٹیروں‘ کے خلاف کارروائی کرے۔

ایک لیگی رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہباز شریف کی مدد کے بعد مسلم لیگ (ن) کی آواز مزید بلند ہو گئی ہے کیونکہ ’نواز شریف کیمپ‘ سے تعلق رکھنے والے رہنما روزانہ کی بنیاد پر جے آئی ٹی کی کارروائیوں پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔


یہ خبر 8 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024