امریکی صدر کا قطری امیر سے رابطہ، ثالثی کی پیشکش
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک اور قطر کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کے حل کے لیے ذاتی طور پر دلچسپی لیتے ہوئے قطر کے امیر کو اس معاملے میں ثالثی کی پیشکش کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کو ٹرمپ نے فون کال پر قطر کے دیگر خلیجی ہمسایہ ریاستوں سے شروع ہونے والے تنازع کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خلیجی ممالک کے درمیان اتحاد کے لیے وائٹ ہاؤس میں ایک کانفرنس کا انعقاد بھی کرسکتے ہیں۔
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ریاستوں کو دہشت گرد گروپوں کی مالی معاونت ختم کرنا ہوگی، وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ اس ضرورت پر نظر رکھی جارہی ہے کہ خطے میں امریکی اتحادی متحد رہیں۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں تنازعات بھڑکا رہے ہیں،جرمن وزیر خارجہ
امریکا کے لیے قطر کے سفیر مشعال بن حماد الثانی نے ایک انٹر ویو کے دوران بتایا کہ ’مجھے امریکی صدر کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے کہ وہ کشیدگی کو کم اور حل کریں گے‘۔
گذشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کو فون کر کے قطر سے حال ہی میں شروع ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کا کہا تھا۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے سربراہان نے دہشت گردوں کی مالی امداد کو روکنے اور ’خطے کے کسی بھی ملک کی جانب سے شدت پسندی کو فروغ دینے‘ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات پر بات چیت کی، اس کے علاوہ قطر اور عرب ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے سعودی عرب کے 'دورے کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں' اور وہاں کی حکومتوں نے قطر کو دہشت گردوں کی معاونت پر تنہا کردیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'سعودی عرب کا دورہ، بادشاہ اور 50 ممالک سے ملاقات کے اثرات سامنے آرہے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: عرب کشیدگی: ’کویت ثالثی کی کوشش کررہا ہے‘
ان کا کہنا تھا 'میں نے کہا تھا کہ انتہا پسندی کے لیے فنڈنگ کرنے والوں کے خلاف سخت رویہ اپنایا جائے گا اور تمام حوالے قطر کی جانب جارہے تھے تاہم یہ خوفناک دہشت گردی کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہوگا'۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اپنے دورے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کو خبردار کیا تھا کہ قطر 'کٹر انتہا پسندی' کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے اور ان کے مطالبے پر ہی انھوں نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے قدم اٹھایا ہے۔
دوسری جانب قطر کی وزارت خارجہ نے امریکی صدر ٹرمپ کے قطر پر انتہا پسندی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قطر انتہا پسندی کی حمایت نہیں کرتا۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
اس کے علاوہ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر خارجہ محمد دیری نے اپنے ایک بیان میں قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا، تاہم انھوں نے فوری طور پر اس اقدام کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔
مزید پڑھیں: عرب ممالک کی جانب سے قطر کے اچانک بائیکاٹ کا سبب؟
سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے دوحہ سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔
اس سے قبل 1991 میں امریکی اتحاد کی عراق کے خلاف جنگ کے دوران بھی ایسی ہی سیاسی کشیدگی پیدا ہوئی تھی اس موقع پر قطر نے 10 ہزار امریکی فوجیوں کو اپنے ملک میں قیام کی اجازت دی اور امریکی بیس بنائے گئے، جس پر متعدد عرب ریاستیں قطر کے خلاف ہوگئی تھیں، اس دوران متعدد عرب ممالک نے اپنی ایئر لائنز کو قطر کے لیے معطل کردیا تھا اور قطر سے ہر قسم کے سفارتی اور سرحدی تعلقات منقطع کردیے گئے تھے۔