عرب ممالک کی جانب سے قطر کے اچانک بائیکاٹ کا سبب؟
دنیا کے کئی ممالک اور خاص طور پر اسلامی ملک 5 جون کو اچانک اس وقت حیران رہ گئے، جب سعودی عرب کے بعد چند دیگر عرب ممالک نے بھی قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔
مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر عرب ممالک کی جانب سے ایک عرب ملک سے سفارتی تعلقات کے ختم ہونے پر دیگر اسلامی ممالک کی حکومتیں پریشان ہوئی ہوں یا نہیں لیکن عوام ضرور پریشان ہوئے۔
سعودی عرب کے خبر رساں ادارے نے 5 جون کو اپنی خبر میں بتایا کہ سعودی حکومت نے اپنے اتحادی قطر کے ساتھ دہشت گردوں کی مبینہ معاونت کرنے کے باعث سفارتی تعلقات ختم کیے۔
سعودی حکومت نے الزام عائد کیا کہ 'قطر نے خطے کے امن و استحکام کو متاثر کرنے کے لیے مسلم برادرہڈ، داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد اور فرقہ وارانہ گروپوں کی حمایت کی اور میڈیا کے ذریعے ان کے پیغامات اور اسکیموں کی تشہیر کی'
سعودی حکومت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے کچھ منٹ کے فرق کے بعد بحرین، مصر، متحدہ عرب امارات، یمن، لیبیا اور آخری اطلاعات تک مالدیپ نے بھی قطر سے تعلقات ختم کردیئے تھے۔
ممکنہ طور پر سعودی عرب کے قریب سمجھے جانے والے مزید ممالک کی جانب سے بھی قطر سے تعلقات ختم یا محدود کیے جانے کا امکان ہے۔
ان ممالک نے نہ صرف سفارتی تعلقات ختم کیے، بلکہ اپنی اپنی ایئرلائنز کی سروس معطل کرتے ہوئے قطر ایئرویز کو بھی ہوائی راستہ فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا۔
ادھر ڈرامائی انداز میں ایران نے قطر کا ساتھ دینے کے بیانات دیتے ہوئے ہر ممکن مدد کا اعلان کیا۔
سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے ساتھ قطر کو سعودی سربراہی میں بننے والے اسلامی عسکری اتحاد سے بھی خارج کردیا گیا، جب کہ یمن لڑائی میں شامل قطری فوج کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔
تعلقات ختم کرنے کا سبب؟
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ڈرامائی صورتحال اچانک پیدا کیسے ہوئی؟
آخر کیا سبب تھا، جو 5 جون کو بغیر انتباہ دیئے سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک نے بھی قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے؟
اس بحران کے پیچھے موجود اصل حقائق آنے تو ابھی باقی ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے عالمی سیاسی ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر سعودی حکومت نے قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے گزشتہ ماہ دیئے گئے بیان کے رد عمل میں یہ فیصلہ کیا۔
العربیہ نے 24 مئی کو اپنی خبر میں قطر کی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہوں نے 5 عرب ممالک کے سفیروں کی بے دخلی سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
قطر کی وزارت خارجہ نے یہ بیان قطری نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والے اُس بیان کے بعد دیا تھا جس میں حکومت سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دوحہ نے سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین سے اپنے سفارت کار واپس بلا لیے۔
العربیہ کے مطابق امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سے منسوب بیان میں مزید کیا گیا تھا کہ دوحہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان کشیدگی ہے اور قطر ایران کو اسلامی سپر پاور کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔
اس بیان میں قطری امیر نے اسرائیل سے قطر کے اچھے تعلقات سے متعلق بات کرنے سمیت حماس کو فلسطین کی نمائندہ جماعت قرار دیا تھا، جب کہ امریکی صدر کے خلاف اور بھی کئی باتیں کی تھیں۔
بعدازاں قطری حکومت نے وضاحت کی کہ اس بیان سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، یہ ہیکنگ کے بعد جاری کیا گیا۔
خیال رہے کہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر منظرعام پرآیا جب ٹھیک ایک ہفتہ قبل ریاض میں عرب-امریکا-اسلامک سمٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران پر خطے میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔
قطر بھی اس کانفرنس میں موجود تھا، کیوں کہ وہ بھی 35 رکنی اس عسکری اتحاد کا حصہ تھا، جب کہ قطر یمن جنگ میں بھی سعودی عرب کا اتحادی ہے۔
یہی نہیں قطر اور سعودی عرب کی سرحدیں بھی ملتی ہیں اور دونوں ممالک کے لوگ روزانہ کی بنیادوں پر دونوں طرف آتے جاتے ہیں۔
پہلی عرب-امریکا-اسلامک کانفرنس میں ایران پر الزامات اور بعد میں قطر کی جانب سے ایران کو ہی سپر پاور تسلیم کرنا ممکنہ طور پر دوحہ کو تنہا کرنے کا سبب بنے۔
کیا واقعی قطر دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرتا ہے؟
اس حوالے سے کسی بھی ادارے یا ملک کے پاس کوئی مستند دستاویزات موجود نہیں۔
قطر سے تعلقات ختم کرنے والے ممالک نے بظاہر صرف اخوان المسلمون اور ایران کے لیے دوحہ کی جانب سے نرم رویہ اختیار کرنے کو ہی سبب بنا کر تعلقات ختم کیے۔
سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے قطر کی جانب سے شدت پسندوں کی معاونت کرنے کے مستند ثبوت فراہم نہیں کیے، جب کہ قطر نے بھی اپنی صفائی میں بیانات کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔
قطر نے کوئی مستند دلائل پیش کرنے کے بجائے روایتی طریقے سے ان الزامات کو صرف بے بنیاد قرار دینے پر اکتفا کیا۔
قطر کو کتنا نقصان ہوگا؟
بظاہر چھوٹے مگر دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہونے والے قطر کی آبادی 27 لاکھ کے قریب ہے اور اس کی زیادہ تر تجارت سعودیہ اور عرب ممالک کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔
العربیہ کے مطابق قطر اور عرب ممالک کے درمیان تجارتی تبادلے کی مجموعی مالیت 45 ارب قطری ریال ہے، جس میں سے 37 ارب قطری ریال کی تجارت کا تبادلہ تو صرف خلیجی ممالک کے ساتھ ہوتا ہے۔
قطر کا سب سے زیادہ تجارتی تبادلہ سعودی عرب کے ساتھ ہی ہوتا ہے، جو مجموعی تجارت کا 82 فیصد ہے، جب کہ کویت کے ساتھ 7 فیصد اور بحرین کے ساتھ 5 فیصد ہے۔
قطر کی دنیا بھر سے تجارتی تبادلے کی مالیت 324 ارب قطری ریال ہے۔
تعلقات ختم ہونے، ایئرلائنز سروس منقطع ہونے اور سرحدیں بند کرنے سے قطر کو جہاں سخت تجارتی نقصان پہنچے گا، وہیں دوحہ کو اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔
صحرائی ریاست ہونے کی وجہ سے قطر کا اشیاء خوردونوش کا انحصار بیرونی ریاستوں پر ہوتا ہے، جب کہ ترقیاتی کاموں کے لیے بھی قطر کو دوسرے ممالک سے خام مال کی ضرورت پڑتی ہے۔
قطر اپنی زیادہ تر ضروریات سعودی عرب کے زمینی راستے سے پوری کرتا ہے، جو بند ہونے سے اس کے پاس فضائی اور سمندری راستے بچ جائیں گے۔
فضائی راستے کے لیے بھی قطر کو اب طویل روٹ اختیار کرنا پڑیں گے، کیوں کہ تعلقات ختم کرنے والے ممالک نے ہوائی راستے بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس پورے مسئلے کا سب سے زیادہ نقصان قطر کو ہی ہوگا، جو اس وقت 2022 میں فٹ بال کے عالمی ورلڈ کپ کی تیاریوں اور دیگر بڑے تعمیراتی منصوبوں سمیت کئی اہم تجارتی و اقتصادی منصوبوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
ممکنہ نتیجہ کیا ہوگا؟
اگر قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہوتا چلا گیا تو ممکنہ طور پر قطر کے عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
عوامی احتجاج، تباہ ہوتی معیشت، سفارتی تنہائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے قطر کے حکمرانوں کے پاس اقتدار چھوڑنے یا پھر سعودی اور دیگر ممالک سے معافی مانگنے اور تعلقات بحال کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
بظاہر قطر بھی ایران یا پھر اخوان المسلمون کی وجہ سے اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے گا، تاہم حالات کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔
قطر اور دیگر ممالک میں پیدا ہونے والے نئے بحران پر امریکا، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک نے غیر جانبدار رہتے ہوئے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
لیکن کیا قطر اور دیگر ممالک کسی کی ثالثی کے بغیر معاملے کو خود افہام و تفہیم کے ذریعے حل کر پائیں گے؟