امریکامیں پاکستان کی نئی نسل کو اردوکے ذریعے منزل ڈھونڈنےکامشورہ
’اس دن ہر کوئی موت سے متعلق بات کرتا ہوا، جلدی میں ہمارے گھر پہنچنا چاہ رہا تھا‘
تاہم نوید کا فوری طور پر امریکا سے واپس آنا ناممکن تھا، کیوں کہ وہ جمعے کا دن تھا، اور یہ کیسے ممکن تھا کہ انہیں امریکا میں ہوتے ہوئے پیر سے پہلے ویزا ملتا‘۔
یہ سید سعید نقوی کی اردو میں لکھی ہوئی مختصر کہانی ’سائے کی تلاش‘ کے ابتدائی الفاظ ہیں۔
انہوں نے اپنی یہ کہانی نیویارک میں ادبی تنظیم حلقہ احباب ذوق کے پروگرام میں پیش کی، جس نے 1939 سے لاہور سے کام کا آغاز کیا۔
لکھاری نے اس کہانی میں تارکین وطن کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر بات کی، جسے محفل میں بیٹھے ہوئے ادھیڑ عمر کے تارکین وطن کی جانب سے سراہا گیا، اور وہ بار بار تعریف کرنے کے لیے ’واہ‘ ’واہ‘ کی آوازیں دئیے جا رہے تھے۔
کہانی کے اختتام پر لکھاری کو داد دی گئی، جس کے بعد ان کی اس کہانی پر نقطہ چینی کرنے کا وقت تھا، جس وجہ سے محفل میں بیٹھے حلقہ احباب نے باری باری ان کی کہانی کی تفصیلات پر بات کرتے ہوئے ان کے الفاظ کے چناؤ پر بحث کی۔
سید سعید نقوی جو اس حلقہ احباب کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ اس حلقہ ادب کی یہی روایت ہے کہ اس میں کوئی ادبی تخلیق پڑھی جائے، پھر اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے‘۔
پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے محفل میں بیٹھے ہوئے دیگر شاعر حضرات اور لکھاریوں نے بھی اپنی تخلیقات پیش کیں۔
امریکا سے تصاویری جھلکیوں کے ساتھ شائع ہونے والے رسالے اردو ٹائمز کے ایڈیٹر ان چیف خلیل الرحمٰن نے بھی اپنی تخلیق پیش کی۔
یہ ادبی محفل نیویارک کے نواحی علاقے جیکسن ہائیٹس کے ہوٹل ’کباب کنگ‘ میں منعقد کی گئی، اردو کی ادبی محفل ایک ایسی جگہ ہو رہی تھی، جو فوڈ اسٹریٹ تھی، جہاں سے ایک جنوبی ایشیائی شخص کی جانب سے کسی کے ساتھ فون پر کی جانے والی نازیبا گفتگو کی آواز بھی اندر تک آ رہی تھی۔
شہر کا یہ علاقہ پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی افراد سے بھرا ہوا رہتا ہے، علاقے میں موجود مختلف دکانوں اور ہوٹلوں کے باہر لگے ہوئے کثیر الثقافتی اور مختلف زبانوں کے اشتہارات دلفریب منظر پیش کرتے ہیں۔
امریکن اشتہاری بورڈز میں براڈ پٹ، لیونارڈو ڈی کیپریو اور انڈین میں شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے جیسے اداکاروں کی تصاویر ہوتی ہیں، جب کہ دکانوں کے باہر گھڑیوں اور کھیلوں کے سامان سجے ہوئے ہوتے ہیں۔
کباب کنگ ہوٹل کے باہر دائیں جانب نیوز اسٹینڈ بنا ہوا ہے، جہاں جنوبی ایشیائی لوگ شمالی امریکا کا سب سے معروف ہفتہ وار اردو کا رسالہ اردو ٹائمز پڑھتے ہیں۔
تبدیلی کا وقت
اردو ٹائمز میں 1980 کے دوران تبدیلی کا اس وقت شروع ہوا، جب ایڈیٹر ان چیف خلیل الرحمٰن نے نیویارک سے اردو روزنامہ شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
اس وقت خلیل الرحمٰن اور اس کی ٹیم پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے عملے کی مدد سے پاکستانی کی اردو اخبارات منگواتے تھے، جنہیں پڑھنے کے بعد وہ اپنا کام شروع کرتے تھے۔
گزرتے وقت اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے خلیل الرحمٰن کی زندگی آسان کردی، آج اردو ٹائمز کا زیادہ تر عملہ لاہور سے بیٹھ کر کام کرتا ہے۔
بعد ازاں اردو ٹائمز کے ریاست ہائے متحدہ امریکا، کینیڈا اور انگلینڈ کے مختلف شہروں سے خصوصی پرچے نکالنا شروع کیے گئے، لیکن اب اس کے پڑھنے والوں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
خلیل الرحمٰن نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب وہ نیویارک شہر میں 20 ہزار کاپیاں تقسیم کرتے تھے، جب کہ اب بمشکل اردو ٹائمز 5 ہزار افراد پڑھتے ہیں۔
وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اخبارات کی اشاعت میں عالمی سطح پر کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکا بھر کی تمام اردو اخباریں وہاں کی نئی نسل کے لیے بے معنی ہیں، نئی نسل ان سے دور ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جو بچے امریکا میں پیدا ہوئے، یا وہ جو بہت کم عمری میں یہاں منتقل ہوئے، آج وہ اردو میں بات تو کرتے ہیں، مگر وہ اسے پڑھ اور لکھ نہیں پاتے۔
خلیل الرحمٰن کے مطابق یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ دنیا بھر کے تارکین وطن کا مسئلہ ہے، انہوں نے مثال دی کہ پہلے امریکا میں اسپینش زبانی کی کئی اخباریں شائع ہوتی تھیں، مگر اب یہاں کی سب سے بڑی اسپینش زبان کی اخبار بھی بند ہوگئی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ’خود ان کے بچے بھی پاکستانی اخبارات کے بجائے نیو یارک ٹائمز پڑھتے ہیں‘۔
سید سعید نقوی نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ بمشکل کبھی کبھار کوئی نوجوان حلقہ احباب کی محفل میں شرکت کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ نوجوانوں کے لیے یہ پروگرام صرف دکھاوا ہوں، مگر جو نسل یہاں پیدا ہوئی، اسے ان پروگرام میں لازمی شرکت کرنی چاہئیے۔
انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ نیویارک میں بسنے والے ایشیائی افراد اردو میں دلچسپی برقرار رکھیں گے اور اسے امریکا میں اپنی دوسری زبان کے طور پر پیش کریں گے، جب کہ طلبہ اسے دوسری زبان کے طور پر پڑھیں گے۔
سید سعید نقوی نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے بہت سارے نوجوانوں کو عربی چھوڑ کر اردو پڑھنے پر آمادہ کیا، اور انہوں نے نیویارک اور کولمبیا یونیورسٹی میں اردو زبان کے پروگرامات کا بھی ذکر کیا۔
نیویارک یونیورسٹی میں ’اردو‘
فیس بیک پیج ’اردو نیو یارک یونیورسٹی‘ کی وضاحت میں لکھا ہوا ہے کہ’ ہم اردو زبان کی ترویج اور تشہیر کے لیے کام کر رہے ہیں، کیوں کہ اس زبان میں ثقافت اور ادب کی جڑیں ہیں‘۔
اردو کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی نژاد امریکی استاد، ترجمہ نگار اور لکھاری طاہرہ نقوی کی خدمات سے بھی 2002 استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے۔
طاہرہ نقوی نے ڈان کو بتایا کہ جس طرح امریکا بھر میں ’اردو‘ اور ’ہندی‘ زبان کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے، اسی طرح نیویارک یونیورسٹی میں بھی یہی سمجھا جاتا رہا، تاہم نائن الیون حملوں کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کی پروگرام ڈائریکٹر پروفیسر گیبریلا ایلیوا دونوں زبانوں کے لیے علیحدہ پروگرامات کی ضرورت محسوس کرتی ہیں، جس طرح مشرق وسطیٰ اور اسلامی تعلیمات کے سینٹرز علیحدہ ہیں، اسی طرح اردو اور ہندی کے سینٹرز بھی الگ ہونے چاہئیے۔
انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اردو پروگرام کے ذریعے طلبہ میں زبان سے متعلق دلچسپی اور خواہش میں اضافہ ہوگا۔
اردو پروگرام میں اساتذہ اپنے طلبہ کو شاعری اور فکشن سے متعارف کراتے ہیں، اور انہیں سکھانے کے لیے مستند اردو زبان کا مواد استمال کرتے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے طلبہ کو برقع اوینجر کے ذریعے زبان اور پاکستانی معاشرے سے متعلق سمجھانا شروع کیا ہے۔
اس وقت اردو کے ہر سیمسٹر میں 30 طلبہ ہوتے ہیں، اور طاہرہ نقوی طلبہ کی اس تعداد کو بہت ہی زیادہ مانتے ہوئے کہتی ہیں پہلے نیو یارک یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی پروگرام میں اتنے طلبہ نہیں ہوتے تھے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ ان طلبہ میں سے ایک یا 2 طلبہ ایسے ہوتے ہیں، جن کا تعلق اس زبان سے نہیں ہوتا، مگر وہ اردو میں جنوبی ایشیا سے متعلق کسی شعبے میں تحقیق کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ زیادہ تر طلبہ برصغیر کے ہوتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان اور بھارت سے ہوتا ہے۔
طاہرہ نقوی کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں بنگلادیش کے طلبہ نے بھی اردو زبان کے کلاسز میں داخلہ لیا ہے، جنہیں سمجھنے کے لیے مزید سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بنگلادیش کے طلبہ کا پاکستانی اور بھارتی طلبہ کے ساتھ اردو کے علاوہ ہم مذہب ہونے کا بھی رشتہ ہوتا ہے، جب کہ بنگلادیشی طلبہ بولی وڈ فلمیں بھی سمجھ لیتے ہیں، جن میں شامل گانوں اور ڈائلاگز نے برصغیر کو جوڑے رکھا ہوا ہے، جب کہ ایسے طلبہ کے لیے سب سے زیادہ مددگار اردو شاعری ہوتی ہے، جس کا اردو کلاسز میں اہم کردار ہوتا ہے۔
طاہرہ نقوی بتاتی ہیں کہ ایک طالب علم کی جانب سے اردو پڑھنے کا مطلب ایک زبان سیکھنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سفری سہولیات، فیس بک، انٹرنیٹ اور تارکین وطن کی دوسری کمیونٹیز میں ضم ہونے جیسے معاملات نے جنوبی ایشیا کی نئی نسل میں ثقافت اور زبان کی اہمیت کو بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے، اور اس کی بدولت نئی نسل آگے بڑھ کر اپنا مستقبل محفوظ بنانے سمیت اپنی منفرد پہنچان بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
اردو ڈپارٹمنٹ طلبہ کو نئی تحقیقات کی تلاش کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے سمیت کئی دیگر سہولیات بھی فراہم کرتا ہے، جس وجہ سے طاہرہ نقوی کا طلبہ کے ساتھ آج بھی بہتر تعلق ہے۔
حال ہی میں 2014 کی کلاس کے ایک طالب علم نے انہیں لکھا کہ’ وہ خود کو ایک پاکستانی کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن اردو کا کورس یہ تصور دیتا ہے کہ اس طرح کی شناخت کا حقیقی معنوں میں کیا مطلب ہے؟
ایک اور طالب علم نے لکھا کہ’ میں ناقابل یقین حد تک خوش قسمت ہوں کہ میں نے نہ صرف یہاں اردو سیکھی، بلکہ آپ کے ساتھ رہ کر اپنی ثقافت کو بھی گہرائیوں سے پایا‘۔
پروفیسر طاہرہ نقوی نیو یارک یونیورسٹی میں پروگرام منعقد کرانے پر فخر محسوس کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پروگرامات کا آغاز فیض احمد فیض سے کیا گیا، جس کے بعد علامہ ڈاکٹر محمد اقبال، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور خواجہ احمد عباس پر پروگرامات کرائے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک پاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض، صحافی سعید نقوی اور بھارت سے سعیدہ حمید دورہ کرچکی ہیں، جب کہ اب تک انہوں نے صوفی میوزک اینڈ لٹریچر، اردو غزل اور موسیقی میں تعلق، داستان گوئی، مشاعرے، بحث و مباحثے، فیض اینڈ فلمز نامی تقریب میں ’جاگو ہوا سویرا‘ جیسی فلموں کی اسکریننگ کی ہے۔
طاہرہ نقوی نے بتایا کہ ان کے ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پہلی عالمی اردو کانفرنس 2015 میں بلائی گئی، جب کہ رواں برس اکتوبر میں دوسری کانفرنس بلائی جائے گی۔
انہوں نے ’اردو والا‘ کی جانب سے کیے جانے والے کام کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کا اردو کے ساتھ تعلق کا مطلب ہے وہ بہت بڑی تہذیب کے ساتھ ہیں، کیوں کہ اس زبان کے ساتھ شاعری، نثر،تاریخ، فکشن، موسیقی، رقص، روایات، ملبوسات، میلے و پروگرامات، آداب، سیاست اور نہ جانے کیا کچھ جڑا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کے بچوں کو آداب سے محروم کرنا ان کی رائے میں ایک جرم ہے، اور ہم اپنے طور پر امریکا میں اردو اس لیے پڑھا اور بول رہے ہیں، تاکہ اس جرم سے بچا جاسکے۔