پھلوں کا بائیکاٹ اور 10 نکاتی قرارداد
پھلوں کی مہنگائی کے بارے میں سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی مہم اب پاکستان بھر میں پھیل چکی ہے۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے تین دن پھلوں کی مہنگائی کے خلاف بائیکاٹ مہم جاری ہے۔ اس مسئلے کو اب مین اسٹریم ذرائع ابلاغ بھی آواز اٹھانے لگے ہیں۔ بعض لوگ ایک بائیکاٹ کے طور پر اس مہم کے حق میں اور بعض مخالفت میں اپنے اپنے دلائل کے ساتھ میدان میں اتر آئے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ نکات پیش خدمت ہیں:
1: فیکٹریوں میں تیار ہونے والی عام مصنوعات کے برعکس چونکہ پھل زرعی و موسمی پیداوار ہے لہٰذا اس کے قدرتی طور پر پک کر تیار ہونے کے عمل میں پھل کے موسم کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔ جب پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے تو ایک محدود مدت تک ہی قابل خرید و فروخت رہتا ہے۔ ایک قلیل مدت کے بعد یہ سڑ جاتا ہے اور ضائع بھی ہو جاتا ہے، اسے کسان سے لے کر مارکیٹ تک رسائی، اسے محفوظ اور تازہ رکھنے کے لیے اسٹوریج نیز اس کو بیچنے کے لیے اسے کھول کر رکھنا، یہ سب اس کے خراب ہونے کے امکان کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔
2: رمضان المبارک میں پھلوں کا استعمال اور طلب غیر معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے، مگر اس کی پیداوار اور رسد (سپلائی) دونوں میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہوتا، اس وجہ سے رسد کی کمی اور طلب کے اضافے کے باعث قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی مہم پھلوں کے فروخت سے وابستہ لوگوں کے لیے وقت اور حالات کے حساب سے ہی مؤثر بن سکتی ہے۔ شدید گرمی کا موسم اور رمضان المبارک کا مہینہ اور اوپر سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پھلوں کی مہنگائی کے خلاف مہم کا یہ مؤثر ترین وقت شمار کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر عام عوام کا ملک گیر رد عمل اور بغیر کسی سیاسی، لسانی اور مذہبی ایجنڈے اور چھتری کے لوگوں کا اس بائیکاٹ مہم میں حصہ لینا اس سارے عمل کو مزید مؤثر بنا دیتا ہے۔ یعنی پراڈکٹ، وقت، صارف، موسم یہ سب اس مہم کو تقویت دے رہے ہیں۔
3: یہ پہلو اپنی جگہ اہم ہے کہ کسی بھی بڑی تبدیلی یا برائی کے خلاف مزاحمت کے لیے قربانی کا مرحلہ سر کرنا پڑتا ہے۔ لوگ اپنا وقت، توانائی اور وسائل کی قربانی دیتے ہیں تبھی ان کی تحریکیں کامیاب ہوتی ہیں۔ روزمرہ کی خریدو فروخت کے میدان میں چاہے پھر یہ قربانی صارف دے، دیہاڑی دار دے، اڑھتی دے، بیوپاری دے، ریڑھی بان دے یا کسان یا کوئی اور۔ فروٹ کی مہنگائی کے خلاف جاری بائیکاٹ مہم کے نتیجے میں ایک خدشہ یہ ہے کہ اس سے صرف ریڑھی والے متاثر ہوں گے اور اصل منافع خور مافیا کو کچھ فرق نہیں پڑے گا، اگر یہ خدشہ درست نکلا تو یہ غریب طبقے کا استحصال ہی سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر اس بائیکاٹ مہم سے فروٹ مہنگائی کے سب سے بڑے ذمہ دار اڑھتی مافیا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور وہ طلب میں اضافے کو دیکھ کر قیمتیں بڑھانے سے باز آ جائیں اور فروٹ کی نرخیں معمول پر آجائیں تو یہ اس مہم کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
4: اس کا سب سے مؤثر اور کسی خاص طبقے کے لیے کم نقصان دہ لائحہ عمل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ فروٹ کم کھانے کی کوشش کریں اور رسد کے مقابلے میں بڑھتے ہوئی طلب کا دباؤ کو کم کریں۔ جب طلب میں کمی آئے گی تو طلب اور رسد میں توازن اور مارکیٹ میں ٹھہراؤ آئے گا اور قیمت خود بخود نیچے گر جائے گی۔
5: سماجی زندگی میں لین دین ایک ناگزیر عمل ہے۔ لین دین اور معاملات سے ہی مجموعی قومی شعور اور اخلاقی تربیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ مہنگائی، ملاوٹ، دھوکہ دہی سمیت دیگر کاروباری برائیوں اور مسائل کا بنیادی اور مستقل حل تجارتی اخلاقیات کی تعلیم و فروغ اور مارکیٹ مافیا کے خلاف ملکی قوانین کے نفاذ اور قانون کی بالادستی میں مضمر ہے۔ اس کے ساختیاتی اور جڑوں تک پھیلے عوارض کے علاج کے لیے ہمیں ٹھوس اور وسیع بنیادوں پر سوچنا ہوگا۔
6: چونکہ مہنگائی کا تعلق سماجی مسئلے سے ہے لہٰذا معاشرے کا ہر فرد اس سے متعلق ہے۔ چنانچہ ہر ایک کو اپنی آزادانہ رائے دینے کا حق حاصل ہے، سول سائٹی کا کم و بیش ہر ایک بندہ اپنے تئیں ہمدردی سے مثبت ہی سوچ رہا ہوتا ہے مگر ایک الگ انداز کے ساتھ اس لیے اگر کوئی شخص اختلاف رائے رکھتا ہے تو ہمیں اسے ذاتیات کا معاملہ نہیں بنا لینا چاہیے، بلکہ سب کو اختلاف رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ دراصل جتنے زیادہ متحرک اذہاں مل کر حل مختلف تناظر میں سوچنے اور مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے، مسئلہ اتنا ہی واضح تر ہوگا اور اتنے ہی اچھے نتائج بر آمد ہوں گے۔ سماجی مسائل پر ایسی بحث اس لحاظ سے بھی بہت مفید اور مثبت ثابت ہوسکتی ہے کہ یوں ہم اپنے مسائل کے اداراک اور اس کے حل پر مل جل کر باہمی غور و فکر کرنے کی طرف ایک قدم اور آگے بڑھا پائیں گے۔
7: ہر طرح کی مصنوعات کی خرید و فروخت میں سب سے اہم صارفین کی دل چسپی یا ضرورت ہوتی ہے۔ صارفین کی طرف سے مصنوعات میں عدم دلچسپی یا ان کی طرف سے مصنوعات کے خلاف کسی منظم رد عمل کا خوف مارکیٹ میں بہتری کا ایک مؤثر عنصر ہے جو تاجر کی استحصالی سوچ کو روبہ عمل ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جس سے تاجران کو صارفین کے منظم اور شدید رد عمل کا ڈر لگا رہتا ہے اور مارکیٹ میں صنعت کاروں اور بیوپاروں کے درمیان صارفین کے لیے مناسب تر دام میں زیادہ معیاری پراڈکٹس / مصنوعات پیش کرنے کے مقابلے کی فضا پروان چڑھتی ہے۔ لہٰذا یہ مہم پاکستان میں پھلوں کے معیار کو بڑھانے اور قیمتوں کو معمول پر لانے میں بھی ایک بہتر قدم کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔
8: ملک میں صارفین کے حقوق کے بارے میں بیداری مہم کو بھی وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ حقوقِ صارفین سے متعلق قانون سازی اور اس کے نفاذ کا عمل مزید تیز، منظم، مؤثر و شفاف ہو، نیز ان حقوق سے متعلق عوامی آگہی مہم تیز ترکی جائے۔
9: امید ہے کہ اگلے مرحلے میں ہم غیر معیاری اور مضر صحت اشیا، منشیات اور دیگر مصنوعات کی مہنگی یا غیر قانونی خرید و فروخت کے خلاف بڑے مافیا اور صنعت کاروں، بڑے مگرمچھوں کے خلاف بھی آواز اٹھانے کی ہمت کریں گے۔
10: سیاست ہو یا معیشت، سماج ہو یا نظام، سب کا بنیادی تعلق عوام سے ہی ہے۔ مہذب ممالک میں عوامی مہم اور رائے عامہ کو عدالتی فیصلوں سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے، وہاں سیاسی، کاروباری اور دیگر مقتدر طبقات کے احتساب کا عمل عدالتوں تک پہنچنے سے پہلے باشعور عوام اپنی رائے سے ہی کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا اب رائے عامہ کو متاثر اور تبدیل کرنے نیز کسی ایک مہم پر یکسو کرنے میں زبردست حد تک مؤثر اور طاقتور ذریعہ بن کر ابھر رہا ہے جو کہ ایک طرف مین اسٹریم میڈیا کا متبادل ہے دوسری طرف عوام کا حقیقی ترجمان بھی۔