کالعدم تنظیمیں فیس بک پر فعال
یہ ہم سب کی نظروں کے سامنے ہیں اور پاکستان کے 2 کروڑ 50 لاکھ فیس بک صارفین سے صرف ایک سرچ اور ایک کلک کی دوری پر موجود ہوتے ہیں۔
اپریل 2017 میں ڈان کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات حقائق سامنے آئی تھی کہ پاکستان کی 64 کالعدم تنظیموں میں سے 41 فیس بک پر سیکڑوں پیجز، گروپس اور انفرادی پروفائلز کی صورت میں موجود ہیں۔
فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا پر فعال ہیں جبکہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کے علیحدگی پسند تنظیمیں بھی فیس بک پر متحرک ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس تحقیق کے لیے تمام کالعدم تنظیموں کے ناموں کو مختلف ہجے اور مخفف استعمال کرتے ہوئے فیس بک پر سرچ کیا گیا تاکہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے فیس بک پیجز، گروپس اور پروفائلز کو زیادہ سے زیادہ تلاش کیا جا سکے۔
سوشل میڈیا پر اپنے حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی تنظیمیں یہ ہیں:
- اہلِ سنت والجماعت 200 پیجز اور گروپس
- جیے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) 160 پیجز اور گروپس
- سپاہِ صحابہ 148 پیجز اور گروپس
- بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او-اے) 54 پیجز اور گروپس
- سپاہِ محمد 45 پیجز اور گروپس
سرگرمیوں پر قریبی نظر
ان کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والی کچھ انفرادی اکاؤنٹس کھلے عام فرقہ وارانہ اور انتہاپسند نظریات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، ان میں سے کچھ پروفائلز نے کھلے عام ان پیجز اور گروپس میں بھی شمولیت اختیار کر رکھی ہے، جہاں اسلحے کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔
جہاں کچھ فیس بک پیجز اور گروپس ان تنظیموں کے 'آفیشل' پیج ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں، وہیں دیگر پیجز ان تنظیموں کے نظریاتی حامیوں کی جانب سے چلائے جاتے ہیں۔
ان کے فورمز پر شیئر ہونے والا مواد بھی مختلف اقسام کا ہوتا ہے، جن میں تنظیم کا نظریہ بیان کرنے والی ویڈیوز، فوٹوز، ٹیکسٹ وغیرہ شامل ہوتا ہے جبکہ حالیہ واقعات اور سرگرمیوں پر تازہ ترین اطلاعات بھی فراہم کی جا رہی ہوتی ہیں، اسی طرح نرم گوشہ رکھنے والے فیس بک صارفین کو اپنی تنظیموں میں شامل کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہوتی ہیں۔
عام طور پر فیس بک اپ ڈیٹس انگلش کے بجائے اردو یا رومن میں ہوتی ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر مقامی افراد کے لیے ہیں۔ بہت کم تعداد میں یہ پوسٹس سندھی اور بلوچی میں بھی ہوتی ہیں۔
نظریات کا کھلا پرچار
زیادہ تر فیس بک پیجز اپنے موجودہ یا ماضی میں قتل کر دیئے جانے والے رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ کچھ اپنے گرفتار شدہ رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے بھی مہم چلاتے ہیں۔
اپنی فیس بک اپ ڈیٹس میں تمام کالعدم تنظیمیں ریاست کے حوالے سے بات کرتی نظر اتی ہیں یا کشمیر پر توجہ رکھنے والی تنظیموں کے معاملے میں ہندوستان کا تذکرہ ملتا ہے۔ چند کیسز میں ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے پیجز اور گروپس پُرتشدد تصاویر اور ویڈیوز (لاشیں وغیرہ) بھی شیئر کرتی ہیں۔
سب سے زیادہ منظم تنظیموں کے 'آفیشل' میڈیا سیلز فیس بک پر موجود ہیں، جو پریس ریلیز کے ساتھ ساتھ تقریریں آڈیو اور ویڈیو صورت میں شائع کرتی ہیں، اس طرح کے پیجز اور گروپس ان ٹوئٹر اکاؤنٹس، بلاگز اور ویب سائٹس سے لنکس بھی شیئر کرتی ہیں، جو بظاہر ان تنظیموں کے ارکان چلاتے ہیں، ان میں عمومی طور پر ریاست مخالف پروپیگنڈا یا فرقہ وارانہ نفرت انگیز بیانات شامل ہوتے ہیں۔
یہ پیجز کہاں سے چلائے جاتے ہیں؟
اس خبر کے لیے جن پیجز، گروپس اور پروفائلز پر تحقیق کی گئی، ان کی اکثریت بظاہر کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں سے چلائے جاتے ہیں، وہ صارفین جنہوں نے اپنے تعلیمی اداروں کے نام اپنی پروفائلز پر لکھ رکھے ہیں، وہ عمومی طور پر سندھ اور بلوچستان کی بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔
کئی کالعدم تنظیموں کے پیجز اور گروپس کے ناموں کے آگے ان کے شہر کا نام بھی موجود ہوتا ہے، جس سے مقامی لوگوں کو ان تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً بلوچ علیحدگی پسندوں کے کیس میں ڈویژنز کے نام گوادر، خاران، مستونگ، پنجگور وغیرہ تحریر ہوتے ہیں۔
دیگر تنظیمں، جیسے کہ فرقہ وارانہ تنظیمیں علاقائی سطح تک بھی منظم نظر آتی ہیں، مثلاً نارتھ ناظم آباد کراچی، یا انتخابی حلقے کی سطح پر بھی، مثلاً این اے 68 کے نام سے بھی فیس بک پیج نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر تنظیمیں 'اسٹوڈنٹ ونگ' اور 'یوتھ ونگ' کے نام سے بھی سرگرم ہیں۔
چٹان کا صرف ایک سرا
فیس بک پر کام کرنے والے کالعدم تنظیموں کے ان ارکان اور حامیوں کے پاس اپنی گفتگو ہر وقت پبلک سے پرائیوٹ کرنے کا آپشن موجود رہتا ہے۔
کوئی بھی صارف جو ان تنظیموں میں دلچسپی رکھتا ہو یا ان سے تعلق رکھتا ہو، اپنے ہم خیال صارفین سے دوستی کر سکتا ہے، پیج یا گروپ چلانے والوں کو میسج کر سکتا ہے یا ویب سائٹس یا بلاگز کے لنکس پر کلک کر سکتا ہے۔ فیس بک کی دنیا سے باہر رابطہ قائم کرنے کے لیے انہیں بس اپنے عوامی طور پر موجود ای میل ایڈریسز یا مقامی فون نمبرز کا تبادلہ کرنا ہوتا ہے۔
مگر اس تحقیق کے انکشافات تو چٹان کا صرف ایک سرا ہیں، کیوں کہ ایسے کئی پیجز اور گروپس ہیں، جو عوامی طور پر کالعدم تنظیم کا نام استعمال کیے بغیر بھی آپریٹ ہو سکتے ہیں۔ جن پروفائلز کا تجزیہ کیا گیا، ان سے ہٹ کر زیادہ تر فیس بک صارفین اپنے لائیک کیے ہوئے پیجز اور جوائن کیے ہوئے گروپس کی فہرست 'پبلک' نہیں رکھیں گے، جب تک کہ انہیں یہ یقین نہ ہو کہ انہیں سوشل میڈیا کے اس استعمال پر کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
فیس بک پر عسکریت پسندی کا مسئلہ
ڈیلیٹ، بلاک، یا حکام کو معلومات فراہم کر دینا — یہ فیس بک کے وہ بنیادی ردِ عمل ہیں، جب سوشل نیٹ ورک کا استعمال دہشتگردی یا جرائم کے لیے کیا جاتا ہے۔
ویسے تو فیس بک نے پاکستان کے ساتھ کئی کیسز میں ساتھ کام کرنے کا اعتراف کیا، مگر شفافیت کی عدم موجودگی میں ان کیسز کی نوعیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور نہ ہی اس طریقہءِ کار کا جس سے یہ درخواستیں اور معلومات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ معلومات فراہم کرنے کی ایسی درخواستیں سیاست، توہینِ مذہب، جنسی طور پر حراساں کیے جانے وغیرہ سے متعلق ہوں، جبکہ کالعدم تنظیموں کی معلومات حاصل ہی نہ ہوئی ہوں۔
فیس بک کی جانب سے جاری کی گئی 2013 سے 2016 تک کی 'گورنمنٹ ریکوئیسٹ رپورٹ' میں پاکستان کی فیس بک سے معلومات فراہم کرنے کی درخواستوں میں 2015 سے تیزی دیکھی گئی اور جولائی سے دسمبر 2016 کے دوران یہ درخواستیں 1002 کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں۔ 2015 سے لے کر اب تک فیس بک نے ان میں سے 64 سے 68 فیصد درخواستوں پر معلومات فراہم کی ہیں۔
فیس بک کی پالیسی میں تحریر ہے کہ "کسی قانونی درخواست (مثلاً سرچ وارنٹ، عدالتی حکم یا سمن) موصول ہونے پر فیس بک آپ کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، اسے محفوظ کر سکتا ہے یا اسے (متعلقہ حکام سے) شیئر بھی کر سکتا ہے، اگر اسے یہ یقین ہوجائے کہ ایسا کرنا قانونی طور پر لازم ہے۔"
اس کے علاوہ فیس بک دہشت گردی یا منظم جرائم میں ملوث تنظیموں کو اپنی ویب سائٹ پر موجودگی کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
کمپنی ان متنازع اکاؤنٹس اور مواد کو بھی ہٹا دیتی ہے جو "ان تنظیموں کی حمایت کریں، پرتشدد اور مجرمانہ رویوں میں ملوث ہوں، اسی طرح ان تنظیموں کے رہنماؤں کی حمایت اور تعریف یا ان کی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرنے پر بھی پابندی ہے۔"
اس پالیسی کی وجہ سے 2016 میں ہندوستانی حکومت کی جانب سے کشمیر کے نوجوان حریت پسند رہنما برہان مظفر وانی کے مارے جانے کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کریک ڈاؤن پر ہندوستان پر تنقید کرنے والے کئی فیس بک اکاؤنٹس بند کر دیئے گئے تھے۔
کشمیر کا تنازع اس پریشان کن صورتحال کی صرف ایک مثال ہے، جو فیس بک کو اپنے ایک ارب 90 کروڑ صارفین پر نظر رکھنے میں پیش آتی ہے۔ تمام برِاعظموں میں پھیلے سوشل نیٹ ورک کو دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے استعمال کیے جانے سے روکنا اور اس کے علاوہ دہشتگرد تنظیموں کو آزادی کی جائز تنظیموں سے الگ کرنا فیس بک کے سربراہ اور بانی مارک زکربرک کے اپنے الفاظ میں کمپنی کی صلاحیت سے باہر ہے۔
فیس بک پر شیئر کیے گئے اپنے ایک نوٹ میں زکربرگ کا کہنا تھا کہ "گذشتہ سال میں ہم نے جن مسائل کا سامنا کیا ہے، ان کی پیچیدگی اس کمیونٹی کے انتظام کے ہمارے موجودہ طریقہ کار کے بس سے باہر ہیں۔ چنانچہ ہم نے دونوں جانب سیاسی بحثوں میں نفرت انگیزی کی درجہ بندی میں غلطیاں کی ہیں — ان اکاؤنٹس اور مواد کو ہٹایا گیا ہے جنہیں رہنے دینا چاہیے تھا، اور وہ مواد رہنے دیا گیا ہے جو نفرت انگیز تھا اور جسے ہٹایا جانا چاہیے تھا۔ مسائل کی تعداد اور ان کی معاشرتی اہمیت، دونوں ہی میں حال ہی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔"
فیس بک کے بگ تھری
سپاہِ صحابہ پاکستان کے نام سے پہلے کام کرنے والی تنظیم اہلِ سنت و الجماعت کو اپنی سابقہ تنظیم کے قیام کے 10 سال بعد 15 فروری 2012 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ اس تنظیم کو پاکستان میں اہلِ تشیع مخالف جذبات پھیلانے اور اقلیتی گروہوں پر حملوں کے لیے جانا جاتا ہے۔
پابندی کے باوجود یہ تنظیم نفرت اور تشدد پھیلانے میں مبینہ طور پر سرگرم رہی ہے۔ یہ تنظیم ریلیوں اور اجتماعات کے انعقاد کے ذریعے مقامی سیاست میں شامل رہتی ہے تاکہ حامیوں کی تعداد بڑھائی جا سکے اور اپنے ہونے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔
2000 میں شفیع برفت کی جانب سے قائم کی جانے والی جسمم، سندھ کی ایک علیحدگی پسند تنظیم ہے، 15 مارچ 2013 کو اس تنظیم پر ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلقات کے الزام میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ جئے سندھ متحدہ محاذ کو اپنے ذیلی گروہ سندھو دیش لبریشن آرمی کے ذریعے سبوتاژ کی کارروائیوں میں ملوث تصور کیا جاتا ہے۔
کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد واقعات اور سرگرمیوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مانا جاتا ہے کہ تنظیم نے اپنی توجہ صرف طلبہ کو مظاہروں کے لیے بھرتی کرنے پر مرکوز کر لی ہے۔
ستمبر 1985 میں قائم ہونے والی سپاہِ صحابہ کو پاکستان کی سب سے بڑی اور پرانی فرقہ وارانہ تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ اس تنظیم پر ماضی میں کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
جنوری 2002 میں کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد تنظیم نے دو بار اپنا نام تبدیل کیا ، اور فی الوقت یہ اہلِ سنت و الجماعت کے نام سے جانی جاتی ہے۔
فیس بک پر متحرک کالعدم تنظیموں کے بارے میں جاننے کے لیے اگلے ٹیب پر کلک کریں
فیس بک پر 41 کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں نظر آتی ہیں، ان میں سے سوشل میڈیا پر تین بڑی تنظیموں کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے تاہم دیگر زیادہ متحرک تنظیموں کی فہرست یہاں دی جا رہی ہے۔
سپاہِ محمد پاکستان (ایس ایم پی)
- پیجز اور گروپس: 45
- 500 سے زائد ممبران والے پیجز : 2
- 100 سے زائد ممبران والے گروپ: 6
- تنظیم کو 'لائک' کرنے والے صارفین : 27
گو مختلف رپورٹس میں تصاد پایا جاتا ہے تاہم خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ مولانا مرید عباس یزدانی نے 1993 میں سپاہ محمد پاکستان کی بنیاد رکھی۔
اس دہشت گرد تنظیم کا بنیادی مقصد سپاہ صحابہ پاکستان اور لشکرِ جھنگوی کی کارروائی کا جواب دینا تھا۔
لشکر جھنگوی کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے شبہے میں 14 اگست 2001 کو کالعدم قرار دی جانے والی یہ تنظیم مبینہ طور پر کالعدم سنی تنظیموں کے انتہاپسند دھڑوں کی قیادت پر حملے کرنے میں ملوث رہی ہے۔
جیشِ محمد (جے ای ایم)
- پیجز اور گروپس: 34
- 100 سے زائد ممبران والے گروپس: 2
اسامہ بن لادن کے ہمراہ امریکی فوجیوں پر حملوں میں ملوث قرار دی جانے والی یہ تنظیم مسعود اظہر نے 2000 میں قائم کی، جب وہ اغوا کیے گئے بھارتی طیارے کے مغویوں کے بدلے بھارتی قید سے رہا ہوئے۔
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں حملوں کے لیے مشہور اس تنظیم کا واضح مقصد کشمیر کا پاکستان سے اتحاد تھا، تاہم اس تنظیم کے لشکر جھنگوی سے قریبی روابط رہے جبکہ تنظیم کے کارکن اقلیتی برادریوں پر بھی حملے کرتے رہے۔
14 جنوری 2002 کو کشمیر سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کو مقبوضہ کشمیر میں بھیج کر بدنظمی پھیلانے اور پاکستان و بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کو کشیدہ کرنے کی وجہ سے اسے کالعدم قرار دیا گیا بعد ازاں اس تنظیم کی دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ، اب بھی یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ متنازع خطے میں فعال ہے۔
جیش محمد کو 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے، ڈینئل پرل کے اغواٰ اور سابق صدر پرویز مشرف پر کیے جانے والے دو قاتلانہ حملوں کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔
تحریکِ اسلامی
- پیجز اور گروپس: 16
- 500 سے زائد ممبران والے پیجز: 3
- 100 سے زائد ممبران والے گروپس: 1
- تنظیم کو 'لائک' کرنے والے صارفین کی تعداد: 34
1994 میں تحریک اسلامی کی بنیاد رکھی گئی، جس کا منشور پاکستان میں شریعت کا نفاذ اور ملک کو اسلامی ریاست بنانا تھا۔
گوکہ اس تنظیم کو جنوری 2002 میں ریاست مخالف جذبات ابھارنے کی وجہ سے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا تاہم یہ اب بھی سرگرم قرار دی جاتی ہے۔
لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی)
- پیجز اور گروپس: 9
- اس جماعت کے نام پر موجود گروپس: 7
- تنظیم کو لائیک کرنے والے صارفین کی تعداد: 28
حافظ محمد سعید کی جانب سے 1990 میں تشکیل دی گئی اس تنظیم کے آغاز ہی سے اسے بھارتی سرزمین پر متعدد حملوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔
باقاعدہ تشکیل سے قبل یہ تنظیم سویت یونین کے خلاف افغانستان کو بھی مدد فراہم کرتی رہی۔
ممبئی حملوں کا الزام بھی اسی تنظیم پر ہے، اس تنظیم کی دلچسپی ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کو نئی دہلی کی چنگل سے چھڑانے اور برصغیر میں اسلام کا نفاذ ہے۔
14 جنوری 2002 کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت پھیلانے کی وجہ سے کالعدم قرار دی جانے والی یہ تنظیم بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کے بعد بھی آج تک فعال ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)
- پیجز اور گروپس: 8
- 500 سے زائد ممبران والے پیجز: 3
- 100 سے زائد ممبران والے گروپس: 1
- تنظیم کو 'لائیک' کرنے والے صارفین کی تعداد: 39
1964 میں شام میں قائم ہونے والی یہ تنظیم سب سے پرانی اور بلوچستان میں سرگرم ترین عسکریت پسند دھڑا ہے۔
ایرانی انقلاب کے دوران شاہ ایران کے خلاف اسلحہ اٹھانے والی اس تنظیم نے جلد ہی اپنی توجہ پاکستان میں اشتعال پھیلانے پر مرکوز کرلی اور بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ شروع کردیا۔
ریاستی مشینری کو نشانہ بنانے کی وجہ سے ستمبر 2010 میں اس تنظیم کو دیگر بلوچ قوم پرست تنظیموں کے ہمراہ کالعدم قرار دیا گیا، تاہم کالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود بھی ان کی کارروائیوں پر خاص اثر نہیں پڑا۔
یہ تنظیم 11 اپریل 2015 کو فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے خلاف حملوں اور حکومتی فنڈز سے تیار ہونے والے ڈیم پر کام کرنے والے 20 مزدوروں کو قتل کرنے کے حوالے سے سامنے آئی۔
لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے)
- پیجز اور گروپس: 8
- 100 سے زائد ممبران والے گروپس: 1
- تنظیم کو 'لائیک' کرنے والے صارفین: 46
1996 میں قائم ہونے والی لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ پاکستان کی بنیاد پرست شاخ کے طور پر سامنے آئی جس کا بنیادی مقصد فرقہ واریت تھا۔
اس تنظیم کی بنیاد ڈالنے والے رہنما ریاض بسرا تھے جبکہ تنظیم کا نام سپاہ صحابہ پاکستان کے رہنما حق نواز جھنگوی کے نام پر رکھا گیا۔
یہ پہلا عسکریت پسند گروپ ہے جس نے فرقہ وارانہ طور پر افراد، مذہبی اقلیتوں اور سفارت کاروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔
ایک مقابلے میں ریاض بسرا کی ہلاکت کے بعد لشکر جھنگوی ایک سے زائد دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، تاہم یہ تمام دھڑے فرقہ واریت میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ فعال بھی رہے, بعد ازاں اس تنظیم کی بلوچستان میں بھی سرگرمیاں سامنے آئیں۔
امریکی صحافی ڈینئل پیرل کے اغواء اور قتل میں بھی لشکر جھنگوی کو ملوث سمجھا جاتا ہے، جبکہ تنظیم کے بانی رکن ملک اسحٰق لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے میں بھی ملوث تھے۔
حزب التحریر
- پیجز اور گروپس: 7
- 500 سے زائد ممبران والے پیجز: 3
- 100 سے زائد ممبران والے گروپس: 1
- تنظیم کو 'لائیک' کرنے والے صارفین کی تعداد
دنیا بھر میں سرگرم یہ تنظیم مغربی ممالک میں زیادہ فعال ہے، اس کی بنیاد 1953 میں یروشلم میں رکھی گئی، تنظیم کا مقصد تمام مسلم امہ کو بحیثیت اسلامی ریاست متحد کرنا اور شریعت کا نفاذ تھا۔
حزب التحریر نے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز 2000 کے آخر میں کیا اور اس کی کارروائیوں میں تیزی نائن الیون کے بعد اشاعتی ادارے کے قیام کے بعد سامنے آئی۔
تنظیم کا شائع کردہ لٹریچر مسلح افواج کے درمیان بغاوت کو ہوا دینے کے حوالے سے ترغیب دیتا ہے۔
اس تنظیم کا مقصد مبینہ طور پر خلافت کا قیام تھا تاہم 20 نومبر 2003 کو سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس مقصد کا حصول متاثر ہوا۔
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)
- پیجز اور گروپس: 7
- تنظیم کو 'لائیک' کرنے والے صارفین کی تعداد: 75
بلوچستان میں مسلح بغاوت میں اضافے اور صوبے کو علیحدہ کرنے کے مقصد سے اس تنظیم کا قیام 2000 میں عمل میں آیا جو آج تک فعال ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس دھڑے نے 1973 سے 1977 میں آزاد بلوچستان تحریک سے جنم لیا۔
یہ تنظیم بلوچستان میں انتظامیہ اور صوبے سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کے خلاف سلسلہ وار حملے کرچکی ہے، جن میں دسمبر 2005 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دورے کے موقع پر کوہلو کے پیراملٹری کیمپ پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
اسی حملے کے 4 ماہ بعد اپریل 2006 میں ریاستی مشینری پر حملوں اور ریاست مخالف جذبات پھیلانے پر بلوچستان لبریشن آرمی کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
لشکرِ اسلامی
- پیجز اور گروپس: 6
شمالی علاقوں میں بدامنی پھیلانے کی وجہ سے 30 جون 2008 کو کالعدم قرار دی گئی اس تنظیم کا قیام 2004 میں عمل میں آیا تھا، یہ خیبر ایجنسی میں خاص طور پر سرگرم ہے۔
17 مارچ 2016 کو اس دھڑے نے پشاور سیکریٹریٹ جانے والی حکومتی ملازمین کی بس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، یہ تنظیم علاقے میں موجود مخالف دہشت گرد گروہوں سے لڑنے کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے۔
پیپلز امن کمیٹی (لیاری)
- پیجز اور گروپس: 6
- 500 سے زائد ممبران والے پیجز: 2
- 100 سے زائد ممبران والے گروپس: 100
- تنظیم کو 'لائیک' کرنے والے صارفین: 49
10 اکتوبر 2011 کو کالعدم قرار دی جانے والی پیپلز امن کمیٹی (پی اے سی) کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والی عسکریت پسند تنظیم ہے، اس کی بنیاد 2008 میں لیاری کے گینگسٹر رحمٰن ڈکیت نے رکھی، جس کے مبینہ طور پر سیاسی رہنماؤں سے بھی روابط تھے۔
منشیات کی اسمگلنگ اور بھتہ خوری میں ملوث یہ تنظیم مارچ 2011 میں تحلیل ہوئی، اب جبکہ یہ تنظیم غیرفعال ہے پھر بھی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ چند علاقوں میں اس کے آپریشنز جاری ہیں۔
یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے)
- پیجز اور گروپس: 6
- تنظیم کو ’لائیک‘ کرنے والے صارفین: 13
دیگر علیحدگی پسند گروپوں کی طرح مہران مری نے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی قیادت سے اختلافات کے بعد 2000 میں بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کرانے کے لیے یو بی اے کی بنیاد رکھی تھی۔
بی ایل اے سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد ان کی کارروائیوں اور طریقہ کار کو دیگر علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ جاتا رہا، جس میں انھوں نے معصوم شہریوں کو نشان بنایا تھا۔
اس تنظیم کو شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے باعث 15 مارچ 2013 کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اس تنظیم نے 29 مئی 2015 کو ضلع مستونگ میں دو بسوں پر حملے کے دوران 22 غیر مسلح پختونوں کو ہلاک کردیا تھا۔
لشکر بلوچستان (ایل ای بی)
- پیجز اور گروپس: 5
- 500 سے زائد ارکان والے پیجز: 1
- تنظیم کو ’لائیک‘ کرنے والے صارفین: 25
یہ تنظیم 2009 میں جاوید مینگل نے قائم کی تھی، وہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کے بھائی ہیں، اس گروپ نے 2012 میں کراچی، لاہور اور کوئٹہ میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس کے ساتھ ہی یہ منظر عام پر آئی تھی۔
اس تنظیم کو ستمبر 2010 میں کالعدم قرار دیا گیا تھا، جس کے 2 سال بعد انھوں نے مذکورہ حملے کیے تھے، تاہم یہ تنظیم آزاد بلوچستان ریاست کے قیام کے حوالے سے غیر فعال ہے۔
313 بریگیڈ
- پیجز اور گروپس: 4
یہ تنظیم پاکستان میں القاعدہ کا مسلح گروپ تصور کیا جاتا رہا ہے، جس میں مقامی جہادی گروپوں لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی اور جیش محمد کے جنگجو شامل ہوئے، جن کا مقصد اسلامی ریاست کا قیام ہے۔
اس تنظیم کی بنیاد 2008 میں رکھی گئی تھی، 313 بریگیڈ متعدد بڑے حملوں اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ہے، جس کا مقصد ان کی موجودگی ظاہر کرنا تھا۔
اس تنظیم نے 2003 میں سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے اور 2011 میں کراچی نیول بیس پر حملے میں ملوث ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔
اس تنظیم کو پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر 15 مارچ 2013 کو کالعدم قرار دیا گیا، یہ تنظیم تاحال پاکستان اور جنگ زدہ علاقے شام میں سرگرم ہے۔
بلوچستان ریپبلکن آرمی (بی آر اے)
- پیجز اور گروپس: 3
- 500 سے زائد ارکان والے پیجز: 1
- تنظیم کو ’لائیک‘ کرنے والے صارفین: 44
اس تنظیم کو بلوچ علیحدگی پسندوں کی امداد کرنے پر 8 ستمبر 2010 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا، تنظیم کا اصل مقصد صوبہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا ہے۔
مبینہ طور پر حکومت کی جانب سے بلوچستان کے قدرتی ذخائر پر بڑھتے ہوئے کنٹرول کے خلاف شروع ہونے والے تنازع کے بعد بگٹی قبائل اور نوجوان رضاکاروں پر مشتمل یہ گروپ 2006 میں تشکیل دیا گیا تھا۔
یہ تنظیم اکبر بگٹی کے پوتے براہمداخ بگٹی کی قیادت میں تاحال سرگرم ہے۔
یہ تنظیم صوبے میں غیرملکی ورکرز اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہے، اس تنظیم نے 2011 میں فوج کے زیر انتظام کام کرنے والے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے کیمپ پر حملہ کیا تھا، جس میں 11 افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے تھے۔
ملت اسلامیہ پاکستان (سابق ایس ایس پی)
- پیجز اور گروپس: 3
- مذکورہ نام سے چلنے والے گروپس: 2
سپاہ صحابہ پاکستان کو 2002 میں کالعدم قرار دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں ںے اپنا نام تبدیل کرکے ملت اسلامیہ پاکستان رکھ لیا, اس نئی تنظیم کو بھی 15 نومبر 2003 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
تحریک طالبان سوات (ٹی ٹی ایس)
- پیجز اور گروپس: 3
خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں کام کرنے والے ٹی ٹی پی کے عسکری ڈویژن، ٹی ٹی ایس کو 15 مارچ 2013 میں دہشت گردی کو فروغ دینے پر کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
تحریک فقہ جعفریہ پاکستان (ٹی جے پی)
- پیجز اور گروپس: 2
- 100 سے زائد ارکان پر مشتمل گروپس: 1 تنظیم کو ’لائیک‘ کرنے والے صارفین: 25
اس تنظیم کا اصل نام تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (ٹی این ایف جے) ہے، جسے تقسیم کے بعد ٹی جے پی میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
اس تنظیم کے قیام کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں، لیکن یہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ یہ تنظیم انقلاب ایران کے باعث قائم ہوئی، جس کا مقصد پاکستان میں اپنے نظریات کی ترویج اور خیالات کا پرچار کرنا تھا۔
اس تنظیم کو دیگر عسکریت پسند گروپوں کے ہمراہ جنوری 2002 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
القاعدہ
- پیجز اور گروپس: 1
اس تنظیم کی بنیاد اگست 1988 میں اسامہ بن لادن نے رکھی تھی، یہ تنظیم عالمی طور پر اپنے خوفناک اور پُرتشدد حملوں کے لیے جانی جاتی ہے۔
اس تنظیم پر 11 ستمبر 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا الزام ہے، اس کے علاوہ ان پر 20 ستمبر 2008 میں پاکستان میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر حملے کا الزام بھی ہے۔
اس تنظیم کے مقاصد میں اسرائیل کو تباہ کرنا اور اسلامی ممالک میں مغرب کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا شامل ہے، تاکہ اسلامی خلافت قائم کی جاسکے۔
اس تنظیم کو ان کی دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے 17 مارچ 2003 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا، مقامی طور پر یہ تنظیم القاعدہ برصغیر کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔
بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ (بی ایل یو ایف)
- تنظیم کو ’لائیک‘ کرنے والے صارفین: 91
یہ تنظیم فروری 2009 میں اُس وقت منظر عام پر آئی جب اس ںے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے ایک رضاکار جان سولیسکی کو کوئٹہ سے اغوا کیا تھا۔
دو ماہ بعد اس تنظیم نے اسے بغیر کسی مطالبے کے رہا کردیا تھا تاہم بعد ازاں اس ںے بلوچستان کے وزیر تعلیم کی ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس تنظیم کو 8 ستمبر 2010 میں کالعدم قرار دیا گیا تھا، کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد بھی اس تنظیم نے متعدد حملے کیے اور تاحال سرگرم ہے، اس تنظیم کا مقصد پاکستان سے علیحدہ ریاست کا قیام ہے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)
- تنظیم کو ’لائیک‘ کرنے والے صارفین: 64
یہ تنظیم 13 دسمبر 2007 میں قائم کی گئی تھی جو پاکستان میں انتہائی پرتشدد اور بڑے حملوں کی ذمہ دار ہے۔ اس تنظیم کو متعدد دہشت گردی کے حملوں کے باعث 25 اگست 2008 میں کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کے مقاصد میں شرعی قوانین کا نفاذ شامل ہے، اس تنظیم کے جنگجو افغانستان میں نیٹو فورسز سے جنگ اور پاک فوج اور ریاست کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں، جس کے لیے انھوں نے متعدد بڑے حملے بھی کیے ہیں۔
ان حملوں میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں 144 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 132 بچے بھی شامل تھے۔
فوجی آپریشنز کے باوجود یہ دہشت گرد تنظیم مقامی طور پر تاحال سرگرم قرار دی جاتی ہے۔
اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو)
- تنظیم کو ’لائیک‘ کرنے والے صارفین: 43
یہ تنظیم 1998 میں ازبکستان کے صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے بنائی گئی تھی جس کا مقصد شرعی قوانین کا نفاذ تھا۔ اس تنظیم کے بیس کیمپ افغانستان اور تاجکستان کے شمالی علاقوں میں حملوں کیلئے قائم کیے گئے تھے لیکن افغانستان میں امریکی آپریشن کے دوران تنظیم کے جنگجو پاکستان کے شمالی علاقوں کی جانب فرار ہوئے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے کے بعد اس تنظیم نے پاکستانی فورسز پر ٹی ٹی پی کی مدد کے ساتھ حملے کیے جس میں اپریل 2012 میں ہونے والا بنوں جیل پر حملہ بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں 400 قیدی فرار ہوگئےتھے۔
اس تنظیم پر پشاور ایئرپورٹ پر حملے کے بعد مارچ 2013 میں پابندی عائد کی گئی تھی، لیکن پابندی کے باوجود مذکورہ تنظیم نے کراچی کے جناح ایئر پورٹ پر حملہ کیا تھا۔
انصار الاسلام (اے آئی)
- پیجز اور گروپس: 2
- صارفین جنھوں نے تنظیم کو 'لائیک' کیا: 48
2004 میں افغان صوفی پیر سیف الرحمٰن کے ہاتھوں سنی بریلوی نظریات کے تحت قائم کی یہ تنظیم خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں فعال ہے، اس تنظیم پر جون 2008 میں پابندی عائد کردی گئی تھی
جماعت الانصار
- پیجز اور گروپس: 2
1993 میں حرکت المجاہدین اور حرکت الجہاد اسلامی نے ایک تنظیم بنائی، تاہم 1991 میں تنظیم ٹوٹنے کے بعد یہ جماعت الانصار کے نام سے واپس آئے اور اپنی توجہ کشمیر کی جانب مبذول کی، ان کا بنیادی مقصد ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق تھا، تاہم انھوں نے فرقہ وارانہ گروپوں کے ساتھ بھی کام کیا۔
20 نومبر 2003 کو اس تنظیم پر پابندی عائد کردی گئی، اس تنظیم پر امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغواء اور قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا، تاہم پابندی کے باوجود بھی یہ تنظیم فعال رہی۔
شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، گلگت
- پیجز اور گروپس: 1
- 100 لوگوں سے زائد پر مشتمل گروپ: 1
گلگت کی اس تنظیم پر 10 اکتوبر 2011 میں پابندی عائد کردی گئی۔
بلوچستان یونائیٹڈ آرمی
- پیجز اور گروپس: 1
اس تنظیم پر 4 اگست 2012 میں پابندی عائد کی گئی۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر (حاجی نامدار گروپ)
- پیجز اور گروپس: 1
حاجی نامدار گروپ کی جانب سے تشکیل دیئے گئے اس گروپ کو پشاور میں حملوں میں ملوث مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کو پناہ فراہم کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اس تنظیم پر مارچ 2013 میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو ممکن بنانے اور معاونت کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔
تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم)
- صارفین جنھوں نے تنظیم کو 'لائیک' کیا: 43
یہ تنظیم 1992 میں قائم کی گئی، جس کا مقصد شرعی قوانین کا نفاذ اور پاکستان کو وہابی اسلامی ریاست بنانا تھا، 14 جنوری 2002 کو پابندی عائد کیے جانے کے باوجود بھی یہ تنظیم فعال رہی اور افغانستان میں طالبان کی معاونت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی رہی۔
فروری 2009 میں اس تنظیم نے سوات کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا، جس کے نتیجے میں اسی برس مئی میں سوات میں فوجی آپریشن کیا گیا، جس کے 2 ماہ بعد ایک جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا۔
اسلامک جہاد یونین (آئی جے یو)
- صارفین جنھوں نے تنظیم کو 'لائیک' کیا: 40
اس تنظیم کا گڑھ افغان سرحد کے ساتھ کا علاقہ فاٹا میں ہے، جسے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے جنگجوؤں نے تشکیل دیا اور ازبکستان میں اسلامک اسٹیٹ کے قیام کی غرض سے پاکستان کو اپنا بیس بناکر کارروائیوں کا آغاز کیا۔
اس تنظیم نے مقامی دہشت گرد تنظیموں جیسے کے تحریک طالبان پاکستان کی بھی معاونت کی۔
اگرچہ اس تنظیم کو 15 مارچ 2013 کو مقامی دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کرنے پر کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، تاہم کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں یہ تنظیم اب بھی موجود ہے اور نئے جنگجوؤں کو بھرتی اور ان کی تربیت کا کام سرانجام دے رہی ہے۔
داعش
- صارفین جنھوں نے تنظیم کو 'لائیک' کیا: 38
داعش پر 15 جولائی 2015 کو پابندی عائد کی گئی، یہ عالمی دہشت گرد تنظیم پاکستان میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتی رہی ہے، جس کا ثبوت دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں، حال ہی میں سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر بھی اسی تنظیم نے دھماکا کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جس کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اپریل 2013 میں سامنے آنے والی اس جماعت پر اُس وقت پابندی عائد کردی گئی، جب اس نے افغانستان اور پاکستان میں 'صوبہ خراسان' بنانے کا اعلان کیا تھا۔
جماعت الاحرار (جے یو اے)
- صارفین جنھوں نے تنظیم کو 'لائیک' کیا: 33
دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) کی حامی اس تنظیم پر 11 نومبر 2016 کو پابندی عائد کی گئی، اس تنظیم نے 2014 سے 2016 کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیاں کیں، جن میں مارچ 2016 میں ایسٹر کے موقع پر مسیحی برادری پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے، جس میں 70 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
اگست 2014 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والی جماعت الاحرار کالعدم قرار دیئے جانے کے باوجود بھی فعال ہے، جس کا ثبوت 21 مارچ 2017 کو پاراچنار میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ ہے، جس کے نتیجے میں 24 افراد ہلاک اور 68 زخمی ہوگئے تھے۔
اسلامی تحریک پاکستان (سابقہ ٹی جے پی)
- صارفین جنھوں نے تنظیم کو 'لائیک' کیا: 27
اس تنظیم پر 15 نومبر 2003 میں پابندی عائد کی گئی، یہ تنظیم اس سے قبل تحریک جعفریہ پاکستان (ٹی جے پی) کے نام سے جانی جاتی تھی، جس پر ایک سال قبل ہی پابندی عائد کی گئی تھی۔
خدام الاسلام (سابقہ جیش محمد)
- صارفین جنھوں نے تنظیم کو ' لائیک' کیا: 230
نومبر 2003 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں اس تنظیم پر پابندی عائد کی گئی، جو ابتدائی طور پر جیش محمد کے نام سے جانی جاتی تھی، جسے 2002 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ اس تحقیق کو کیسے انجام دیا گیا، طریقہ کار کے ٹیب پر کلک کریں
فیس بک سرچ کا استعمال کرتے ہوئے تمام کالعدم تنظیموں کے ناموں — بشمول مخفف اور ہجوں کی تبدیلی کے — کو اپریل 2017 میں تین حصوں میں سرچ کیا گیا۔
1: فیس بک پیجز
2: فیس بک گروپس
3: فیس بک پروفائلز
پیجز اور گروپس
وہ تمام پیجز اور گروپس جن میں کسی کالعدم تنظیم کا نام شامل تھا، اس تحقیق میں شامل کیے گئے تھے، مگر ان پیجز اور گروپس کو چھوڑ دیا گیا تھا جنہوں نے تنظیم کا نام تو استعمال کیا تھا، مگر مخالفت میں، مثلاً "ہمیں فلاں فلاں تنظیم سے نفرت ہے"۔
بین الاقوامی تنظیموں کے لیے پیج یا گروپ کے نام میں 'پاکستان' کا اضافہ کیا گیا۔ جیسے 'بین الاقوامی تنظیم پاکستان' کو شاملِ تحقیق کیا گیا، مگر 'بین الاقوامی تنظیم' کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہ اس لیے ضروری تھا تاکہ تحقیق میں مقامی اثر برقرار رہے۔
ہر پیج اور گروپ کے لائیکس کی تعداد یا ممبران کی تعداد، اپریل میں ان کی پوسٹس؛ ماضی میں شیئر کیے گئے مواد؛ اور 'اباؤٹ' سیکشن میں دی گئی تفصیلات کا تجزیہ کیا گیا۔
فیس بک گروپس پبلک ہو سکتے ہیں، کلوزڈ ہو سکتے ہیں (ممبرز نظر آئیں مگر مواد خفیہ ہو)، یا سیکریٹ ہو سکتے ہیں، جس صورت میں وہ گروپ نہ فیس بک پر سرچ کیا جا سکتا ہے نہ ہی اس تک پہنچا جا سکتا ہے اور صرف گروپ ایڈمن سے جان پہچان ہونے پر ہی گروپ کا حصہ بنا جا سکتا ہے۔
چنانچہ ڈان کی تحقیق صرف پبلک اور کلوزڈ گروپس تک محدود تھی۔ سیکریٹ گروپس اور وہ پیجز و گروپس جو کالعدم تنظیموں سے اپنا تعلق چھپانے کے لیے دیگر ناموں کا استعمال کرتے ہیں اس رپورٹ میں دیئے گئے اعداد وشمار سے کہیں زیادہ تعداد میں موجود ہو سکتے ہیں۔
پروفائلز
صرف ان افراد کی پروفائلز کو شاملِ تحقیق کیا گیا جنہوں نے کسی کالعدم تنظیم کو لائیک کیا ہوا تھا اور جن کی معلومات 'پبلک' تھیں۔ چنانچہ کئی ایسے فیس بک صارفین، جنہوں نے اپنی پوسٹس کو اپنی فرینڈز لسٹ کے علاوہ کسی سے شیئر نہیں کیا، انہیں شاملِ تحقیق نہیں کیا گیا۔ حقیقت میں ایسے صارفین کی تعداد بہت زیادہ ہوگی کیوں کہ شاملِ تحقیق پیجز اور گروپس میں ارکان کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی مدِنظر رکھی گئی کہ کچھ صارفین نے کسی کالعدم تنظیم کا پیج کسی نظریاتی وابستگی یا حمایت کے بجائے کسی دیگر دلچسپی کی وجہ سے لائیک کیا ہو، صارفین کی پروفائلز کو شاملِ تحقیق کرنے سے پہلے ان کی عوامی طور پر دستیاب معلومات یعنی پوسٹس، لائیکس، گروپس اور 'اباؤٹ' سیکشن میں موجود معلومات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔