وائٹ کالر جرائم: ملزمان کیلئے عمر قید کی سزا مسترد
اسلام آباد: قومی احتساب قانون کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی نے وائٹ کالر جرائم میں ملوث ملزمان کو عمر قید کی سزا دینے کی تجویز مسترد کردی۔
قومی احتساب بیورو کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے ہونے والے نویں اجلاس کی صدارات کمیٹی کے چیئرمین اور وزیر قانون زاہد حامد نے کی، اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل دیگر معاملات کے ساتھ قومی احتساب (ترمیمی) بل 2017 پیش کیا۔
عالیہ کامران کی جانب سے پیش کردہ بل میں تجویز دی گئی تھی کہ کرپشن میں ملوث ملزمان کو 7 سے 14 سال قید کے بجائے عمر قید کی سزا دی جانی چاہیے۔
کمیٹی کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بند کمرہ اجلاس کے بعد ڈان کو بتایا کہ ’کمیٹی کے بیشتر ارکان کا ماننا تھا کہ کرپشن کیسز میں گرفتار ہونے والے افراد کو عمر قید کی سزا دینا ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی‘۔
انھوں نے کہا کہ کمیٹی کے کچھ ارکان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جو مذکورہ بل میں تجویز کیے گئے تھے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی کی جانب سے عام تاثر پیش کیا گیا کہ کرپشن کے مقدمات میں کسی کو بھی رعایت نہیں دی جائے گی لیکن دوسری جانب قانون کو سخت گیر نہیں ہونا چاہیے‘۔
حالیہ اجلاس میں کمیٹی کے ساتویں اجلاس میں کیے گئے فیصلے کی منظوری بھی دی گئی، جس میں احتساب بیورو کی 3 شقوں 19 ،20 اور 21 شامل ہیں، یہ شقیں کریشن پر سزا، نااہلی، رضاکارانہ واپسی اور احتساب بل سے متعلق جرائم کے حوالے سے ہیں۔
اس کے علاوہ اجلاس میں اس پر بات پر بھی رضامندی کا اظہار کیا گیا کہ کرپشن کا جرم ثابت ہونے پر ملزم کو کم سے کم 7 سال قید جبکہ زیادہ سے زیادہ 14 سال قید کی سزا دی جائے گی۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کرپشن میں ملوث پایا گیا تو اس پر ہمیشہ کیلئے سرکاری عہدہ نہ رکھنے کی پابندی لگا دی جائے گی اس کے باوجود کہ وہ رضاکارانہ طور پر رقم واپس کردے۔
اجلاس میں فوجی جنرلز اور ججز کو مذکورہ مجوزہ قانون کے تحت قومی احتساب بیورو (نیب) کو تبدیل کرکے قومی احتساب کمیشن کے دائرہ میں لانے پر بھی بات ہوئی۔
یہ بات سامنے آئی کہ طاقت ور اداروں کو نئے قانون کے دائرہ کار میں لانے کے حوالے سے کمیٹی بہت زیادہ دباؤ کا سامنا تھا۔
خیال رہے کہ موجودہ قومی احتساب آرڈیننس فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 1999 میں نافذ کیا تھا، جس کا مقصد سرکاری عہدیداروں، سول سرونٹس، سیاستدانوں اور شہریوں کو اس قانون کے تحت سزائیں دینا تھا لیکن اس میں فوجی افسران اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز شامل نہیں تھے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’فوجی جنرلز اور ججز کو احتساب قانون کے دائرہ کار میں لانے کے حوالے سے اجلاس میں تفصیلی بات چیت کی گئی‘۔
اس سے قبل چیئرمین کمیٹی زاہد حامد نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ کمیٹی نے اپنا بیشتر کام مکمل کرلیا ہے اور کچھ متنازع معاملات تاحال حل کیے جانے ہیں۔
تاہم انھوں نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ کمیٹی اپنا ٹاسک، جو احتساب قانون میں تبدیلی سے متعلق ہے، اسے جلد مکمل کرلے گی۔
یہ رپورٹ 30 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں