• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد

شائع May 29, 2017

اسلام آباد: پاناما تحقیقات کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست کو سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ حسین نواز نے ای میل کے ذریعے رجسٹرار سپریم کورٹ کو عدالت کے حکم پر پاناما لیکس کی مزید تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے ممبران بلال رسول اور عامر عزیز پر اعتراض اٹھایا تھا۔

حسین نواز کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان دونوں ممبران کا رویہ ایسا نہیں کہ وہ جے آئی ٹی کے ممبران رہیں۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جے آئی ٹی پر اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا۔

حسین نواز کی جانب سے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے، کمرہ عدالت میں دانیال عزیز، طلال چوہدری، نعیم الحق اور دیگر سیاسی رہنماء موجود تھے۔

حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے تحریری اعتراضات کے ساتھ طارق شفیع کا تین صفحات پر مشتمل بیان حلفی بھی عدالت میں پیش کیا جس کے مطابق جے آئی ٹی کے دو ارکان انہیں تفتیش کے دوران مسلسل جھوٹا قرار دیتے رہے۔

طارق شفیع کے مطابق تفتیشی ٹیم نے ان سے سوال کیا کہ وہ مدینہ سے اتنے کم وقت میں آگ سے کھیلنے کے لیے پاکستان کیوں آ گئے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے طارق شفیع کو تین گھنٹے بٹھایا اور انہیں ہراساں کیا گیا۔

خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول کے حوالے سے کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ تحریک انصاف کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں جبکہ جے آئی ٹی میں شامل ایک اور رکن عامرعزیز صدر پرویز مشرف کے دور میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے سربراہ تھے، جن کی جانب سے اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لینا شفاف تحقیقات کے تقاضوں کو مجروح کرے گا۔

خواجہ حارث کے مطابق طارق شفیع کو بیان حلفی واپس نہ لینے پر جیل میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ جے آئی ٹی کی جانب سے شفاف تحقیقات کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں ممبران کو تبدیل کیا جائے۔

عدالت نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے بینچ نے اٹارنی جنرل کی ضمانت پر سعید احمد کو کل تک پیش ہونے کی مہلت دے دی، عدالت کا کہنا تھا کہ ’سعید احمد کل تک پیش ہوں‘۔

مزید پڑھیں: پاناما تحقیقات: حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وقت محدود ہے جو وقت ضائع کرے اس پر احکامات جاری کئے جائیں، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پہلی صورت میں قابل ضمانت اور بعد ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں۔

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ قطری شہزادے حامد جاسم اور کاشف مسعود قاضی بھی جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہو رہے، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کاشف مسعود قاضی کیوں حاضر نہیں ہوتے عدالت ان کے خلاف آرڈر جاری کرسکتی ہے۔

سربراہ جے آئی ٹی واجد ضیاء نے بتایا کہ کاشف مسعود قاضی کو پاکستان میں سیکورٹی کے ایشوز ہیں، قطری شہزادے حامد بن جاسم کو بھی طلب کیا ہے وہ بھی پیش نہیں ہوئے، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر وہ پیش ہوتے ہیں تو ٹھیک ہے ہم ان کے خط کو ردی کی نظر کردیں گے۔

حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان کا رویہ توہین آمیز ہے۔

اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ تحفظات ہیں تو آپ انتظامات کریں، طارق شفیع کو کسی دعوت پر نہیں تفتیش کے لیے بلایا گیا تھا، ان دو افراد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے جو وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کے ماہر ہیں۔

دلائل سننے کے بعد جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنا کام جاری رکھے، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر شخص کو عزت و تکریم دی جائے، وزیراعظم ہو یا عام شہری کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

جے آئی ٹی افسران پر حسین نواز کا اعتراض

رواں ہفتے کے آغاز میں وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بیٹے حسین نواز کے حوالے سے بتایا جارہا تھا کہ انھوں نے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ حسین نواز نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ حکمران خاندان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے چھ افسران کو خود کو جے آئی ٹی سے علیحدہ کرلیں۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی نے شریف خاندان کو سوال نامہ بھیج دیا

ذرائع کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں شامل ایک افسر سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کے قریبی دوست ہیں اور وہ اِس وقت انتہائی سرگرم تھے جب خصوصی عدالت میں غداری کیس کی سماعت جاری تھی۔ اس کے علاوہ ٹیم کے ایک رکن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجاب کے سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے رشتہ دار ہیں، جو پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے بانی ہیں جو اس وقت پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) افسر امیر عزیز اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال رسول وہ دو افسران ہیں جن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔

پاناما کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024