بھارتی شہری عظمیٰ براستہ واہگہ وطن روانہ
لاہور: پاکستانی شہری سے شادی کے لیے پاکستان آنے والی بھارتی شہری عظمیٰ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اجازت کے بعد واہگہ بارڈر کے راستے بھارت واپس چلی گئی۔
عظمیٰ کے بھارت واپس پہنچنے پر ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اسے خوش آمدید کہا اور یہ بھی کہا کہ اتنے عرصے کے دوران اسے جو مشکلات جھیلنی پڑیں اس پر وہ معذرت خواہ ہیں۔
عظمیٰ کو بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ نے اسلام آباد سے رخصت کیا اور اسے سخت سیکیورٹی میں واہگہ بارڈر لایا گیا جہاں سے وہ بھارت روانہ ہوگئی۔
بھارتی حدود میں پہنچتے ہی عظمیٰ نے جھک کر زمین کو چھوا۔
بھارتی وزیر خارجہ پاکستان کی شکر گزار
بعد ازاں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ’بھارت میں خاص طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان بہت اچھا ہے لیکن ایسا نہیں ہے اور وہاں خواتین کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔‘
بھارتی میڈیا کے مطابق ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ’بونیر میں جس جگہ میں تھی وہاں مجھ جیسی اور بہت سی لڑکیاں تھیں جس کے ساتھ برا سلوک کیا جارہا تھا، وہ سب بھارتی نہیں تھیں اور شائد ان میں سے کچھ کا فلپائن اور ملائشیا سے تعلق تھا۔‘
اس موقع پر بھارتی وزیر خارجہ نے ڈاکٹر عظمیٰ کو ’بھارت کی بیٹی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’عظمیٰ کو بھارت واپس بھیجنے میں پاکستانی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے انسانی بنیادوں پر ہماری بہت مدد کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بیرسٹر شاہ نواز نون نے عظمیٰ کا کیس بالکل اپنی بیٹی کی طرح لڑا اور جسٹس کیانی نے کیس کا فیصلہ موجودہ پاک ۔ بھارت تعلقات کے بجائے حقائق اور انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جس کے لیے وہ ان کی شکر گزار ہیں۔
عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارت واپس جانے کی درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس کی بیٹی تھیلیسیمیا کی مریضہ ہے اور اسے اپنی بیٹی کی تیمارداری کے لیے واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے گذشتہ روز بھارتی خاتون کو واپس جانے کی اجازت دے دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی شہری عظمیٰ کو واپس جانے کی اجازت مل گئی
بھارتی خاتون عظمیٰ یکم مئی کو واہگہ کے راستے ہی پاکستان آئی تھی۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی شہری عظمیٰ کو وطن واپس جانے کی اجازت دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ اپنے شوہر طاہر علی سے بات نہیں کرنا چاہتی تو عدالت زبردستی نہیں کرے گی۔
بھارتی خاتون عظمیٰ نے 3 مئی کو بونیر کے رہائشی طاہر علی سے شادی کی اور پھر 5 مئی کو اسلام آباد میں موجود بھارتی ہائی کمیشن گئی جہاں اس نے پناہ لے لی تھی اور وطن واپس جانے کی درخواست کی تھی۔
عظمیٰ نے بھارتی ہائی کمیشن میں پناہ لینے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ شادی کے بعد اسے معلوم ہوا کہ طاہر علی پہلے سے شادی شدہ ہے جبکہ اس کے چار بچے بھی ہیں، اس کے علاوہ عظمیٰ نے گن پوائنٹ پر شادی، جسمانی، ذہنی، جنسی تشدد اور دستاویز چھینے جانے کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔
ویڈیو دیکھیں: بھارتی شہری عظمیٰ کا ایک اور جھوٹ سامنے آگیا
تاہم طاہر نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ عظمیٰ کو شادی سے قبل ہی معلوم تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ بعد ازاں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ عظمیٰ خود بھی طلاق یافتہ ہے اور اس کی ایک بچی بھی ہے۔
19 مئی کو عظمیٰ نے طاہر علی سے شادی سے متعلق اپنا موقف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا تھا۔
چھ صفحات پر مشتمل جواب بیرسٹر شاہنواز کے ذریعے جمع کرایا گیا جبکہ بھارتی ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکریٹری پیوش سنگھ جواب جمع کراتے وقت وہاں موجود تھے۔
عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں طاہر علی کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے عظمیٰ کا کہنا تھا کہ نکاح نامے پر ان کے زبردستی دستخط کرائے گئے، جبکہ درخواست گزار طاہر کا حلف نامہ جھوٹ پر مبنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی شہری عظمیٰ کا ’گن پوائنٹ‘ پر شادی کرانے کا الزام
جواب میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عظمیٰ کے ویزے کی مدت 30 مئی کو ختم ہو رہی ہے، اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ اسے بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔
دوسری جانب گزشتہ روز طاہر علی کے وکیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے آڈر کیا ہے کہ عظمٰي بھارت جا سکتی ہے لیکن کہیں بھی نہیں کہا کہ یہ نکاح نامہ جعلی ہے،ہم کیس کو مزید آگے چلانا چاہتے ہیں۔