• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm

ماسٹر پلان کہاں ہے؟

شائع July 6, 2013

پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان، پرویز خٹک سے گفتگو کرتے ہوئے۔ رائٹرز تصویر
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان، وزیر اعلیٰ  خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے گفتگو کرتے ہوئے -- رائٹرز تصویر

پرویز خٹک، جنہوں نے خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ کا عہدہ، سنہ 2013 میں مئی کے آخر میں سنبھالا، اقتدار کی کرسی پر نوآموز نہیں ہیں- وہ کئی دہائیوں سے سیاست کا حصّہ رہے ہیں اور کئی موقعوں پر، ایک اہم وزارت سے دوسری اہم وزارت پر فائز بھی رہے ہیں، بشمول صنعت اور آب پاشی-

ہو سکتا ہے لوگ یہ بھول جائیں یا معاف کر دیں کہ پرویز خٹک نے ماضی میں کیا کارکردگی دکھائی ہے؟ جیسا کہ انہیں حالیہ انتخابات میں قومی اور صوبائی اسسمبلیوں میں واپس بلا کر کیا گیا ہے، لیکن وہ کبھی بھی نہ بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے کہ وہ اپنی موجودہ چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کیا کچھ کرتے ہیں؟

ان کی مبالغہ آمیزی کو دیکھتے ہوئے، جسے پرویز خٹک اپنے سب سے طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے نظر آرہے ہیں، ایک انسان ان سے اور اس پارٹی سے فقط ہمدردی ہی کر سکتا ہے، جسے انہوں نے اپنے ازسرنو آغاز کے لئے منتخب کیا ہے-

وزیراعلیٰ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد، پرویز خٹک نے نوے دن کے اندر تبدیلی لانے کے عزم کے ساتھ کمر کس لی- تب سے اب تک 29 دن سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، اور وعدہ کی گئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی- 26 جون کو، ایک کمزور، ساٹھ سالہ وزیراعلیٰ ایک لمبی سی میز کے آخری سرے پر اپنے دائیں اور بائیں سرکاری افسران کی ایک لمبی قطار کے ساتھ بیٹھے نظر آۓ- وہ ایک ایسی میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے جس کے آخر میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ میٹنگ میں شریک تمام افسران، مخدوش شہر پشاور میں بہتری لانے کے لئے ایک نیا ماسٹر پلان تشکیل دیں گے-

اب یہاں ایک چیز ہے جسے تبدیل ہو جانا چاہیے- شاید میٹنگ میں موجود کسی بھی افسر نے نۓ وزیراعلیٰ کو اس ماضی میں بناۓ گۓ بیشمار ماسٹر پلانوں کے بارے میں نہیں بتایا جو اب پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پلاننگ اور ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی خستہ، رستی ہوئی دیواروں پر آویزاں، توجہ کی طلبگار ہیں- انہوں نے بڑی ہٹ دھرمی کے ساتھ دوسروں پر ذمہ داری عائد کرنے کو نظر انداز کر دیا مبادہ کہیں رخ انکی طرف نہ ہو جاۓ-

جیسا کہ میٹنگ کے بارے میں کہا گیا کہ اس میں بظاہر پشاور کی نا قابل اصلاح اور بے ضابطہ ٹریفک اور انتہائی خراب نظام نکاسی اب پر بھی بات کی گئی، لیکن ان افسران نے نۓ وزیر اعلیٰ کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اس حوالے سے اب تک کیا کرتے رہے ہیں-

ان حضرات نے یقیناً ماضی میں ایسی کئی میٹنگوں میں شرکت کی ہوگی جہاں انہیں یہ ذمہ داریاں ضرور دی گئی ہوں گی اور اگر کوئی اس پاس موجود ثبوتوں پر غور کرے تو اسے یہ پتا چل جاۓ گا کہ یہ سب اس میں ناکام ہو چکے ہیں-

موجودہ وزیراعلیٰ، سابقہ حکومت میں استعفیٰ دینے سے پہلے، کوئی تین سال تک وزیر آب پاشی رہ چکے ہیں- ان کے عرصہ حکومت میں، اس فصیل بند شہر کے چاروں طرف اور اندر تک پھیلا ہوا مثالی نہری نظام، گندگی اور غلاظت سے بھر گیا تھا، جس پر کسی نے توجہ نہیں دی- یہ نہر شہر اور کنٹونمنٹ کے لئے ایک بہترین نعمت ہو سکتی تھی، اور ایسا ہی تھا جب یہ نہر پہلی بار بنائی گئی تھی-

وہ حضرت، جو موجودہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے ان کا داہنا ہاتھ بنے ہوئے ہیں، اس وقت شعبہ نظام آبپاشی کے سیکرٹری تھے- جب وہ اپنی ذمہ داری سر انجام نہ دے سکے تو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود اسکا نوٹس لیا، اور نہر کو صاف کرنے کے احکامات جاری کیے- وہ احکامات پر عمل درآمد ابھی تک التوا کا شکار ہے-

اس سے پہلے کہ دیر ہو جاۓ، پیروز خٹک صاحب کو اس بات کا احساس ہو جانا چاہیے کہ وہ صرف حکم دے سکتے ہیں- جن لوگوں نے ان احکامات کی تعمیل کرنی ہےوہ وہی ہیں- اس چیز کو وہ انتہائی مشکل سے ٹھیک کر سکتے ہیں- ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے لئے حقیقت پسندانہ اہداف مرتب کریں جنہیں افسران کی ایسی ٹیم کے ذریعہ پورا کیا جا سکے جنہوں نے اپنی سست کارکردگی سے پچھلی کئی حکومتوں کو ناکام بنایا ہے-

پرویز خٹک صاحب 90 دن میں پشاور شہر کو اکھاڑ کر اسکی جگا نیا شہر نہیں تعمیر کر سکتے- اگر وہ کچھ کر سکتے ہیں تو یہ کہ بریف کیس تھامے، پنجاب کے تخت، لاہور سے خیبر پختون خواہ کے شہر پر وارد ہونے والے مشیروں کے اژدہام کو روکیں، جو پشاور کی دفتری حکومت سے بریفنگ لینے کے بعد اس خستہ حال نظام کے علاج کے لئے اپنا بنایا ہوا کوئی اکسیر اعظم چھوڑ جائیں گے، جسے عرف عام میں بیوروکریسی کہا جاتا ہے-

اس بات کو یقینی بنایں کہ 'نیا پاکستان' بنانے کے جوش اور اپنے لئے ملازمتیں پیدا کرنے کے لئے کہیں یہ مشیر، پورے نظام کو ہی نہ اپنی جگہ سے ہلا دیں-

پرویز خٹک اور ان کے سیاسی آقا، ماضی کے کرکٹ اسٹار، عمران خان صاحب کی امیج کے لئے بہتر ہو گا اگر وہ ڈیڈ لائن دینے اور ان کا اعلان کرنے سے پرہیز کریں-

90 دن میں لوکل باڈیز الیکشن کروانے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور لوکل گورنمنٹ کو اس حوالے سے کوئی خبر نہیں کہ اگر یہ الیکشن ہوئے تو کب ہوں گے-

اپنا عھدہ چھوڑتے وقت، حیدر ہوتی نے بڑی محبت سے بیوروکریٹس کی ٹیم کا، انکی سپورٹ کے لئے شکریہ ادا کیا تھا- اب پرویز خٹک کو اپنے اپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ کس قسم کی سپورٹ تھی جس نے حیدرہوتی کی جماعت کو الیکشن تک پنہچایا- بڑی بڑی باتیں اور اپنے افسران پر بے مطلب اورنااہل تعریفوں کی برسات کر کے نہیں بلکہ صحیح وقت پر، صحیح کام، صحیح طریقے سے کرنے پر ہی جناب پرویز خٹک کو آئندہ یاد رکھا جاۓ گا-


ترجمہ: ناہید اسرار

اسماعیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024