ریو ڈی جنیرو میں کراچی کا سی ویو
ویسے تو کراچی اور ریو ڈی جنیرو میں کوئی خاص مماثلت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ مگر ریو اور کراچی کی سیر کرنے بعد معلوم ہوا کہ دونوں شہروں میں کافی یکسانیت ہے۔ دونوں میٹرو پولیٹن شہر ساحلی کناروں پر آباد ہیں اور دونوں ہر کسی کو اپنے ساحلی کناروں پر آ کر زندگی کو قریب سے دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔
میں نے یہاں، کراچی کے سی ویو اور ریوڈی جنیرو کےاپانما کے سمندر، ان کی لہروں، ریت، اور آسمان، جو کہ دونوں میں ہی یکساں ہیں، کا بغور مشاہدہ پیش کیا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں یہ دونوں شہر ملاقات کرتے ہیں، وقت گزارتے یں اور باتوں کے سلسلے چلتے ہیں۔
میں نے کراچی اور اس کے ساحلی کناروں پر کافی وقت گزارا ہے۔ جب میں ریو اور اس کے پانیوں کو دیکھنے گئی اور وقت گزارا تو ایسے کئی طویل اور قلیل لمحے، یا منظر کہیے، دیکھے جنہوں نے مجھے کراچی کے سی ویو کی یاد دلا دی۔
جس طرح ساحلوں پر لہریں آ کر ٹکراتی ہیں اور پھر واپس سمندر کو لوٹ جاتی ہیں، انہی لہروں کی طرح چند لمحے یادوں میں ٹکرا رہے تھے اور کراچی میں دیکھے لمحوں کی یاد تازہ کر رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ لمحے بھی لہروں کی طرح لوٹ جاتے میں نے انہیں تصاویر میں قید کرنے کی کوشش کی۔
لمحے کبھی محض اشارے کی صورت میں تھے، یا لوگوں کے کھڑے اور بیٹھنے کے طرز انداز میں، یا پھر محض تاثرات میں چھپے تھے۔ ان لمحوں اور اس کے ساتھ پاؤل ولریرے کی نظم نے مجھے اس پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔
ہر موقعے پر سمندر اپنے ساتھ لے آتا ہے،
کچھ ایسے قیمتی پل، گہرائی سے محسوس کرنے کو:
کہ جن میں دیوتاؤں کو بھی قرار آتا ہوگا۔
نیلی ہیں کرسیاں ریو میں تو کراچی میں خاتون ہے نیلے کپڑوں میں ملبوس/ نارنگی رنگ کے پھول کھلے ہیں چھتری پر اگر یہاں تو وہاں نارنگی رنگ کی تھیلی ہے تھامی اس خاتون نے۔
بینگنی رنگ ہے گڑیا کے بالوں کا، تو بینگنی رنگ کے کپڑے اس لڑکی کی/ جس طرح لڑکیاں کھڑی سمندر کو دیکھ رہی ہیں، کیا خوب مشابہت رکھتی ہیں ایک دوسرے سے۔
ہاتھ پیچھے باندھے کھڑے غور و فکر میں مصروف دو نوجوان۔
باہیں گھٹنوں کے گرد باندھے بیٹھے سمندر جیسی گہرائیوں میں ڈوبی سوچیں
زرد ہے فٹ بال یہاں، وہاں ہے زرد رنگ کی بالٹیاں/ دونوں ہیں منتظر گاہکوں کے، دونوں کچھ بیچنے کے لیے ہی تو بیٹھے ہیں۔ ساحل کو کسی کا ذرائع آمدن بنتے بھی دیکھا ہم نے۔
نارنگی رنگ کی اس کی ٹوپی ہے، تو نارنگی رنگ کا سنگار اونٹ کا / سرمئی اور سفید اس کا کمبل ہے اور سرمئی اور سفید اونٹ والے کے سر پر لپٹا ایک بڑا رومال ایک آدمی کا۔
یہاں پہاڑیوں کی چوٹی وہاں اونٹ کی چٹان سی پیٹھ
کیا بوڑھا کیا بچہ، دونوں کے ہاتھ ایک ہی طرح ہوا میں ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی طرح مست لہروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں
وہاں سبز بوتل ہے جو سرخ بیک لائٹ پر اٹکی ہے/ یہاں سبز رنگ کی ربن لڑکی کی کمر پر بندھی ہے اور سرخ کرسی قریب خالی پڑی ہے۔
سر کو اپنے ہاتھ پر ٹکائے ہوئے ہے کوئی تو کوئی اپنا ہاتھ سر پر رکھنے والا ہی ہے
وہاں بینگنی رنگ کا اسکارف ہے اور یہاں بینگنی رنگ کے بال
ساحل پر گیند سے نہ کھیلا جائے ایسا کہاں ممکن ہے
چلو کہ کہیں چلتے ہیں
شوخ رنگوں کے کپڑے پہن کر آئے ہیں ساحل پر
سمندر کی ہواؤں سے الجھتے بال
سفید کپڑوں میں ملبوس، دو آدمی، لہروں کے درمیان ساحلِ سمندر سے شاید اور بھی قربت چاہتے ہیں
اورین زیرہ فرانسیسی فوٹوگرافر اور لکھاری ہیں اس کے ساتھ سیرو سیاحت کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ اورین پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں کام کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ اس وقت کراچی میں مقیم ہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں