• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
شائع May 22, 2017

تھر کی جوگن: جس نے اپنے ہاتھوں سے کوبرا کی گردن پکڑی

خالد کمبھار

میراں کی اپنی بنائی ہوئی جھونپڑی میں سے وہ ایک چھوٹی سی ٹوکری لے کر آئی اور ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے کے ٹکڑے سے ڈھکے ٹوکری کے ڈھکن کو کھول دیا۔ جلد ہی وہ اپنی انگلیوں سے ٹوکری کے اندر سو رہے لپٹے ہوئے کوبرا کو ہلانے لگی۔ چار فٹ لمبا سانپ جاگ گیا اور اٹھائے جانے پر غصے کا اظہار کرنے لگا، شاید اس لیے سانپ نے ہچکولے کھانے شروع کر دیے اور پھن پھیلا دیے۔ اس کی آنکھیں میراں کی محتاط نظروں پر ٹکی تھیں۔

میں سندھ میں ضلع تھرپارکر کے مرکزی شہر مٹھی سے 50 کلومیٹر دور سوبھارو نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھا۔ سوبھارو شاہ اس وسیع صحرا میں واقع ایک چھوٹی بستی ہے جہاں میراں اور اس کا خانہ بدوش جوگی قبیلہ رہتا ہے۔

جوگی فصل کی موسم میں کھیتوں میں کام کر کے زندگی کا گزارا کرتے ہیں، اس دوران ان کی اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ سال کے باقی دنوں میں یہ تھرپار کر کے صحرا میں پیدل چل کر سانپ کا کھیل دکھا کر اور ہاتھوں سے بنی چیزیں بیچ کر اپنا گزارا کرتے ہیں۔ انہیں ان کے کاندھوں پر لٹکے رضائی سے بنے تھیلے سے باآسانی پہنچانا جا سکتا ہے، جس میں یہ لوگ سانپ اور بین لیے کر گھومتے ہیں۔

تھرپارکر سے تعلق رکھنے والا میں، بطور ایک ماہر بشریات جوگیوں کی زندگی پر کافی کام کر چکا ہے، سو میں نے ایک خاتون جوگی کے بارے میں سن رکھا تھا، پہلی خاتون جوگی یا جوگن، ایک ایسی نڈر خاتون جو چند زبردست کوبرا سانپوں کو پکڑ چکی تھی۔ اس کی تلاش مٹھی سے شروع ہوئی۔

میں جب اپنے فوٹو گرافر کے ساتھ تھرپار کر کے نا ختم ہونے والے ریتیلے ٹیلوں پر ڈرائیو کر رہا تھا تب سڑک کنارے ایک مقامی باشندے سے ملا جس نے بتایا کہ، "جوگن ٹیوب ویل کے برابر واقع گاؤں میں رہتی ہے۔" وہ سردیوں کے دن تھے اور دن کے دوران درجہ حرارت مناسب 25 ڈگری تھا۔ راتیں بہت ہی ٹھنڈی تھیں۔

ملاقات

گارے اور سرکنڈوں سے بنی چھوٹی جھونپڑیوں کے درمیان ہم نے 50 سالہ میراں کو اپنی دو بکریوں اور گائے کی نگرانی کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ کافی دوستانہ طبعیت کی مالک ہیں۔ ہم جیسے ہی ان کے قریب پہنچے تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ جگمگا اٹھی۔

اس نے ہاتھوں سے بنی رلی بچھا دی جو کہ ہم سب کے بیٹھنے کے لحاظ سے کافی چھوٹی تھی لہٰذا ہمیں ریت پر ہی بیٹھنا پڑا۔ سردیوں کی ٹھنڈ میں ریت کے ذرات میری ہیتھیلیوں پر شدید ٹھنڈک کا احساس پیدا کر رہے تھے۔ میران بڑی ہی پر سکون دکھائی دی۔

وہاں کے مقامی افراد جھلملاتے رنگین دھاگوں کے ٹانکوں سے سجی ہوئی کالی شال لپیٹے ہمارے پاس سے گزرے۔ میراں ان میں سے مختلف نظر آئی — اسے اجرک پرنٹ کا گھاگرا اور قمیض جسے پولکا کہا جاتا ہے، کا عام سادہ پیرہن پہنا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں موتیوں کا ہار لپٹا ہوا تھا اور انہوں نے اپنی انگلی میں ایک بے چمک سونے کی انگھوٹی پہن رکھی تھی۔ انہوں نے سگریٹ سلگائی اور اپنی بیٹی کو چائے لانے کا کہا۔ مسکراتے ہوئے انہوں نے اپنی کہانی بتانا شروع کی۔

میراں نے بتایا کہ، "میرے شوہر جوگی تھے مگر انہیں کوبرا سانپ کو ہاتھ لگانے سے ڈر لگتا تھا۔ وہ جب بھی صحرا میں سانپ پکڑنے جاتے تو مجھے ساتھ لے جاتے تھے۔"

سانپ کی بل دیکھنے پر اس کے شوہر کوبرا سانپ کو پھسلا کر باہر لانے کے لیے مختلف طریقوں کو استعمال کرتے جس پر جوگیوں کو نسلوں سے مہارت رکھتے ہیں۔ جب سانپ بل سے باہر نکل آتا تو وہ ایک لاٹھی کی مدد سے اس کا سر زمین سے لگا دیتا اور پھر اپنی بیوی کو بلاتا۔ میراں وہان آ کر اپنے ننگے ہاتھوں سے کوبرا کو پکڑتیں اور ٹوکری میں ڈالنے میں مدد کرتیں۔

2007 میں دل کے دورے کے باعث اپنے شوہر کی موت کے بعد میراں نے سانپوں کو پکڑنے کا کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مگر انہیں ایسا پہلا موقعہ دو برس بعد نصیب ہوا۔

میراں اپنی بیٹی کے ساتھ کپاس کے کھیتوں میں کام کر رہی تھی تب ایک سانپ اس کی بیٹی کے پاؤں پر سے رینگتے ہوئے گزرا۔ میراں نے بتایا کہ، "تمام مزدور کھیت سے دور بھاگ گئے۔" ان کی خوف میں مبتلا بیٹی میراں پر کھیت سے نکل جانے کی ضد کرتی رہی۔ مگر میراں کا ارادہ کچھ اور ہی تھا۔ میراں نے بتایا کہ، "میں کوبرا پکڑنا چاہتی تھی۔"

قریب کھڑے ایک درخت سے ایک ٹہنی توڑ کر میران نے سانپ کے نشانوں کا پیچھا کیا۔ سانپوں کو ریت میں یہ فائدہ حاصل ہے کیونکہ ریت سانپ کو تیزی سے رینگنے اور با آسانی زمین میں جا کر غائب ہونے میں مدد دیتی ہے۔ مگر وہاں ریت نہیں تھی، صرف پاس میں ایک ندی اور پتھریلی زمین تھی۔ میراں نے جلد ہی کوبرا کو پکڑ لیا۔

ٹہنی کی مدد سے سانپ کا سر زمین پر لگانے کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں سے سانپ کو اٹھا لیا۔ اس کی بیٹی چیخ اٹھی اور سانپ کو نیچے گرانے کی منتیں کرنے لگی۔ ارد گرد کھڑے مزدور حیران تھے۔ میراں نے رلی کے تھیلے کو اٹھایا اور کوبرا کو اندر ڈال کر اس تھیلے کو درخت کی شاخ پر لٹکا دیا۔

جس کے بعد میراں نے بڑے ہی پرسکون انداز میں کھیتوں میں پھر سے کام کرنا شروع کر دیا۔ جس کے بعد وہ کوبرا کو گھر لے گئیں اور اسی ٹوکری میں ڈال دیا جو کہ کبھی اس کے شوہر کی ملکیت تھی۔

میراں کی دلیری اسی دن ہی واضح طور پر نظر آرہی تھی جس دن ہم ان سے ملے تھے۔

اس دن ٹوکری میں جو کوبرا تھے اسے حال ہی میں پکڑا گیا تھا اسی لیے جلد ہی بڑھک بھی جاتا ہے۔ ٹوکری میں چند قیمتی پتھر، چھلے اور ایک چھوٹا چمکیلا پتھر رکھا تھا جسے مَن کہتے ہیں۔

جوگیوں کا ماننا ہے کہ من میں زخم ٹھیک کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ یہ سانپ کے پیٹ میں جمع ریت اور اس کے زہر سے مل کر بنتا ہے۔ سانپ کے کاٹے جانے کا علاج اکثر زخم پر من رکھ کر کیا جاتا ہے جو "جسم سے زہر کو چوس کر باہر نکال دیتا ہے۔"

میراں آرام سے کوبرا کو دوبارہ ٹوکری میں ڈال کر بند کر دیتی ہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اس کے رلی کے تھیلے میں دوسرا چھوٹا سانپ بھی موجود ہے۔ "اگر ٹوکری کھلی چھوڑ دی گئی تو کوبرا چھوٹے سانپ کو کھا جائے گا۔"

میراں نے کوبرا کو دھیرے دھیرے دبا کر ٹوکری تک محدود کر دیا، اس دوران میراں نے بتایا کہ ٹوکری میں موجود ہر شے بیچنے کے لیے ہے سوائے کوبرا اور من کے۔

میں جوگیوں کی ثقافت اور زندگیوں کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کے ساتھ برسا برس گزار چکا تھا۔ مگر اب بھی ان کی کئی ایسی رسومات اور عقیدے ہیں جو کہ اب بھی میرے لیے تجسس کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

مثلاً میراں کی پیشانی پر کسی آسمانی چیز کا نقش بنا ہوا تھا، میراں نے بتایا کہ وہ چاند ہے۔ میری آنکھوں کو وہ نشان کسی ستارے کی مانند لگا۔ میراں کی ہر ایک بھوؤں کے ساتھ جلد پر لکیروں کے نشان تھے۔ وہ مجھے ان نشانوں کا مفہوم نہیں بتائے گی، سوائے یہ بتانے کہ آسمان جوگیوں کے نظام عقیدہ کا ایک بڑا ہی پیچیدہ حصہ ہے۔

میراں کے لیے زندگی سہل نہیں رہی ہے۔ ان کی سات بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان کی دو بیٹیوں، دونوں کی شادی برادری میں ہوئی تھی، ان کے شوہر انہیں چھوڑ چکے ہیں، جوگیوں میں یہ ایک عام سی بات ہے۔

میراں نے بتایا کہ چھوڑ جانے کی بظاہر تو کوئی وجہ نہیں تھی۔ "ہمارے گھروں میں کافی مسائل ہیں۔ مگر ہم بہت کم ہی پولیس کے پاس جاتے ہیں۔ ہم آپس میں ہی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔" میراں کی بیٹیاں اپنی ماں کے پاس آ کر رہنے لگیں۔

ہم جب باتیں کر رہے تھے تو اتنے میں ان کی سب سے چھوٹی 20 سالہ بیٹی اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اس سے جب پوچھا کہ کیا اس نے کبھی سانپ کو پکڑا ہے تب اس نے جواب دیا، "نہیں۔" میراں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ "یہاں تک کہ میرا بھائی بھی سانپوں کو پکڑ نہیں پاتا۔ یہ بہت ہی خطرناک کام ہے۔"

یہ تھیں وہ ماضی کی باتیں جن کی وجہ سے میراں حقیقی طور پر کافی مقبول بنیں۔ میراں ضلع تھرپار کر میں ہاکڑہ دریا کے قریب ننگر پارکر آ کر رہنے لگیں۔ وہ جب سرکنڈوں کی جھونپڑی بنانے میں مصروف ہی تھی کہ تب ایک کوبرا وہاں آن پہنچا۔ وہاں کئی جوگی موجود تھے مگر کسی کے پاس چھڑی نہیں تھی کہ سانپ کو نیچے کی جانب دبا کر پکڑا جا سکے۔ وہ پانچ فٹ لمبا ایک بڑا سانپ تھا۔ جوگیوں نے فیصلہ کیا کہ اس سانپ کو پکڑنا انتہائی خطرناک اور بے فائدہ ہوگا۔ مگر میراں ان سے متفق نہیں تھی۔

انہوں نے ایک جوگی کو کوبرا کے سامنے بین بجانے کو کہا۔ سانپ رک گیا۔ کسی نے بھی اس کے پاس جانے کی ہمت نہ کی۔ میراں دھیرے دھیرے پیچھے کی جانب سے سانپ کی جانب بڑھی اور اپنے ہاتھوں سے کوبرا کو گردن سے پکڑ لیا۔"وہاں موجود تمام جوگیوں میں سے میں ایک خاتون ہونے کے ناطے اس دن مجھے خود پر کافی فخر محسوس ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں برادری کے سامنے خود کو ثابت کر چکی ہوں۔"

جوگی قبیلے کی خواتین کا کام زیادہ تر کھیتوں میں کام کرنا اور گھر سنبھالنا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار، وہ بھیک مانگنے بھی جاتی ہیں۔ سانپوں کو پکڑنا اور ان کی تربیت کرنا صرف مردوں کا شعبہ تھا۔

تھرپارکر میں فصلوں کی کٹائی کا موسم اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ جوگی جلد ہی دوبارہ نقل مکانی شروع کرنے والے تھے۔ میراں کا گھرانہ بھی اپنی بکریوں اور گائے کے ہمراہ کاروان میں شامل ہوگا۔

تمام راستے جوگی سانپوں کی تلاش میں رہیں گے۔ میراں اپنے لیے ایک بڑا کوبرا پکڑنے کی امید کر رہیں تھی۔

سگریٹ کا لمبا کش لیتے ہوئے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے میراں نے کہا کہ، "کوبرا ہی ہماری پہنچان ہے۔"


یہ مضمون اسکرول ان پر شایع ہوا اور بااجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا۔

انگلش میں پڑھیں۔

خالد کمہار

خالد کمہار فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام خانہ بدوش قبیلوں کے رسم رواج، رہن سہن اور عقائد پر ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

دسرت ڪمار May 22, 2017 11:48am
خالد ڪنڀار جوڳين سان رهي پاڻ کي جوڳي سڏائڻ ۾ فخر محسوس ڪيو آهي، اها حقيقت آهي ته خالد ٿر جي وشال ڀٽن تي جوڳين جيئن پنڌ ڪيا آهن، جتي هن جوڳين سميت مختلف قبيلن تي تحقيق جي عمل کي جاري رکيو آهي. مون اڳ به جوڳين بابت لکيل ليک ”جرمن جرڪا“ عنوان سان لکيل آرٽيڪل پڙهيو هو جيڪو معلوماتي هو . هونءَ به خالد جو ڪتاب گودڙي پڻ احساسن جو ترجمان آهي، جنهن لفظن جي جادوگري بدران نسورو احوال اوريل آهي.