مشرف غداری کیس: جائیدادوں کی مکمل تفصیل پیش نہ کی جاسکی
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف دائر سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران وزارت داخلہ نے پرویز مشرف کی جائیداد سے متعلق نامکمل رپورٹ جمع کرادی جس میں سابق صدر کی تین جائیدادوں کی موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے سابق صدرپرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی۔
سماعت کے دوران وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ پرویز مشرف کی کل 7 جائیدادیں تھیں تاہم آرمی ہاؤسنگ اسکیم میں مشرف کے گھر سے متعلق رپورٹ ڈائریکٹر ملٹری لینڈ سے ابھی تک موصول نہیں ہوئی جبکہ خیابان فیصل کراچی میں موجود جائیداد کے بارے میں بھی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کو لکھا جاچکا ہے جہاں سے جواب کا انتظار ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے چک شہزاد فارم ہاؤس میں واقع پرویز مشرف کی جائیداد کی کمشنر اسلام آباد نے تصدیق کی ہے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کی لاہور، گوادر اور کراچی میں موجود دیگر جائیدادوں کے بارے میں ابھی رپورٹس کا انتظار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 7 ماہ بعد مشرف غداری کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز
پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل خصوصی عدالت کی عزت کرتے ہیں اور عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں لہذا وزارت دفاع سے درخواست کی جائے کہ وہ سیکیورٹی کی فراہمی یقینی بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف اس وقت دبئی میں عارضی طور پر رہائش پزیر ہیں اور واپس آنا چاہتے ہیں لیکن انہیں قانون کے مطابق نظر بند کردیا جائے گا۔
جس پر جسٹس آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ وکیل کی درخواست کو سمجھتے ہیں لیکن کیا عدالت ان کے مؤکل کے وارنٹ معطل کرسکتی ہے، کیا ملزم کی حاضری کے بغیر ان کو ریلیف دیا جاسکتا ہے یا کیا عدالت اٹیچمنٹ آرڈر معطل کرسکتی ہے۔
جسٹس آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق وارنٹ معطل نہیں کیے جاسکتے۔
پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے دلائل کی تیاری کے لیے مزید وقت طلب کرنے پر جسٹس آفریدی کا کہنا تھا کہ آپ کو اس درخواست پر پہلے بھی وقت دیا جاچکا ہے لیکن کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔
اس موقع پر سرکاری وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ’فوجداری قانون کے مطابق جو مفرور ہے اس کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہوگا، جبکہ ملزم کو تحفظ دینے کے حکم پر عدالت کو بھی قانون کو دیکھنا ہوگا'۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق مفرور کے لیے کوئی وکیل عدالت میں پیش ہوتا ہے تو اس کا وکالت کا لائسنس معطل ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: راحیل شریف سے متعلق بیان: ’پرویز مشرف نے تمام حدیں پار کردی‘
جسٹس آفریدی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی سماعت ملزم کی بیماری کی وجہ سے معطل نہیں کی جاسکتی اور قانون نے عدالت کو اختیار دیا ہے کہ وہ سماعت جاری رکھے۔
سرکاری وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے آئین توڑا اور ملک میں ایمرجنسی لگائی، ملزم کو کوئی بھی چیز گرفتاری سے دینے سے نہیں روک سکتی اور نہ ہی وہ عدالت کے سامنے اپنی شرائط رکھ سکتا ہے۔
استغاثہ کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ کیس کا ٹرائل مکمل ہو گیا ہے، اب ملزم کے 342 کے بیان کی ضرورت نہیں، عدالت فیصلہ کرے، پرویزمشرف کے پیش ہونے کے بجائے ان کا تحریری بیان ہی کافی ہے۔
جس کے بعد خصوصی عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت کو 18 جولائی تک کے لیے ملتوی کردیا۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں کیس کی سماعت کے دوران وکیل استغاثہ نے اپنا تحریری جواب داخل کراتے ہوئے استدعا کی تھی کہ ملزم عدالت میں حاضر ہونے کیلئے شرائط عائد نہیں کر سکتا۔
استغاثہ کی تقرری کے خلاف درخواست
دوسری جانب خصوصی عدالت کے بینچ نے بعد ازاں استغاثہ کی تقرری کے خلاف شاہد اورکزئی کی درخواست کی سماعت کی۔
جسٹس آفریدی نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ آپ کی درخواست پر سماعت کیسے کی جاسکتی ہیں۔
شاہد اورکزئی نے عدالت کو بتایا کہ میری درخواست کے ٹائٹل پر لکھا ہے کہ سیکشن 92 کے تحت اس کی سماعت ممکن ہے۔
انہوں نے اپنا اعتراض عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ استغاثہ وزیراعظم نوازشریف کے قریبی دوست اور قانونی مشیر ہیں۔
جس پر جسٹس آفریدی کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر کو خواہش کے مطابق تعینات نہیں کیا جا سکتا۔