فیرو آئی لینڈز: حسن، تسکین اور پراسراریت کا جہاں
رواں سال موسم گرما کی ابتدا میں مجھے دنیا میں بسے دور افتادہ 18 جزیروں پر جانا نصیب ہوا جو خود کو فیرو آئی لینڈ کہلاتے ہیں۔ یہ جزیرے شمالی یورپ میں ساحلی کنارے پر بحرہ نارویجن اور شمال بحر اقیانوس کے درمیان واقع ہیں۔
جب سے میں نے فیرو آئی لینڈ کی زندگی کے بارے میں ایک مضمون پڑھا، بس تب سے ہی میرے دل میں آتش فشائی جزیروں پر مشتمل اس بحرالجزائر جانے کی بے قراری پیدا ہوئی۔ جب ان جزیروں کے بارے میں زیادہ پڑھا تو پھر کیا تھا میں نے جلد ہی فلائٹس کی معلومات کے لیے کمربستہ ہو گیا۔ وہاں جانے کی بے چینی اب ناقابل برداشت ہو چکی تھی۔
دور دور تک بکھرے صاف شفاف ہریالی کے نظاروں اور ایک ہی طرح کی طرز تعمیر نے ان جزیروں کو سبزہ زاری اور لازوال حسن بخشا ہوا ہے۔ میں نے جیسے ہی ٹیڑھے میڑھے راستوں سے ہوتا ان جزیروں پر واقع چھوٹی چھوٹی آبادیوں کا رخ کیا تو ایک لمحے کے لیے لگا کہ جیسے میں حقیقت کی دنیا سے ہی منقطع ہو چکا ہوں۔
یہاں انسانوں سے زیادہ بھیڑیں ہیں، یہ جزیرے دنیا کے ان مقامات میں سے ایک ہے جن کی سر زمین کو بہت ہی کم انسانی قدموں نے چھوا ہے۔
سرواگسوا جھیل، جو ایک بحر سے بلند ہے؟
میں نے جیسے ہی اپنا سفر شروع کیا تو اپنی زندگی کے کچھ سحر انگیز مناظر سے ٹکراؤ ہوا۔ واگر کے جزیروں پر واقع یہ خوبصورت جھیل نمایاں طو پر سمندر سے بلند نظر آتی ہے۔ میں یہ نظارہ دیکھ کر حیران و پریشان اور سحر میں گرفتار تھا اور اپنی عقل و نظر کے آگے اپنے متجسس سوالوں کو رکھ دیا۔
یہ دراصل فریب نظر ہے جو یہ منظر پیدا کر دیتا ہے کہ جھیل سطح سمندر سے سینکڑوں فٹ بلندی پر واقع ہے جبکہ درحقیقت جھیل اور سمندر کے درمیان محض 30 میٹر بھر کا ہی فاصلہ ہے۔ مگر ارد گرد موجود پہاڑیوں کی مختلف بلندیاں اس جھیل کا ناممکن سا منظر پیدا کر دیتی ہیں۔
گسدلر گاؤں
فیرو آئی لینڈ کے مغربی حصے میں گسدلر گاؤں آباد ہے۔ یہاں کے مکین دھیمی رفتارِ زندگی کے ساتھ اور روزانہ پہاڑوں پر گرتی اوس جیسے نظاروں کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔
اس جگہ کی اپنی ہی ایک امنگ ہے، اپنے بحری پرندے، پفن ہیں اور یہاں سے دور واقع مائی کنس جزیرے کی وسیع و عریض زمینی حصے کے نظارے بھی دیکھنے کو نصیب ہوتے ہیں۔ گسدلر کے پہاڑوں سے شعرا اور مصنفین کو تخلیقی خیالات کی نئی وسعیتیں، نئے زاویے اور نئی جہتیں چرانے کو مل سکتی ہیں۔
سکسن کی خوبصورتی
جب میں اپنا سفر طے کرتے ہوئے شمال کی طرف برھا تو اسٹرے موئے جزیرے میں واقع ایک چھوٹی سی بستی آ پہنچا جہاں 30 لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اس جگہ کی خوبصورتی کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔
یہ قصبہ پہاڑی چٹانوں پر بسا ہوا ہے، اس کے قریب ہی ایک چھوٹا سا گرجا گھر، ایک میوزیم اور ایک ساحلی جھیل موجود ہے جنہیں بلند و بالا چٹانیں گھری ہوئی ہیں اور ایک راستہ کھلا ہے جو بحرہ نارویجن کو جاتا ہے۔
گاؤں میں داخل ہوں تو طلسماتی چٹانوں، سمر ہاؤس اور دونوں اطراف گرتی آبشاروں میں گھری ایک دلفریب جھیل آپ کا استقبال کرتی ہے۔ میں نے اس جگہ کا نام 'خدا کا کونا' رکھ دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس سے زیادہ کوئی دوسرا خوبصورت نظارہ دیکھ پاؤں کا۔
کالسوئے کی پراسراریت
فیرو آئی لینڈ کے مشرقی حصے میں جب آپ میکلادالر (وادئ عظیم) میں داخل ہوتے ہیں تو ایک پراسراریت بڑھتی جاتی ہے۔
وہاں پہنچنے پر میرا مقصد کاؤپاکونن کے قصے کی تلاش کرنا تھا، جو کہ فیرو آئی لینڈز کے مشہور زمانہ لوک کہانیوں میں سے ایک ہے۔
اس تنہا جزیرے پر موجود حیرت انگیز مناظر اور منفرد فن تعمیر کے درمیان ڈرائیو کے دوران راستہ مجھے 'سیل وومین' کے کانسی کے بنے مجسمے تک لے آیا۔ سیل لوگ فیرو آئی لینڈ کے کلچر کے مطابق وہ سابقہ انسان تھے جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی زندگیاں سمندر کو سپرد کردی تھیں۔
کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کے اندر احساسات کو جنم دیتی ہیں۔ سمجھ لیجیے کہ فیرو آئی لینڈ بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے۔ وہ لوگ جو کچھ نیا دیکھنے کی تمنا دل میں لیے بیٹھے ہیں ان کے لیے یہ ایک دلفریبی اور پراسراریت سے بھرپور جگہ ہے۔ یہاں نہ بڑے بڑے شاپنگ مالز ہیں اور نہ سونیئرز بیچتی دکانیں جن کی آپ کو ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
اگر آپ آسودگی، تسکین اور شور بھری زندگی سے فرار چاہتے ہیں تو بس یہاں چلے آئیے۔
مسعود ممتاز لکھاری، فوٹو گرافر اور سیاح ہیں، وہ اس وقت ٹورنٹو، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ بیجنگ، دبئی، ہرٹفورڈ اور سان فرانسسکو میں اپنی زندگی کے کئی برس گزار چکے ہیں۔ انہیں دنیا گھومنا پسند ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں