ہیروئن اسمگلنگ معاملہ: پی آئی اے عملہ وطن واپس پہنچ گیا
لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر ہیروئن کی مبینہ اسمگلنگ کے الزامات کا سامنا کرنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا عملہ وطن واپس پہنچ گیا۔
جمعرات کی صبح فرسٹ آفیسر سمیت 11 افراد پر مشتمل پی آئی اے عملہ قومی ایئرلائن کی پرواز پی کے 788 کے ذریعے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچا جہاں انسداد منشیات فورس (اے این ایف) اور کسٹمز حکام نے ان سے پوچھ گچھ کی۔
طیارے کے پائلٹ کیپٹن حامد گردیزی پہلے ہی وطن واپس آچکے تھے۔
خیال رہے کہ 16 مئی کو ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والی پی آئی اے کی پرواز کے عملے کی ’جامع تلاشی‘ لینے کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا جبکہ عملے کے پاسپورٹ بھی ضبط کرلیے گئے تھے۔
قومی ایئرلائن کے ترجمان مشہود تاجور نے ہیتھرو ایئرپورٹ پر پیش آنے والے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد سے لندن جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 785 پیر کی دوپہر 2 بج کر 50 منٹ پر ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچی تھی، لینڈنگ پر مسافر طیارے سے اتر گئے تاہم انتظامیہ نے پی آئی اے کے عملے کو حراست میں لے کر طیارے کی جامع تلاشی لی۔
بعد ازاں برطانوی حکام کی جانب سے اس طیارے میں سے منشیات برآمد ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
قومی ایئرلائن کے ذرائع کے مطابق پرواز میں منشیات کی موجودگی کے معاملے پر شواہد اکھٹے کرنے کے لیے انکوائری کا آغاز کیا جاچکا ہے۔
یاد رہے کہ برطانوی حکام نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بارڈر فورس کے افسران نے ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والی پی آئی اے کی پرواز سے ہیروئن برآمد کی اور نیشنل کرائم ایجنسی کے حکام طیارے سے منشیات برآمد ہونے کے بعد معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں۔
ایجنسی کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جبکہ معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔'
پاکستان کی مدد کی پیشکش
دوسری جانب ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس معاملے کی تحقیقات کے لیے برطانوی حکام کو مدد فراہم کرنے کی پیش کش بھی کرچکا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے ہوا بازی سردار مہتاب عباسی نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ 'منشیات کی اسمگلنگ کبھی یک طرفہ نہیں ہوسکتی، طیارے میں جو کچھ بھی چھپایا گیا تھا وہ لندن میں کسی نے وصول کرنا تھا اور ممکنہ طور پر اس میں کوئی بڑا گروہ ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ یہ کام اکیلے سرانجام نہیں دیا جاسکتا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'منشیات چھپانے کے لیے طیارے میں موجود جگہوں کو کھولنا ایک تکنیکی کام ہے جو کوئی عام شخص نہیں کرسکتا'۔
سردار مہتاب عباسی کے مطابق اب تک برطانوی سیکیورٹی ایجنسی نے طیارے سے ملنے والی منشیات کے بارے میں زبانی یا تحریری طور پر پاکستانی حکومت، کسی محکمے، پی آئی اے اور انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کو آگاہ نہیں کیا ہے۔
مشیر ہوا بازی کا مزید کہنا تھا کہ جب تک پاکستانی انتظامیہ کا برطانوی حکام سے سرکاری رابطہ نہیں ہوجاتا اس معاملے میں مزید تفتیش کرنا اور کسی کو ذمہ دار ٹھہرانا مشکل ہوگا۔
برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کو مدد اور انکوائری کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کی پیش کش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی جانب سے عملے کی اندرونی پروفائلنگ کے عمل کا آغاز کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ماضی کی طرح اس بار منشیات اسمگلنگ کے لیے پی آئی اے طیارے کے استعمال کے معاملے کو دفن نہیں ہونے دیا جائے گا اور جس کسی نے مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے قومی ایئرلائن کا استعمال کیا ہے وہ بچ نہیں پائیں گے'۔
ذرائع کے مطابق برطانیہ کے لیے اڑان بھرنے سے قبل پرواز پی کے 785 دو گھنٹے 45 منٹ تک اسلام آباد کے بےنظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پارک رہی تھی جبکہ معیاری طریقہ کار کے مطابق سراغ رساں کتوں نے طیارے کی تلاشی بھی نہیں لی تھی۔
عملے کے ساتھ 'غیرانسانی' سلوک پر احتجاج
دوسری جانب سینئر پی آئی اے افسران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ ہیتھرو ایئرپورٹ پر بدسلوکی کی گئی تاہم برطانوی حکام نے اس حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
لندن میں پی آئی اے چیف ساجد اللہ خان کا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ 'عملے کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ درست نہیں تھا، تمام افراد 8 گھنٹے کی فلائٹ کے بعد آئے تھے اور ان سے 8 گھنٹے تک تفتیش کی گئی'۔
ساجد اللہ خان کے مطابق عملے کے ساتھ کیا جانے والا ایسا برتاؤ 'غیر انسانی' ہے۔