آئی جی سندھ نے رضاکارانہ عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کردی
کراچی: انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ نے سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔
جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران اے ڈی خواجہ کے وکیل ایڈووکیٹ شہاب اوستو عدالت میں پیش ہوئے اور ایک درخواست جمع کروائی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئی جی سندھ کو ان کا عہدہ چھوڑنے کی اجازت دی جائے۔
اپنے وکیل کے توسط سے اے ڈی خواجہ نے درخواست کی کہ ان کی خدمات وفاقی حکومت کے حوالے کردی جائیں۔
ایڈووکیٹ شہاب اوستو نے دلائل دیئے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے حکم نامے کے بعد ان کے لیے روزانہ کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ آئی جی سندھ کے علم میں لائے بغیر کی جارہی ہیں'.
مزید پڑھیں: آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا فیصلہ
تاہم سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے حکم امتناع برقرار رکھا اور بعدازاں کیس کی سماعت کل تک لیے ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ یکم اپریل کو سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے لیے اسلام آباد کو خط لکھا تھا، جس میں عہدے کے لیے سردار عبدالمجید دستی، خادم حسین بھٹی اور غلام قادر تھیبو کے ناموں کی تجویز دی گئی تھی۔
اس خط کے بھیجے جانے کے اگلے ہی روز حکومت سندھ نے اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرتے ہوئے 21 گریڈ کے آفیسر سردار عبدالمجید کو قائم مقام آئی جی سندھ مقرر کردیا تھا۔
بعدازاں پاکستان ادارہ برائے مزدور، تعلیم و تحقیق (پی آئی ایل ای آر) کے سربراہ کرامت علی نے حکومت سندھ کی جانب سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے آئی جی سندھ کی معطلی سے متعلق سندھ حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔
اے ڈی خواجہ کا سندھ حکومت سے جھگڑا
خیال رہے کہ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد گذشتہ برس مارچ میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔
تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث اے ڈی خواجہ سندھ کی حکمراں جماعت کی حمایت کھوتے گئے۔
محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔
اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے سندھ جماعت کے اُن ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔
جس کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں صوبائی حکومت نے اے ڈی خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ہٹانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی 'جبری رخصت' پر حکم امتناع
تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئی جی سندھ 15 دن کی چھٹی پر گئے تھے اور انھوں نے خود اس کی درخواست دی تھی۔
بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد رواں سال جنوری میں اے ڈی خواجہ نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔
تبصرے (1) بند ہیں