غربت و افلاس کے سامنے جنون اور شوق کی جیت
’آخر کس کام پر لگادیا ہے بچی کو؟ ابھی سے ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہے، لڑکیاں ہانڈی روٹی کرنے کے لیے بنی ہیں نہ کہ کھیلنے کے لیے،’ یہ سب سننا پڑا 15 سالہ زینب کو، جب اس نے اظہار کیا کہ وہ کھیلنا چاہتی ہے۔
کورنگی کی رہائشی ایک رکشہ ڈرائیور کی بیٹی نے جب اپنے خواب کو بیان کیا کہ وہ بھی کسی میدان میں اتر کر اپنا آپ لوہا منوانا چاہتی ہے، کچھ بننا چاہتی ہے۔ اپنے ماں باپ کا سہارا بننا چاہتی ہے تو گھر والوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ حیرت تو ہونی ہی تھی کیونکہ جس معاشرے میں وہ سانس لے رہی ہے وہاں لڑکی کا باہر نکل کر کام کرنا بھی ابھی تک ہضم نہیں ہو پا رہا، وہاں اگر کھیل کی بات آ جائے تو کیا توقع کی جائے۔
میری ملاقات زینب سے کورنگی میں ایک کھیل کے میدان میں ہوئی۔ نسیم حمید اکیڈمی میں وہ روزانہ تین سے چار گھنٹے فٹبال کی پریکٹس کرنے آتی ہے۔ میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد اس کی اگلی منزل آگے پڑھنا اور ناروے کا وہ میدان ہے جہاں اس نے جولائی میں جا کر فٹبال کا میچ کھیلنا ہے۔
عمر بھلے ہی کم ہے لیکن خواب بڑے ہیں، جذبہ اور کھیل کا جنون اس کی آنکھوں کی چمک سے عیاں ہوتا ہے۔ میرا پہلا سوال ہی یہی تھا کہ جب کھیلنے کا سوچا تو لوگوں نے کیا کہا؟
اس کا جواب بڑا سادہ اور صاف تھا، ’لوگ تو بولتے رہتے ہیں، خاموش رہ ہی کہاں سکتے ہیں لیکن میں ان کی بات پر غور نہیں کرتی اب میرے گھر والوں کو معلوم ہے کہ میں اس کھیل سے اپنے ماں باپ کا اور ملک کا نام روشن کرنا چاہتی ہوں، میں غریب خاندان سے ہوں لیکن مجھے خود پر یقین ہے کہ میں آگے تک ضرور جاؤں گی۔’
اریبہ بھی ایک مزدور کی بیٹی ہے اور زینب کی طرح ناروے فٹبال میچ کے لیے ٹیم میں سیلیکٹ ہو چکی ہے۔ اس کی داستان بھی کوئی الگ نہیں، میں نے جب پوچھا کہ ایک بچی جس نے پورا شہرِ کراچی بھی نہ دیکھا ہو اور وہ ناروے جائے گی، تو میرے سوال پر ہی اس کے چہرے کی خوشی اور آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ اس کا جواب بھی یہی تھا کہ کبھی سوچا نہیں تھا لیکن یقین ہے کہ محنت کے سبب ہم بھی ایتھلیٹ نسیم حمید کی طرح ملک کا نام روشن کریں گے۔
اسٹریٹ چلڈرن اور وسائل کی کمی کا شکار ہونے والے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والا ایک ادارہ آزاد فاؤنڈیشن لڑکوں اور لڑکیوں کی فٹبال ٹیم کو بین الاقوامی نمائندگی دینے کے لیے آج کل کافی سرگرم ہے جبکہ نسیم حمید کی بہن قرۃالعین حمید ان بچیوں کو فٹبال کی ٹریننگ دیتی ہیں۔
کوچ ہونے کی حیثیت سے جہاں ان پر ان بچیوں کو کھیل کے ساتھ ساتھ پراعتماد بنانے کی اہم ذمہ داری ہے وہیں ان بچیوں کو گھروں سے میدان تک لانے میں بھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ والدین چاہتے ہیں کہ ان کی بچی آگے بڑھے لیکن معاشرے کے بنے فرسودہ روایات اور لوگوں کے سوالات کا خوف ان والدین کے ارادوں کو متزلزل کردیتا ہے۔ ان تمام بچیوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اس ٹیم میں کچھ بچیاں ایسی بھی ہیں جو اسکول نہیں جا سکیں، اگرچہ کچھ گئیں لیکن کھیل کے میدان تک جانے کا کبھی سوچا نہیں تھا۔
مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس ٹیم میں دو بہنیں ایسی بھی ہیں جو سڑکوں پر بھیک مانگتی ہیں،ان کے والدین مر چکے ہیں اور نانی کے پاس رہتی ہیں لیکن کھیلنے کا شوق انہیں اس میدان تک کھینچ لایا۔ اردگرد کے لوگوں کو جب یہ خبر ہوئی تو نانی نے ان کو کھیلنے سے روک دیا، آج کل کوچ ان بچیوں کو واپس میدان میں لانے کے لیے سرگرم ہیں۔
مہنگے مہنگے اسکولوں میں بھاری بھرکم فیسیں اور اسپورٹس گالا کے نام پر ہزاروں روپے وصول کرنے والے اسکول کے بچوں کا بھی کیا اعتماد ہوگا جو میں نے اس میدان میں دیکھا جہاں وسائل کی کمی، غربت و افلاس کا شکار بچیاں تپتی دھوپ میں پسینے سے شرابور فٹبال کھیل رہی تھیں۔
جنہیں یہ معلوم ہے کہ جب وہ تھک کر گھر جائیں گی تو فِرج میں کسی ٹھنڈی بوتل میں ان کے لیے کوئی شربت، گلوکوز گھلا پانی یا شکنجبین نہیں بھرا ہو گا۔ نہ ہی رات کے کھانے میں ان کے لیے اضافی روٹی ہوگی نہ ہی سالن میں بوٹی۔ لیکن میں نے غربت افلاس کے سامنے جنون اور شوق کو جیتتے دیکھا اور ان بچیوں کے اعتماد اور حوصلے کے سامنے ان مجبوریوں کو جھک کر راستہ دیتے دیکھا۔
وہ جب جب فٹبال کو کِک مارتیں، مجھے محسوس ہوتا کہ وہ فٹبال سماج کی بنائی فرسورہ روایات ہیں اور وہ گول ان کی منزل۔ وہ میدان میں جب کھیل رہیں تھی تو ان کا لباس فٹبالر کا تھا، بدن میں بجلی تھی اور جب کھیل ختم ہونے پر کوچ نے سیٹی بجائی تو وہی بچیاں تھوڑی دیر بعد شلوار قمیض میں ملبوس ڈھائی گز کے دوپٹے سے خود کو لپیٹ کر میدان سے گھر کی طرف اور ان لوگوں میں سے نکل کر گزرنے کی تیاری کر رہی تھیں جن کا کام صرف باتیں بنانا ہے۔
ان بچیوں اور ان کی کوچ کو اس میدان میں اترنے کا شدت سے انتظار ہے جو ناروے میں سجے گا۔ اس میدان میں ہر وہ ٹیم اترے گی جس میں وسائل کی کمی، غربت افلاس کو شکست دے کر فٹبال کھیلنے کا جنون رکھنے والے بچے شریک ہوں گے لیکن میں صرف اتنا سوچ رہی ہوں کہ کھیل کا اصل میدان تو نہ جانے کب سجے، یہ بچیاں تو بہت پہلے ہی فتح کا تاج سر پر سجا چکی۔
اس گمنام طالبہ کی طرح جس کے پاس اسائمنٹ پرنٹ کرانے کے لیے جب پیسے کم پڑ جاتے تو وہ ہاتھ سے اسائمنٹ لکھتی تھی۔ جب کتابیں خریدنے کی اجازت جیب نہیں دیتی تھی وہ فوٹوکاپی کروا لیتی تھی اور ایک دن اس نے گولڈ میڈل لے لیا اس لڑکی نے بھی جب یونیوسٹی کا رخ کیا تھا تو اس کے باپ کو بہت لوگوں سے سننے کو ملا تھا بہت بڑی غلطی کرنے جارہے ہو لڑکی کا اتنا پڑھنا ٹھیک نہیں۔ لیکن پھر اسی باپ نے باقی بچوں کو بھی یونیورسٹی جانے کی اجازت دے ڈالی۔
میرا ماننا ہے کہ راستہ کبھی کھلا نہیں ملتا، راستہ بنانا پڑتا ہے سفر تھکاتا ضرور ہے لیکن منزل کی لگن اگر سچی ہو تو رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔
زینب، اریبہ اور اس جیسی بچیوں کا یہ کہنا کہ لوگ باتیں کرتے ہیں، گھر والے بھی پریشان ہو جاتے ہیں لیکن جب ہم کچھ اچھا کر جائیں گے تو یہی لوگ باتیں بنانا چھوڑ دیں گے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس ہلکے معاشرے میں ان کم عمر بچیوں کی بات بڑی وزن دار ہیں۔
اگر ایک تھری پیس سوٹ میں ملبوس لاکھوں تنخواہ وصول کرنے والا اینکر بھی یہ بات ٹی وی پر آکر کہے تو اس کے کہنے میں وہ اثر نہیں ہوگا جو ان بچیوں کے کہنے میں ہے کیونکہ یہ بات وہ بچیاں نہیں بول رہی ان کا جذبہ، ان کی سوچ، ان کا شوق اور آگے بڑھنے کا جنون بول رہا ہے جس نے مجھے بھی لکھنے پر مجبور کیا۔
خدا کرے کہ ان کے والدین کے ارادے بھی ان بچیوں کی طرح پختہ رہیں اور یہ جولائی میں ناروے میچ کھیلنے پہنچ جائیں کیونکہ اب مجھے ان کی جیت سے کہیں زیادہ لوگوں کے منہ بند ہونے کا انتظار ہے۔
تبصرے (6) بند ہیں