• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

سعودی خواتین کو پہلے اس کی اجازت نہ تھی....

شاہی حکومت نے خواتین کو پہلی بار ایسے کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جن کے لیے کچھ سال قبل سوچنا بھی محال تھا۔
شائع May 6, 2017

سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 5 مئی کو ایک خصوصی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے مملکت کی خواتین کو پہلی بار سرپرست مرد کی اجازت سے آزاد کیا۔

سعودی فرماں روا کے حکم نامے میں کہا گیا کہ اب خواتین کو کسی کام کے لیے گھر سے نکلتے وقت مرد سرپرست سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔

تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ گھر سے نکلنا عین اسلامی اور قانونی ہو۔

سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو یہ آزادی ملی، لیکن سعودی عرب کے حالیہ بادشاہ نے اس سے پہلے بھی خواتین کے لیے ایسے اہم فیصلے کیے جو تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔

الیکشن لڑنے اور ووٹ کا حق

سعودی عرب کے سابق فرماں رواں عبداللہ بن عبدالعزیز نے 2011 میں پہلی بار خواتین کو شوریٰ کونسل کے انتخابات لڑنے کا حق دینے سمیت خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا، مگر یہ ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہ ہوسکا کہ خواتین انتخاباتی عمل میں شریک ہوں۔

ان کی وفات کے بعد آنے والی حکومت نے اسی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے خواتین کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی، اور 2015 میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں پہلی بار وہ اس عمل کا حصہ بنیں۔

سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار میونسپل کونسل کے انتخابات میں 18 خواتین منتخب ہوئیں، ان انتخابات میں 900 سے زائد خواتین نے بطور امیدوار حصہ لیا۔

شوریٰ کونسل میں رکنیت

سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق کے اصلاحات پر کام جاری رہا، اور 2013 میں سعودی حکومت نے پہلی بار شوریٰ کونسل میں خواتین کا بطور ممبر تقرر کرنے کی اجازت دی۔

الجزیرہ نے 20 فروری 2013 کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 150 ممبران پر مشتمل سعودی شوریٰ کونسل کی تاریخ میں پہلی بار 30 خواتین نے بطور رکن حلف اٹھایا۔

خواتین کو شوریٰ کونسل میں رکنیت دینے کی منظوری بھی سابق فرماں رواں عبداللہ بن عبدالعزیز نے دی تھی۔

کاروباری عہدوں پر تقرریاں

سعودی عرب میں رواں برس فرروی میں پہلی بار خواتین کو کاروباری عہدوں پر تعینات کیا گیا، اور یہ عمل بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔

ایک ادارے سامبا فنانشل گروپ نے رانیہ محمود کو بینک کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ، سارا السہیمی کو اسٹاک ایکسچینج ’تداول‘ کے بورڈ کا چیئرمین، جب کہ لطیفی الشعبان کو عرب نیشنل بینک کا چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) تعینات کیا گیا۔

تصاویر نصاب کا حصہ

سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2012 میں ہائی اسکول کے انگریزی کے مضمون میں نقاب پوش خواتین کی تصاویر کو شامل کرنے کی اجازت دی گئی۔

اس سے پہلے سعودی عرب کے قیام کے بعد سے تمام اسکولوں کے نصابی کتابوں میں خواتین کی تصاویر شامل کرنے پر پابندی تھی۔

مخلوط عوامی تقاریب

رواں سال فروری میں ہی سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار 3 روزہ کامک میلے کا انعقاد کیا گیا، جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہوئیں، قابل ازیں ایسی کوئی عوامی تقریب منقعد کرنے کیا اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

سعودی عرب کے شہر جدہ میں 16 سے 19 فروی 2017 تک جاری رہنے والے ’کامک کان‘ میلے میں پہلی بار خواتین بھی مردوں کے ساتھ میلے میں شریک تھیں، یہ فیسٹیول سعودی عرب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا فیسٹیول تھا۔

اس میلے میں خواتین پہلی بار مرد کامک کرداروں کے ساتھ تصاویر بناتی نظر آئیں۔

وژن 2030 میں خواتین کا کردار

سعودی حکومت نے وژن 2030 کے تحت پہلی بار اپنے قوانین میں تبدیلیاں کیں، سعودی حکومت اس وژن کے تحت زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو روزگار فراہم کرنے سمیت خواتین کو بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگے لانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

حکومت نے اسی وژن کے تحت ہی ریاض کے جنوب مغرب میں ’القدِیا‘ کے مقام پر 334 مربع کلو میٹر کے رقبے پر ثقافتی شہر بنانے کا اعلان کر رکھا ہے، جس میں خواتین کو اہم عہدوں پر رکھے جانے کا امکان ہے۔

سعودی حکومت نے گزشتہ چند برسوں سے ملک میں تیل کی کم پیداوار کی وجہ سے ہونے والے مالی بحران کے باعث تارکین وطن کے لیے سخت پالیسیاں اپنا رکھی ہیں، تاکہ ان کی جگہ مقامی افراد کو روزگار فراہم کیا جائے۔

اب سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کے شاپنگ مالز اور ہوٹلز سمیت ایسے شعبوں میں بھی کام کرنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں، جن میں کبھی خواتین تو کیا سعودی مردوں کے کام کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

اگلا ہدف خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دینا

اس وقت سعودی عرب وہ واحد ملک ہے، جہاں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے پر پابندی عائد ہے، تاہم رواں ماہ 9 مئی کو شوریٰ کونسل کے طے شدہ اجلاس میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے سے متعلق غور کیا جائے گا۔

سماجی کارکنان اور خود سعودی خواتین کا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے اگلا اچھا قدم خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا ہوگا۔

اس حوالے سے جہاں خواتین نے تاریخی جدوجہد کی ہے، وہیں شوریٰ کونسل میں بیٹھی خواتین نے بھی اس حوالے سے قانون سازی کر رکھی ہے۔

ممکن ہے کہ سعودی عرب حکومت آئندہ چند ماہ میں مشروط ہی صحیح خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دے دے۔