• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

'عدالت کو سیاسی گند دھونے کیلئےاستعمال نہیں کرنا چاہیئے'

شائع May 5, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ سیاسی تنازعات کو عدلیہ سے دور رکھ کر سپریم کورٹ کے وقار کو بلند رکھیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'امریکا کا ایک پرانا نظریہ ہے کہ سیاسی گند کو عدلیہ کی لانڈری میں نہیں دھونا چاہیئے تاکہ ادارے کی ساکھ خراب نہ ہو'۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے حوالے سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت تین ججوں پر مشتمل بنچ کررہا ہے جہاں انھیں اثاثے ظاہر نہ کرنے، آف شور کمپنیاں رکھنے اور پی ٹی آئی کو بیرونی فنڈ حاصل کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا، 'ہمارا مقصد سماعت کے تقدس کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے'۔

اعلیٰ عدلیہ کے چیف نے یہ ریمارکس اُس وقت دیئے جب حنیف عباسی کی جانب سے سینئر وکیل محمد اکرم شیخ دلائل دے رہے تھے کہ ان کے موکل نے سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو نہ کرنے کے عدلیہ کے احکامات کی پاسداری کی لیکن پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس کی پاسداری نہیں کی۔

اکرم شیخ نے شکایت کی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پاناما پیپر کیس کے دوران قریباً ایک سال تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے یاد دلایا کہ جب وہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف 'مشہور' غداری کا کیس چلارہے تھے تو انھیں تشدد کے ساتھ دھمکیاں دی گئی تھیں جبکہ پوتے پوتیوں کی جانب سے جان کے خطرے کے باعث کیس کو چھوڑ دینے کی درخواست کے باوجود انھوں نے اپنے ضبط کو برقرار رکھا۔

انھوں نے کہا کہ غداری کیس کے دوران ان پر بھی حملہ کیا گیا تھا لیکن 'ہمیں اپنے ضبط کو نہیں توڑنا چاہیئے'۔

جسٹس عامر عطا بندیال نے دونوں فریقین کو ہدایت کی کہ عدالت نے میڈیا سے صرف اُس وقت بات کرنے کو کہا ہے جب انھیں کسی چیز کی وضاحت کی ضرورت پڑے اور میڈیا کو عدلیہ کی سماعت کو رپورٹ کرنا چاہیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن تیسری پارٹی کو سیاسی مفادات کو سماعت کے دوران اپنی مرضی کے خیالات کی اختراع کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان غیر ملکی فنڈنگ سے پارٹی چلارہے ہیں‘

جسٹس بندیال نے کہا، 'ہم چاہتے ہیں کہ سماعت بیانات اور اس کے جوابی بیانات کی صورت میں پنگ پانگ کی گیند کی طرح نہ بن جائے، عدالت ججوں کی توہین نہیں دیکھنا چاہتی'۔

اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ وہ پی ٹی آئی کی تحلیل نہیں چاہتے بلکہ 2010 سے 2013 کے دوران الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی پر آئین کی شق 62(1)(f) کے تحت عمران خان کی نااہلی چاہتے ہیں جبکہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 13(2) کے مطابق پارٹی کسی بیرونی ذرائع سے فنڈ حاصل نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ کارپوریٹ اداروں، جو پاکستان کے دشمن بھی ہوسکتے ہیں، سے بھی بیرونی فنڈنگ کے لیے پی ٹی آئی امریکا کو امریکی ادارہ انصاف کے ماتحت کام کرنے والے ادارے فارن ایجنٹ رجسٹریشن ایکٹ (فارا) کے تحت ایجنٹ بنایا ہے، اس لیے تعاون کرنے والوں کے نام دیئے جائیں۔

انھوں نے عمران کی جانب سے 15 فروری 2010 کو امریکی ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کو لکھا گیا خط بھی دکھایا جس کے مطابق پارٹی کو پاکستان اور بیرون ملک فعال بنانے کی خاطر فنڈ جمع کرنے کے لیے پی ٹی آئی امریکا کو ایجنٹ مقرر کرنا شامل ہے جو پاکستانی قانون کے مطابق بیرونی فنڈنگ خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں:عمران خان کی نااہلی: درخواست پر آئندہ ہفتے سے سماعت کا آغاز

سینئر قانون دان نے کہا کہ پی ٹی آئی یو ایس اے کے سات میں سے پانچ ڈائریکٹرز امریکی شہری ہیں اور امریکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈ جمع کرکے بھیجا اور استعمال کیا جارہا ہے، لہذا عمران خان کے خلاف جھوٹ بولنے پر آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) اور 63(1)(p) کے تحت کارروائی ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی یو ایس اے نے پارٹی کے لیے 2010 اور 2013 کے درمیان 2.3 ملین ڈالرز جمع کیے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ نیازی سروسز کو جرسی لینڈ کے قانون کے مطابق 10 مئی 1983 کو رجسٹر کیا گیا اور یہ آف شور کمپنی 2015 تک متحرک رہی اور عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ نیازی سروسز لندن میں ایک اپارٹمنٹ خریدنے کے لیے بنائی گئی اور اس کے اثاثوں کے حوالے سے تاحال الیکشن کمیشن پاکستان میں کچھ نہیں کہا گیا۔

عدالت کی جانب سے انکم ٹیکس کے بارے میں ایک سوال پر اکرم شیخ نے کہا کہ وہ انکم ٹیکس ماہر نہیں ہیں لیکن ٹیکس کے وکیل سے مشورہ لینا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ ایک وقت میں ان چیزوں سمیت جائیداد کو بتانا ضروری تھا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی۔


یہ رپورٹ 5 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024