پاناما پیپرز ردی ہو یا کچرا، پاکستانی احتساب چاہتے ہیں
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے اثاثہ جات سے متعلق تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنائے گئے خصوصی تین رکنی بینچ کے اعلان کے بعد دختر اول، مریم نواز کے چند ٹوئیٹس سامنے آئیں، جن پر رد عمل کی گونج وطن عزیز کی ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کی فضاؤں میں سنائی دی۔
مریم نواز نے اپنے والد کے دفاع میں چند تند و تیز جملوں کے نشتر چلائے، ویسے تو ان کا ہدف سیاسی مخالفین ہی تھے لیکن انہوں نے اپنے لفظی وار سے صحافیوں کو بھی نہیں بخشا۔
لیہ میں وزیراعظم نواز شریف کے جلسہ عام سے پرجوش خطاب کے بعد مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں پاناما پیپرز کو کچرا قرار دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے والوں کو دھول چاٹنا پڑے گی۔
’پاناما پیپرز کا تعلق کرپشن سے نہیں تھا جسے چور اور لٹیرے بھی تسلیم کرتے ہیں، جبکہ شکست خوردہ کو 2018 میں شیطانی سازش میں بہہ جانے کا خوف طاری ہے۔‘
مریم نواز کا کہنا تھا کہ 'پاناما کے معاملے کو سامنے لانے والے صحافیوں کی حالت زار ناقابل فہم ہے، ان صحافیوں کی حکومت گرانے کی ظاہر و خفیہ کوششیں بے سود رہیں'۔
مریم نواز کے ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے بیس تیئن ابرمیئر نے اپنے پیغام میں لکھا کہ 'افسوس کے ساتھ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاناما پیپرز کا تعلق کرپشن سے تھا، اس دستاویز میں کرپشن کے کئی حیران کن کیسز سامنے آئے اور وہ سب اصلی تھے'۔
فریڈرک نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ 'یہ لیکس دنیا بھر کے 80 ممالک میں 150 سے زائد تحقیقات، تفتیش اور آڈٹ کا سبب بنیں'۔
یہ ہلکی پھلکی نوک جھونک تھا تو چند جملوں کا تبادلہ جو ایک طرف تو کچھ افراد کے لیے تفریح طبع کا سامان بنا جبکہ کچھ لوگوں کے لیے سیاست چمکانے کی پالش بن گیا مگر جناب کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس پورے معاملے کو نہایت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔
چلیے اب ٹوئٹرز اکاؤنٹس سے ہٹ کر مغرب کو چلیں، تقابلی سیاست، بین الاقوامی معاشیات کے ماہر اور مشہور زمانہ کتاب ’قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟’ کے مصنف جیمز رابنسن کہتے ہیں کہ قومیں اپنے جغرافیہ اور کمزور معیشت کی وجہ سے نہیں بلکہ ‘’سیاست’’ کی وجہ سے برباد ہوتی ہیں۔
اہل مغرب نے اس اصول کو خوب سمجھا ہے، اسی لیے وہ اپنے اہم معاملات پر سیاست نہیں کرتے بلکہ ان کا حل تلاش کرتے ہیں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر عمل کا راستہ اپناتے ہیں، چنانچہ اہل مغرب کے اسی رویئے نے انہیں ناکامیوں کے اندھیروں سے نکال کر ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
03 اپریل 2016 کو منظرعام پر آنے والے پاناما پیپرز میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان امیر، طاقتور اور بااثر افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا تھا، جنہوں نے ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، اثاثہ جات اور خفیہ دولت چھپانے کے لیے آف شور کمپنیوں کا سہارا لیا، جن میں دنیا بھر کے 140 سیاست دانوں اور عوامی عہدوں پر فائز لوگوں کے نام بھی شامل تھے۔
پاناما پیپرز کے تہلکہ خیز انکشافات کے بعد دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک حسب روایت زیرو ٹالرنس یا برداشت کی کوئی گنجائش نہیں، کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیوں اور اپنے ملکی قوانین کو مزید سخت بنانے کے لیے متحرک ہوگئے۔
جانیے: پاناما پیپرز: پاکستانیوں کے متعلق انکشافات
لیکن افسوس کہ احتساب کے معاملے پر ہمارے رسم و رواج تو دنیا سے قدرے مختلف ہیں اور شاید اسی وجہ سے پاناما لیکس سامنے آتے ہی حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز اور جوشیلی اپوزیشن کے درمیان بیانات کی زبردست جنگ شروع ہوگئی جو تاحال جاری ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان اور متعلقہ ادارے اس بات کی جانچ پڑتال کرتے کہ سمندر پار آف شور کمپنیوں اور اثاثہ جات میں جن افراد نے بھی سرمایہ کاری کی، آیا کہ وہ پیسہ پاکستان سے قانونی طریقے سے باہر گیا یا نہیں اور دوسرے ملکوں میں جائیدادیں بنانے والوں نے ٹیکس دیا یا نہیں۔
لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک میں پاناما انکشافات کا معاملہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان گویا ایک سیاسی فٹبال بن گیا۔
جبکہ دوسری جانب پاناما انکشافات کے بعد دنیا کے 79 ملکوں میں 150 سے زائد انکوائریاں، آڈٹ اور تحقیقات ہوئیں۔ دنیا بھر میں ٹیکس چوروں اور کرپشن میں ملوث 6 ہزار 520 افراد اور کمپنیوں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں۔ مختلف ممالک نے کرپشن کی بھینٹ چڑھنے والے 11کروڑ ڈالر (11 ارب روپے سے زائد) بھی برآمد کیے۔
مالٹا کی اہم شخصیات کی آف شور کمپنیاں ہونے کے انکشافات کے بعد وہاں بڑے پیمانے پر تحقیقات کی گئیں جبکہ ان کی روشنی میں مالٹا کے حکام نے ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ کی رقم ٹیکس چوروں سے برآمد کر لی۔
کولمبیا میں ٹیکس چوروں، منی لانڈرنگ کرنے والوں سے 8 کروڑ 80 لاکھ ڈالر برآمد کیے گئے۔ میکسکو میں 2 کروڑ ڈالر وصول کیے گئے۔ سلوینیا نے ایسے افراد سے 10 لاکھ ڈالرز واپس لیے۔ یوراگوئے نے ٹیکس چوروں، منی لانڈرنگ کرنے والوں سے 10 لاکھ ڈالرز کی ریکور کر لیے۔
پڑھیے: پاناما فیصلہ، فلم ابھی باقی ہے!
ڈنمارک نے ٹیکس فراڈ تحقیقات کے لیے پاناما لیکس کا ڈیٹا خریدا۔ ڈینش حکومت نے خفیہ اثاثے بنانے، ٹیکس چوروں اور آف شور کمپنیاں بنانے والوں سے تحقیقات کے لیے 60 لاکھ کرونئے (9 لاکھ ڈالرز سے زائد) ادا کر کے پاناما لیکس کا ڈیٹا خرید لیا پاناما لیکس میں ڈنمارک کی 600 شخصیات کا نام آیا تھا۔
ڈنمارک کے وزیر محصولات نے کہا تھا کہ ’لازم ہے کہ ہم ٹیکس سے بچنے والوں یا جو دولت چھپاتے ہیں، جیسا کہ پاناما کے کیس میں ہوا، کے خلاف ضروری اقدامات کریں، اسی لیے ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاناما لیکس کا ڈیٹا خریدنا عقلمندی کا کام ہے۔
بھارت میں پاناما لیکس کی تحقیقات میں تیزی لانے کے لیے ملٹی ایجنسی گروپ قائم کیا گیا، 05 اپریل 2016 پاناما لیکس میں دنیا بھر کے دولت چھپانے اور آف شور کمپنیاں بنانے والے افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا تھا، جس میں آئس لینڈ کے 600 سے زائد افراد بشمول وزیراعظم سگمنڈرداویو گُنلاؤگسن کا نام بھی شامل تھا۔ آئس لینڈ میں وزیراعظم کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے اور بالآخر وزیراعظم سگمنڈر کو عوامی دباؤ کے نتیجے میں استعفیٰ دینا پڑا۔
10 اپریل 2016 کو یوکرائن جہاں پہلے ہی بڑھتی کرپشن کے خلاف عوامی احتجاج جاری تھا وہاں کے وزیراعظم ارسینی یاٹسنیک نے پاناما پیپرز میں ملکی صدر پروشینکوف کا نام آنے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ 15 اپریل 2016 کو اسپین کے وزیر صنعت جوز مانئیول کا نام پاناما پیپرز میں آف شور کمپنیاں بنانے والوں میں آیا تھا جس کے بعد وہ بھی مستعفیٰ ہوگئے تھے۔
بارسیلونا کے مشہور زمانہ فٹبال کھلاڑی لیونل میسی کا نام بھی پاناما اسکینڈل میں سامنے آیا تھا، میسی اور اس کے والد پر الزام عائد ہوا کہ انہوں نے ٹیکس چوری کی اور آف شور کمپنی بنائی، اسپین کے حکام نے ان پر الزامات کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے بعد ٹیکس چوری کے مقدمے کی سماعت ہوئی تو میسی اور ان کے والد جارج میسی ٹیکس فراڈ کے تین الزامات میں مجرم ثابت ہوئے، جس پر ہسپانوی عدالت نے انہیں 21 ماہ کی سزا سنائی۔
پڑھیے: ن لیگ کا اگلا رہنما کون؟
اپریل 2016 میں پاناما پیپرز میں آف شور کمپنیاں بنانے والوں میں چلی میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے صدر گنزالو دیلاویو، ایتھکس کمیٹی کے ممبر جان پیڈرو اور بینک اے بی این ایمرو کے بورڈ ممبر میز ستادت کے ناموں کا بھی انکشاف ہوا تھا، تمام حضرات اپنے اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہوئے۔
21 اپریل 2016 کو امریکی اٹارنی جنرل نے پاناما لیکس کے تناظر میں ٹیکس چوروں کے خلاف جامع تحقیقات کا اعلان کیا۔
پاکستان ہر گز غریب ملک نہیں لیکن اس کے باوجود ہم ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اپنی قومی ذمہ داریوں کو پوری ذمہ داری سے ادا نہیں کرتے۔
قومی خزانہ کروڑوں پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی ہے لیکن پھر بھی ہم یہ سنتے ہیں کہ فلاں فلاں نے قومی خزانے کو اربوں اور کروڑوں کا ٹیکہ لگایا لیکن ہر عام پاکستانی کو یہ سننے کی صرف حسرت ہی رہی ہے کہ قومی خزانے کی لوٹ مار کرنے والوں کو احتساب کے شکنجے میں جکڑ لیا گیا ہے۔
پاناما انکشافات کے ایک سال بعد بھی ہم صرف ٹی او آرز سے نکل کر جے آئی ٹی تک ہی پہنچے ہیں اور غالب امکان ہے کہ یہ معاملہ کسی مٹی پاؤ فارمولے کے تحت etc. یعنی وغیرہ وغیرہ یا پھر عین غین ہو جائے۔
پاناما پیپرز کے بعد دنیا میں بدعنوانی سے نفرت اور احتساب کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، لوٹے گئے اربوں ڈالر برآمد کیے گئے اور کرپشن الزامات پر دنیا کی کئی اہم شخصیات نے اپنے عوامی عہدے چھوڑ دیے۔
بہرحال پاناما پیپرز ردی ہو کچرا یا بہت کارآمد اس بحث سے ماوراء ایک عام پاکستانی کی خواہش یہ ہے کہ قومی دولت پر ہاتھ صاف کرنے والوں کا فوری احتساب کیا جائے۔
تبصرے (4) بند ہیں